انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ابو سفیان مدینہ میں ابو سفیان نے مدینے میں آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکرصدیقؓ ،عمر فاروقؓ، علی کرم اللہ وجہہ سے الگ الگ باتیں کرنی چاہیں مگر کسی نے اُس کو کوئی جواب نہ دیا، اُس کو بڑی مایوسی ہوئی، آخر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اُس کے ساتھ یہ مذاق کیا کہ اُس سےکہا تو بنی کنانہ کا سردار ہے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خود کھڑے ہوکر بہ آواز بلند یہ اعلان کردے کہ میں صلح کی میعاد کو بڑھاتا اور عہد واقرار کو مضبوط کئے جاتا ہوں،ابوسفیان نے اسی طرح کھڑے ہوکر مسجد میں اعلان کیا اورفوراً مدینہ سے روانہ ہوگیا جب وہ مکہ میں پہنچا تو قریشِ مکہ نے اُس کا خواب مذاق اُڑایا اورکہا کہ علیؓ نے تیرے ساتھ تمسخر کیا تھا،بھلا معاہدے کہیں اس طرح کرتے ہیں، ابو سفیان کو اپنی اس حماقت پر بڑی ندامت حاصل ہوئی ،ابو سفیان کی روانگی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو مکہ کی طرف روانگی کا حکم دیا، اُس وقت تک خفیہ جنگ کی تیاریاں تو تمام صحابہ کررہے تھے،لیکن یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اسلامی لشکر کس طرف کو روانہ ہوگا اورکس قوم یا علاقہ پر حملہ ہوگا،اس احتیاط سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ قریش کو پیشتر سے اس حملہ کی خبر نہ ہونے پائے،ایک صحابی حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے قریش کو مسلمانوں کے حملہ آور ہونے کی اطلاع دینے کے لئے ایک خط کسی عورت کے ہاتھ اُن کے پاس روانہ کیا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام الہی کے ذریعے اُس کی اطلاع ہوگئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالبؓ اورزبیر بن العوامؓ کو روانہ کیا کہ فلاں عورت قریش مکہ کے نام ایک خط لے جارہی ہے اُس کو گرفتار کرلاؤ، انہوں نے روضہ جناح میں پہنچ کر اُس کو گرفتار کیا، اُس کا تمام اسباب وسامان دیکھا،خط کا پتہ نہ چلا،حضرت علیؓ نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غلط خبر ملے،خط ضرور اس کے پاس ہے،چنانچہ انہوں نے عورت کو ڈرایا دھمکایا تو اس نے اپنے جوڑے یعنی سر کے بالوں میں سے خط نکال کردیا، دیکھا تو خط حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ کا تھا، عورت اورخط کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، حاطبؓ طلب کئے گئے، انہوں نے کہا کہ چونکہ مکہ میں میرے عزیز واقارب ہیں اس لئے میں نے چاہا کہ اہل مکہ پر ایک احسان کردوں اوراُن کو اطلاع دے دوں کہ تم پر حملہ ہونے والا ہے تاکہ اہل مکہ ممنون ہوکر میرے عزیز واقرباء کو ضرر نہ پہنچائیں یہ سن کر حضرت عمر فاروقؓ نے برا فروختہ ہوکر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیجئے کہ اس منافق کی گردن اُڑادوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمرؓ حاطبؓ کی غلطی ہے جو قابلِ عفو ہے ؛چنانچہ حضرت حاطبؓ کی حرکتِ بے جا معاف فرمادی گئی۔