انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو امامہ باہلیؓ نام ونسب صدی نام، ابو امامہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے،ابو امامہ بن عجلان بن وہب بن عریب بن وہب بن رباح بن حارث بن وہب بن معن بن مالک بن اعصر بن سعد بن قیس بن عیلان بن مضر، باہلہ معن بن مالک کی بیوی تھیں،معن کی اولاد اپنی ماں کی نسبت سے باہلی مشہور ہوئی۔ اسلام اور بیعت رضوان ابو امامہ ان خوش قسمت بزرگوں میں ہیں جنہوں نے اسلام کی دعوت کا جواب اس وقت دیا،جب اس کا جواب نوکِ سنان اورتیر وخنجر سے ملتا تھا،اسلام کے بعد سب سے اول غزوۂ حدیبیہ میں شریک ہوئے اوربیعتِ رضوان کا شرف حاصل کیا ،جب مسلمانوں کو رضوانِ الہی کی یہ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ (الفتح:۱۸) اللہ راضی ہوا مسلمانوں سے جب انہوں نے تمہارے ہاتھوں پر درخت کے نیچے بیعت کی۔ سند ملی تو امامہ نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ! میں بھی ان لوگوں میں ہوں،جو بیعت کے شرف سے مشرف ہوئے،آپ نے فرمایا تم مجھ سے ہوا ورمیں تم سے ہوں۔ (اصابہ:۳/۲۴۱) دعوتِ اسلام قبولِ اسلام کے بعد آنحضرتﷺ نے انہیں ان کے قبیلہ میں دعوتِ اسلام کے لیے بھیجا، جس وقت یہ پہنچے اس وقت اہل قبیلہ اونٹوں کو پانی پلانے کے بعد ان کا دودھ دوہ کر پی رہے تھے،ابو امامہ کو دیکھا تو مرحبا بالصدی بن عجلان" صدی بن عجلان خوش آمدید" کہہ کر استقبال کیا،قبیلہ میں ان کے اسلام کی خبر ہوچکی تھی؛چنانچہ استقبال کے بعد سب سے پہلا سوال یہ ہوا کہ ہم نے سنا ہے،کہ اس شخص (رسول اللہ) کے ساتھ تم بھی بے دین ہوگئے؟ ابو امامہ نے جواب دیا نہیں بے دین تو نہیں ہوا، ہاں خدا اوراس کے رسول پر ایمان لایا ہوں اور رسول اللہﷺ نے تمہارے پاس بھیجا ہے،تاکہ تمہارے سامنے اسلام اوراس کے قوانین پیش کروں، ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ بعض اہل قبیلہ ایک بڑے کاسہ میں خون لائے،سب حاضرین بڑے ذوق و شوق سے کھانے لگےاور ابو امامہ کو بھی شرکت کی دعوت دی، انہوں نے کہا تم لوگوں پر افسوس آتا ہے میں اس شخص کے پاس سے آرہا ہوں جس نے بحکم خدا اس چیز کو حرام قرار دیا ہے،لوگوں نے وہ حکم پوچھا، ابوامامہ نے یہ آیۃ"حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ"(المائدہ:۳) تک تلاوت کرکے سنائی اور اسی سلسلہ میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی،اس کا جواب انکار کی صورت میں ملا، ابو امامہ کو پیاس معلوم ہوئی،پانی مانگا ،لیکن دعوت اسلام کے بعد ہی تمام اہل قبیلہ ان سے پھر گئے اورجنہوں نے تھوڑی دیر پہلے مرحبا کہہ کر استقبال کیا تھا، ان ہی کی جانب سے یہ جواب ملا کہ تم تڑپ تڑپ کر مرجاؤ،مگر تم کو پانی کا ایک قطرہ نہیں مل سکتا، یہ خشک جواب سن کر ابو امامہ تپتی ہوئی ریت پرسوگئے، خواب میں قدرت الہی نے سیراب کردیا،سوکر اُٹھے تو قبیلہ والے اپنی بدخلقی پر باتیں کررہے تھے کہ تمہارے سرداروں میں سے ایک شخص تمہارے پاس آیا اور تم نے دودھ اور خرمے تک سے اس کی تواضع نہ کی،اس احساس کے بعد اہل قبیلہ نے ان کے سامنے دودھ اورخرما پیش کیا، مگر انہوں نے اس کے قبول کرنے سے انکار کردیا اورکہا خدا نے مجھ کو سیراب کردیا ہے (مستدرک حاکم:۳/۶۴۲) حافظ ابن حجر کی روایت کے مطابق ان کا قبیلہ آخر میں ان کی کوششوں سے مشرف باسلام ہوگیا۔ (اصابہ:۲/۲۴۱) وفات جنگِ صفین میں حضرت علیؓ کے ساتھ تھے،پھر شام میں اقامت اختیار کرلی اوریہیں عبدالملک اموی کے عہد ۸۶ ھ میں وفات پائی،وفات کے وقت ایک سو چھ برس کی عمر تھی، ابن سعد نے ۶۱ برس کی عمر لکھی ہے،لیکن یہ صریحاً غلط ہے، اس لیے کہ اس صورت میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ابو امامہ کی پیدایش ماننا پڑے گی۔ فضل وکمال فضل وکمال میں امتیازی پایہ رکھتے تھے، حدیث کی تبلیغ واشاعت ان کا خاص مشغلہ تھا، جہاں دو چار آدمی ایک جگہ ملجاتے ان کے کانوں تک احادیثِ نبویﷺ پہنچادیتے ،سلیم بن عامر راوی ہیں کہ جب ہم لوگ ابو امامہ کے پاس بیٹھتے تو وہ ہم کو احادیث کی بہت اہم باتین سناتے اورکہتے کہ ان کو سنو سمجھو اورجو سنتے ہو اس کو دوسروں تک پہنچاؤ (مسند دارمی باب البلاغ عن رسول اللہ ﷺ وتعلیم السنن) لوگوں سے کہتے کہ ہماری یہ مجلسیں تم لوگوں کے لیے خدائی تبلیغ (گاہیں)ہیں، رسول اللہﷺ کے ذریعہ سے جو احکام ہمارے لیے بھیجے گئےان کو آپ نے ہم تک پہنچایا اب تم لوگ ہم سے جو اچھی باتیں سنوان کی تبلیغ کرو اور دوسروں تک پہنچاؤ۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۲،صفحہ:۱۳۲) اس مشغلہ کی وجہ سے تشنگانِ علم اکثر اس سرچشمۂ فیض کے گرد جمع رہتے اور شایقینِ حدیث ان سے حدیثیں سنتے،سلیمان بن حبیب محاربی فرماتے ہیں کہ میں حمص کی مسجد میں داخل ہوا، مکحول اورابن ابی زکریا بیٹھے ہوئے تھے ،مکحول نے کہا :کیا اچھا ہوتا اگر ہم لوگ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے صحابی ابو امامہ کے پاس چلتے ان کا حق ادا کرتے اوران سے حدیث سنتے،اس تجویز پر ہم لوگ اٹھ کر ابو امامہ کے پاس پہنچے،سلام وجواب کے بعد انہوں نے کہا تمہارا آنا تمہارے لئے رحمت اورتم پر حجت ہے،میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس امت کے لیے جھوٹ اورعصبیت سے زیادہ کسی چیز کے لیے خوف کرتے ہوئے نہیں دیکھا،اس لیے خبردار جھوٹ اور عصبیت سے ہمیشہ بچتے رہنا، آپ نے ہم کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ کا یہ فرمان تم لوگوں کے کانوں تک پہنچادیا جائے،ہم اپنا فرض ادا کرچکے، اب اسے دوسروں کے کانوں تک پہنچانا تمہارا فرض ہے۔ (اسد الغابہ:۳/۱۶) ان کے مرویات کی مجموعی تعداد (۲۵۰) ہے ان میں سے پانچ روایتیں بخاری میں اور تین مسلم میں ہیں (تہذیب الکمال:۱۷۴) ان کے رواۃ اور تلامذہ میں ،سلیمان بن حبیب محاربی،شداد بن عمار دمشقی،محمد بن زیاد الالہانی، ابو سلام الاسود، مکحول الشامی، شہر بن جوشب، قاسم بن عبدالرب،رجاء بن حیوٰۃ،سالم بن ابی الجعد، خالد بن سعدان ،ابو غالب الراسی، اورسلیم بن عامر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب :۴/۴۲۰)