انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امام نسائی ؒ کا مسلک حضرت امام اپنی عمر کے آخری حصے میں دمشق چلے آئے، آپ نے "خصائص علی" کی نام سے ایک کتابچہ تالیف فرمایا، آپ پرشیعیت کا الزام لگا، ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے کئی علماء اس پروپیگنڈے سے اثر لیے بغیر نہ رہ سکے، امام نسائی پر شیعیت کا الزام بالکل غلط ہے، سنن نسائی کے "بَابُ ذِكْرُ الْإِمَامَةِ وَالْجَمَاعَةِ إِمَامَةُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ" کا مطالعہ کریں، وہاں آپ کو حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ الفاظ ملیں گے: "أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَبَابَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَابَكْرٍ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَابَكْرٍ"۔ (سنن النسائی،كِتَاب الْإِمَامَةِ،بَاب ذِكْرُ الْإِمَامَةِ وَالْجَمَاعَةِ إِمَامَةُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ، حدیث نمبر:۷۶۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: کیا تم نہیں جانتے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو(مرضِ وفات میں) لوگوں کی امامت پر مامور فرمایا؛ سواب تم میں سے کون چاہتا ہے کہ ابوبکرؓ سے آگے بڑھے، اس پر انصار نے کہا ہم اللہ کی پناہ لیتے ہیں کہ ابوبکرؓ سے آگے بڑھنے کی جسارت کریں۔ کیا شیعہ علماء اس قسم کی روایات اپنی کتابوں میں لاسکتے ہیں؟ حضرت امام جب دمشق میں آئے توان دنوں وہاں خارجیت کا بہت چرچا تھا، حضرت امام نے مذہب اہلِ سنت کے تحفظ کے لیے حضرت علیؓ کے فضائل پر خصائصِ علی کے نام سے ایک کتاب لکھی، خارجیوں نے اس کتاب کے حوالے سے آپ پر تشیع کا الزام لگایا، فقہی اعتبار سے آپ شافعی المذہب تھے (بستان المحدثین:۱۲۳) سنن نسائی کے کتاب الحج سے اس کی تائید ہوتی ہے، جماعت اہلِ حدیث کے نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھی آپ کوشافعی قرار دیا ہے (ابجد العلوم:۸۱۰) البتہ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے آپ کوحنبلی لکھا ہے اور سنن نسائی کے باب وقت الجمعہ سے اس کی شہادت ملتی ہے، امام احمدؒ کے نزدیک نمازِ جمعہ زوال آفتاب سے پہلے بھی ہوسکتا ہے؛ یہاں امام نسائی نے اسی مؤقف کواختیار کیا ہے، امام شافعی کے نزدیک امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے؛ مگرامام نسائی یہاں قرآنِ کریم کی آیت "وَإِذَاقُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ" (الاعراف:۲۰۴) کا باب باندھ کر حضورﷺ کی حدیث پیش کرتے ہیں "وَإِذَاقَرَأ فَأَنْصِتُوْا" (سنن النسائی،كِتَاب الِافْتِتَاحِ،بَاب تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّوَجَلَّ ﴿ وَإِذَاقُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ ، حدیث نمبر:۹۱۲، شاملہ، موقع الإسلام) (جب امام پڑھنا شروع کرے توتم چپ ہوجاؤ) یعنی امام کے پیچھے قرآن پڑھنا نہیں چپ رہنا چاہیے، ظاہر ہے کہ یہ بات شافعی مسلک کے مطابق نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ محدثین کرام اپنے مسلک میں ہرگز تنگ نظر نہ تھے؛ انہوں نے ہرمسلک اور ہرقسم کی روایات اپنی کتابوں میں پیش کی ہیں، امام نسائی کا مسلک حنبلی مذہب کے موافق رکوع کے وقت رفع یدین کرنے کا ہے؛ اِسی طرح وہ دونوں سجدوں کے درمیان رفع یدین کے قائل تھے؛ مگران کی انصاف پسند طبیعت دیکھئے، حضرت عبداللہ بن مبارک کی سند سے اپنی سنن میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) کی یہ روایت لاتے ہیں کہ کیا میں تمھیں حضورﷺ کے طریقے کے مطابق نماز نہ پڑھاؤں آپ نے نماز پڑھائی اور شروع نماز میں رفع یدین کیا؛ پھر کہیں نہ کیا۔ (سنن نسائی:۱/۱۲۳) محدثین اہلِ سنت کی انصاف پسندی اور وسعت نظری کی داد دیجئے کہ اپنے مسلک سے قطع نظر کس طرح متوازی روایتوں کو بھی اپنی کتابوں میں جگہ دیتے ہیں؛ لیکن یہ روش صرف فروع تک ہے، اصول میں وہ کسی نرمی کوراہ نہیں دیتے۔