انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت امام کے اقران جولوگ حضرت امام کواپنے وقت کے دیگر اہلِ علم سے جدا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ حضرت امام قرون وسطیٰ تک صحابہ وتابعین کے علم کے اِسی طرح وارث شمار ہوتے رہےہیں جس طرح حضرت سفیان الثوری، امام اوزاعی اور امام مالکؒ وغیرہم من جبال اہلِ العلم اور آپ کا علم اِسی درجہ میں سند سمجھا جاتا رہا ہے، جس طرح اِن حضرات کا..... حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) ایک جگہ علم منطق جدل اور حکمت یونان پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "لم تكن والله من علم الصحابة ولاالتابعين ولامن علم الأوزاعي والثوري ومالك وأبي حنيفة وابن أبي ذئب وشعبة ولاوالله عرفها ابن المبارك ولاأبويوسف القائل من طلب الدين بالكلام تزندق ولاوكيع ولابن مهدي ولابن وهب ولاالشافعي"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۲) ترجمہ:یہ علم بخدا صحابہ اور تابعین کے علوم میں سے نہیں نہ یہ اوزاعی، سفیان ثوری، امام مالکؒ، امام اابوحنیفہؒ، ابنِ ابی ذئب اور امام شعبہ کے علوم میں سے ہیں، بخدا انہیں نہ عبداللہ بن مبارک نے جانا نہ امام ابویوسفؒ نے نہ امام وکیعؒ نے نہ عبدالرحمن بن المہدیؒ نے نہ ابنِ وہب نے اور نہ امام شافعیؒ نے۔ کچھ انصاف کیجئے اور دیکھئے کہ اُمتِ اسلامیہ نے جن جبالِ علم کوجنم دیا اور جن کے علم وفن پر یہ امت اب تک نازاں ہے، کیا ان میں بلاکسی استثناء امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے؟ ان حضرات نے اگرحدیث کم روایت کی ہے تواس کی وجہ یہ تھی صالحین اوّلین کا ایک طبقہ یہ مسلک رکھتا تھا کہ زیادہ حدیث روایت نہ کی جائے، علامہ شعبیؒ فرماتے ہیں: "کرہ الصالحون الاولون الاکثار من الحدیث"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۷) علامہ ذہبیؒ نے مذکورہ بالا عبارت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کوکن ائمہ علم کے ساتھ برابر کا شریک کیا ہے، سفیان الثوریؒ، امام مالکؒ اور اوزاعیؒ کے ساتھ اور یہ وہ حضرات ہیں کہ اگر کسی بات پر متفق ہوجائیں تواس کا سنت ہونا ازخود ثابت ہوجاتا ہے؛ گواُس کی سنیت پر کوئی نص موجود نہ ہو، اسحاق بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "إذااجتمع الثوري ومالك والأوزاعي على أمرفهو سنة وان لم يكن فيه نص"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱۹۵) اب آپ ہی اندازہ کریں کہ حضرت امامؒ کس درجہ کے ائمہ علم کے ساتھ برابر کی نسبت رکھتے تھے اور یہ کہ آپ کے اقران میں کون کون سے جبالِ علم تھے۔