انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عقائد توحید صحابہ کرامؓ نے اگرچہ اپنی زندگی میں بہت سے نیک کام کئے تھے؛لیکن ان سب میں کلمہ توحید کو راس الاعمال سمجھتے تھے، حضرت عمروبن العاص کی وفات کا وقت قریب آیا تو رونے لگے، ان کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ نے پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا موت کے ڈرسے؟ بولے خداکی قسم نہیں، صرف واقعات مابعد الموت کا خوف ہے، انہوں نے تسکین دی اورکہا، آپ عمر بھر نیک کام کرتے رہے، آپ نے رسول اللہ ﷺ کا فیضِ صحبت پایا اورآپ نے مصرو شام میں فتوحات کیں، بولے تم نے ان سب سے بہتر چیز یعنی شہادت لا الا الا اللہ کو توچھوڑ ہی دیا۔ (اسد الغابہ ،تذکرہ حضرت عمروبن العاصؓ) کفار حضرت بلالؓ کو کس قدر اذیت دیتے تھے، لیکن ان کی زبان سے صرف احد احد نکلتا تھا۔ (سنن ابن ماجہ ، فضل سلمان وابی ذر،المقدادؓ،حدیث نمبر:۱۴۷) حضرت ابوفکیہؓ بھی اسی مصیبت میں مبتلا تھے، لیکن اس حالت میں بھی جب ان کوامیہ نے ایک گبریلے کی طرف اشارہ کرکے حقارت آمیز لہجہ میں کہا کہ تمہارا پروردگار یہی تو نہیں توبولے کہ میرا اورتیرا دونوں کا پروردگار صرف اللہ تعالی ہے۔ حضرت ام شریک ؓ ایمان لائیں تو ان کے اعزہ واقارب نے ان کو دھوپ میں کھڑا کردیا اوراس حالت میں روٹی کے ساتھ شہد جیسی گرم چیز کھلاتے تھے اورپانی تک نہیں پلاتے تھے، جب اس طرح تین دن گزرگئے تو ظالموں نے کہا کہ جس مذہب پر تم ہو اب اس کو چھوڑ دو وہ اس قدر بدحواس ہوگئی تھیں کہ ان جملوں کا مطلب ہی نہ سمجھ سکیں، اب ان لوگوں نے آسمان کی طر ف انگلی اٹھا کر بتا یا سمجھیں کہ توحید کا انکار مقصود ہے، بولیں خدا کی قسم میں تو اسی عقیدہ پر قائم ہوں۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ ام شریک ؓ ،اصابہ میں یہ واقعہ کسی قدر اختلاف کے ساتھ مذکورہ ہے) شرک سے بچنا لیکن توحید کی تکمیل کے لیے صرف اسی قدر کافی نہ تھا بلکہ اہل عرب میں جو مشرکانہ خیالات پھیلے ہوئے تھے ان کا انکار بھی توحید کا ایک جزو تھا، اس لیے صحابہ کرام اسلام لانے کے ساتھ ہی اس گورکھ دھندے سے بھی نکل گئے، مثلاً عرب کا خیال تھا کہ جوبتوں کی برائیاں بیان کرتے ہیں ان کو برص یا جذام یا جنون ہوجاتا ہے؛ لیکن حضرت ضمام ابن ثعلبہؓ جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت بابرکت سے اسلام کے نشہ میں چور ہوکر واپس گئے اوراپنی قوم کے سامنے لات وعزیٰ کو برابھلا کہنا شروع کیا تو اس خیال کی بنا پر سب نے کہا ضمام برص، جذام اورجنون سے ڈرو، بولے خدا کی قسم یہ دونوں بت کچھ بھی نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (مسند دارمی، کتاب الصلوۃ باب فرض الوضوء والصلوۃ ،حدیث نمبر:۶۷۷، موقع وزارة الأوقاف المصرية) حضرت زنیرہؓ اسلام لانے کے بعد اندھی ہوگئیں، تو کفارنے کہنا شروع کیا کہ لات و عزیٰ نے ان کو اندھا کردیا ہے، بولیں کہ لات وعزیٰ کو پوجنے والوں کو کیا خبر؟ یہ مصیبت تو آسمان سے آئی ہے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت زبیرؓ) زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کا عام رواج تھا، لیکن چونکہ اس میں عموما شرک کی آمیزش پائی جاتی تھی، اس لیے وہ ایک مشتبہ چیز تھی؛لیکن ایک سفر میں اتفاق سےچند صحابہ عرب کے ایک قبیلے کے یہاں اترے اوران لوگوں نے ان کے مذہبی تقدس کی بنا پر درخواست کی کہ ہمارے رئیس کو بچھونے ڈنک ماردیا ہے کیا آپ لوگ اس کو کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں، ان میں ایک بزرگ رئیس کے پاس آئے اور سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا، تو وہ بھلا چنگا ہوگیا، ان لوگوں نے صحابہ کو اس کا معاوضہ دیا، جس کو ان لوگوں نے تقسیم کرنا چاہا، لیکن جن بزرگ نے سورہ فاتحہ کا دم کیا تھا اس سے اختلاف کیا اورکہا کہ اس کے متعلق چل کر رسول اللہ ﷺ سے مشورہ کرلینا چاہئے، چنانچہ آپ ﷺ کی خدمت میں آکر واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا، تم کو یہ کیونکر معلوم ہواکہ یہ جھاڑ پھونک ہے؟ معاوضہ تقسیم کرلو، میرا بھی ایک حصہ لگاؤ۔ (ابوداؤد، کتاب الطب ،باب کیف الرقی،حدیث نمبر:۳۳۹۸،شاملہ) زمانہ جاہلیت میں تعویذ گنڈے کا عام رواج تھا؛ لیکن ایک دن حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے دیکھا کہ بی بی نے گلے میں گنڈا ڈال رکھا ہے، توڑ کے پھینک دیا، اور کہا آل عبداللہ شرک سے بے نباز ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اس لیےکہ تعویذ گنڈا شرک ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطیب ،باب تعلیق التمائم،حدیث نمبر:۳۵۲۱،شاملہ) عرب کے لوگ بچوں کے بچھونے کے نیچے استرارکھ دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس طرح بچے آسیب سے محفوظ رہتے ہیں، حضرت عائشہؓ نے ایک بار کسی بچے کے سرہانے اُسترادیکھا تو منع فرمایا، اورکہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹوٹکے کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔ (ادب المفرد ،باب الطیرۃ من الجن،حدیث نمبر:۹۴۴) بت شکنی عرب میں شرک کا اصلی مظہر بت تھے، اس لیے صحابہ کرام اسلام لائے تو سب سے پہلے راہ ِتوحید سے اسی سنگ گراں کو دور کیا،عرب میں دستور تھا کہ سردارانِ قبائل خاص طور پر اپنے لیے بت بناتے تھے اوران کو گھروں میں رکھتے تھے ،اس طریقہ کے مطابق قبیلہ بنوسلمہ کے سردار عمروبن الجموح نے ایک لکڑی کا بت بنواکر گھر میں رکھا تھا، نوجوانان بنوسلمہ یعنی حضرت معاذ بن جبلؓ اورحضرت معاذ بن عمرؓ وغیرہ اسلام لائے ، تورات کو خفیہ طورپر آتے تھے اوراس بت کو اٹھا کر ایک گڑھے میں جس کے اندر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا، پھینک آتے تھے، عمروبن الجموح صبح کو اٹھتا تو بت کو وہاں سے ڈھونڈ کے اٹھا لاتا اورپاک صاف کرکے گھر میں رکھ دیتا اورکہتا کہ "اے بت جس نے تیرے ساتھ یہ بدسلوکی کی ہے اگر میں اس کو پاجاتا تو اس کی بڑی فضیحت کرتا، دوسرے دن یہ پرجوش نوجوان بت کے ساتھ پھر یہی سلوک کرتے اسی طرح جب یہ واقعہ پے درپے ہوا، توعمرو بن الجموح نے بت کے گلے میں ایک تلوارلٹکادی اورکہا کہ اگر تجھ میں کچھ بھلائی ہے تو خود اپنی حفاظت کر، رات کو یہ نوجوان حسب معمول پھر آئے اوربت کو ایک مردہ کتے کے ساتھ رسی میں باندھ کر گڑھے میں ڈال دیا،عمروبن الجموح نے بت کو اس حالت میں پایا تو خود بخود مسلمان ہوگیا۔ (ابن ہشام،۱/ ۴۵۲،شاملہ،موقع الاسلام) قبیلہ سعد کا ایک بت تھا جس کا نام قراض تھا، حضرت ذباب بن حارث اسلام لائے تو اس کو چکنا چور کردیا اور اس کے متعلق یہ اشعار کہے: تبعت رسول اللہ ذجاء بالھدیٰ وخلفت قراضابدار ھوان جب رسول اللہ ﷺ ہدایت لائے تو میں نے آپ کا اتباع کیا اورقراض کو ذلیل ترین مقام میں چھوڑدیا۔ شددت علیہ شدۃ فکسرتہ کأن لم یکن والد ھرذوحدثان میں نے اس پر حملہ کیا اور اس کو اس طرح چور چور کردیا،کہ گویا اس کا وجود ہی نہ تھا۔ (اسد الغابہ،تذکرہ ذبابؓ بن حارث،۱/۳۳۸،شاملہ،موقع الاسلام) حضرت ہند بن عتبہؓ جب ایمان لائیں تو گھر میں جو بت نصب تھا اس کو توڑ پھوڑڈالا، اورکہا کہ ہم تیری نسبت بڑے دھوکہ میں مبتلا تھے۔ (اصابہ ،تذکرہ ہند بن عتبہؓ)۔ حضرت ابوطلحہؓ نے جب حضرت ام سلیم ؓ سے نکاح کی خواہش کی،تو انہوں نے کہا ابوطلحہ کیا یہ خبر نہیں کہ جس خداکو تم پوجتے ہو وہ زمین سے اُگاہے، بولے مجھے معلوم ہے، بولیں تو کیا تمہیں ایک درخت کی عبادت سے شرم نہیں آتی؟ چنانچہ جب تک انہوں نے بت پرستی سے توبہ کر کے کلمہ توحید نہیں پڑھاانہوں نے ان سے نکاح کرنا پسند نہیں کیا۔ (اصابہ، تذکرہ حضرت ام سلیم،۴/۹۷،شاملہ،موقع الوراقؓ) ایمان بالرسالۃ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا اعتقاد صحابہ کرام کے لوح دل پر کالنقش فی الحجر ہوگیا تھا، اس لیے وہ کسی حالت میں اس کو مٹنے نہیں دیتے تھے، غزوہ حدیبیہ میں جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مصالحت نامہ لکھا تو کفارنے اصرار کیا اس پر رسول اللہ کا لفظ نہ لکھا جائے، رسول اللہ ﷺ نے یہ شرط منظور کرلی اورحضرت علی ﷺ کو حکم دیا کہ اس فقرے کو مٹادیں صحابہ کرام اگرچہ کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کرتے تھے، تاہم اس موقع پر انہوں نے صاف کہہ دیا کہ میں اس کو نہیں مٹاسکتا، بالآخر آپ نے خوددستِ مبارک سے اس کو مٹادیا۔ (مسلم، کتاب الجہاد ،باب صلح الحدیبیہ فی الحدیبیہ،حدیث نمبر:۳۳۳۵) ایمان کا درجہ ٔ کمال یہ ہے کہ پیغمبرﷺ کے اقوال پر اس وثوق کے ساتھ ایمان لایا جائے کہ محال ممکن، مستقبل حال اورغائب حاضربن جائے،صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی ہر بات پر اسی شدت کے ساتھ ایمان لائے تھے اوراسی درجۂ کمال نے حضرت ابوبکر کو صدیق ؓ کا خطاب دیا تھا۔ ایک بار آپ نے فرمایا کہ"بکری کے ایک گلے پر بھیڑیے نے حملہ کیا اور ایک بکری اٹھالے چلا، چرواہے نے اس کو بلایا، توبھیڑ یے نے جواب دیا کہ یوم السبع میں بکری کا نگران کون ہوگا جب کہ میرے سوا ان کا کوئی چرواہا نہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص بیل پر بوجھ لادے ہوئے جارہا تھا، بیل نے مڑکر کہا میں اس کے لیے نہیں بنایا گیا میں صرف کھیتی باڑی کے لیے پیدا ہوا ہوں، بہت سے صحابہ نے اس کو استعجاب سے سنا اورکہا "سبحان اللہ"لیکن آپ ﷺ نے فرمایا ہم ،ابوبکر،اورعمر بن الخطاب اس پر ایمان لائے ہیں۔ (بخاری ،کتاب المناقب، بَاب فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ،حدیث نمبر:۳۳۹۰) ایک بار حضرت عمر ان بن حصینؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ"اہل وعیال کے رونے سے مردے پر عذاب ہوتا ہے، اس پر ایک شخص نے اعتراض کیا کہ اگر ایک آدمی خراساں میں مرجائے اوراہل و عیال یہاں پر ماتم کریں تو کیا آپ کے خیال میں اس پر خراسان میں عذاب ہوگا؟ بولے رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا وہ سچ ہے اور تو جھوٹ بکتا ہے ۔ (نسائی، کتاب الجنائز، باب النیا حۃ علی المیت،حدیث نمبر:۱۸۳۱) ایک بار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آئندہ زمانے میں تمہاری مختلف جماعتیں قائم ہوجائیں گی ،کوئی جماعت شام میں رہے گی ،کوئی یمن میں اقامت پذیر ہوگی اورکوئی عراق میں سکونت اختیارکرے گی، اس پیشین گوئی پر حضرت ابن حوالہؓ اس وثوق کے ساتھ ایمان لائے کہ آپ سے درخواست کی کہ مبادا میں بھی اس زمانہ تک زندہ رہوں اس لیے آپ خود میری اقامت گاہ متعین فرمادیجئے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی سکنی الشام،حدیث نمبر:۲۱۲۴) ایک بار آپ نے کسی بدو سے گھوڑا خریدا اورقیمت ادا کرنے کے لیے اس کو ساتھ لے چلے ؛لیکن آپ تیزی سے آگے بڑھ گئے اوربدو پیچھے رہ گیا، لیکن جن لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ آپ ﷺ نے اس کو خرید لیا ہے وہ بدو سے بھاؤ تاؤ کرنے لگے، خریداروں کو دیکھ کر بدو نے آپ کو پکار کر کہا، لینا ہو تو لیجئے، ورنہ میں گھوڑے کو فروخت کرڈالتا ہوں، آپ نے فرمایا کہ تم نے تو اس کو میرے ہاتھ فروخت کردیا ہے، بولا نہیں اگر گواہ ہو تو لایے، حضرت خزیمہؓ ابن ثابت اگرچہ بیع کے موقع پر موجود نہ تھے؛ تاہم کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ تم نےآپ ﷺ کے ہاتھ گھوڑا فروخت کردیا ہے، ارشاد ہوا، تم نے کیوں کر شہادت دی؟ بولے، آپ کی تصدیق کی بنا پر اس موقع پر ان کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آپ نے ان کی شہادت کو دو شہادتوں کے برابر قراردیا۔ (ابوداؤد، کتاب الاقضیہ ، بَاب إِذَا عَلِمَ الْحَاكِمُ صِدْقَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَحْكُمَ بِهِ ،حدیث نمبر:۳۱۳۰) صحابہ کرام کے عہد میں بچہ بچہ یہ راسخ عقیدہ رکھتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے جو لفظ نکل جائے گا، اس کے خلاف نہ ہوگا، ایک بار آپ نے ایک لڑکی کو بددعا دے دی کہ تیرا سن زیادہ نہ ہو، وہ روتی ہوئی حضرت ام سلیمؓ کے پاس آئی، اورکہا کہ آُ پﷺنے مجھ کو یہ بددعادی ہے، اب میرا سن ترقی نہ کرے گا، وہ فوراً حاضر خدمت ہوئیں اور کہا کہ آپ نے میری یتیمہ کو بددعادے دی، آپ ہنس پڑے اورفرمایا، میں بھی آدمی ہوں اور آدمیوں کی طرح خوش اوررنجیدہ ہوتا ہوں؛ پس جس کو میں ایسی بددعادوں جس کا وہ مستحق نہیں تو یہ اس کے لیے پاکی، تزکیہ اورنیکی ہوگی۔ (مسلم، کتاب البروالصلۃ والآداب ،باب من لعنہ النبی ﷺ اوسبہ اودعاعلیہ،حدیث نمبر:۴۷۱۲) جب رسول اللہ ﷺ سے کوئی معجزہ صادر ہوتا تھا تو صحابہ کرام کی قوتِ ایمانیہ میں اور اضافہ ہوجاتا تھا، حضرت جابرؓ کو اپنے باپ کی جانب سے بہت سے لوگوں کا قرض ادا کرنا تھا اور کھجوروں کے باغ کے سوا ادا کرنے کا کوئی سامان نہ تھا، لیکن قرضدار باغ کے پھل لینے پر آمادہ نہ تھے بالآخر رسول اللہ ﷺ خود باغ میں آئے اوراس کی کھجوروں کے لیے دعائے برکت فرمائی نتیجہ یہ ہوا کہ جب کھجوریں توڑی گئیں تو سب کا قرض بھی اداہوگیا اوربہت کچھ کھجوریں بچ بھی رہیں، حضرت جابرؓ نے آپ کو اس کو خبردی تو آپ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا سنتے ہو؟ بولے ہم کو یقین ہی تھاکہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں خدا کے پیغمبر ہیں۔ (بخاری، بَاب إِذَا وَهَبَ دَيْنًا عَلَى رَجُلٍ،حدیث نمبر:۲۴۱۱) غزوۂ خیبر میں ایک شخص نہایت بے جگری سے لڑرہا تھا؛ لیکن رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ یہ دوزخی ہے، اس پر تمام صحابہ کو سخت تعجب ہوا اور ایک صحابی اس کی تصدیق کے لیے اس کے ساتھ ہولئے، سو اتفاق سے وہ زخمی ہوکر زندگی سے تنگ آگیا اورخودکشی کرلی،اس حالت کو دیکھ کر وہ آپ کی خدمت میں آئے اورکہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے رسول ہیں۔ (بخاری ،کتاب المغازی، ذکر غزوۂ خیبر،حدیث نمبر:۳۸۸۵) یہ قوت ایمانیہ جس طرح رسول اللہ ﷺکی زندگی میں قائم تھی اسی طرح آپ کی وفات کے بعد بھی قائم رہی ،رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو تمام صحابہؓ نے روکر کہا کہ کاش ہم آپ سے پہلے ہی مرجاتے ،ایسا نہ ہو کہ آپ کے بعد ہمارے دین میں کوئی خلل آئے؛لیکن حضرت معن بن عدیؓ نے کہا کہ میں آپﷺ سے پہلے مرنا پسند نہیں کرتا ؛تاکہ جس طرح میں نے آپ کی زندگی میں آپ ﷺ کی تصدیق کی اسی طرح بعد وصال بھی آپ کی تصدیق کروں۔ (اسد الغابہ، تذکرہ معن بن عدی) ایمان بالغیب شریعت میں صرف ایمان بالغیب معتبر ہے اورصحابہ کرامؓ کو غیب کی تمام چیزوں پراس شدت کے ساتھ یقین تھا کہ گویا ان کو یہ چیزیں علانیہ نظر آتی تھیں۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت حارثؓ سے پوچھا کیا حال ہے؟ بولے یا رسول اللہ ﷺ خدا پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہوں، فرمایا، ہرچیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ بولے دنیا سے میرا دل پھر گیا ہے، اس لیے رات کو جاگتا ہوں دن کو بھوکا پیاسا رہتا ہوں گویا مجھ کو خدا کا عرش علانیہ نظر آتا ہے، گویا میں اہل جنت کو باہم ملتے جلتے دیکھ رہا ہوں، اورگویا اہل دوزخ مجھے چیختے ہوئے نظر آرہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا، تم نے جان لیا، اب اس پر قائم رہو۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت حارث بن مالکؓ) رسول اللہ ﷺ کے فیض صحبت سے یہ ایمان اوربھی تازہ رہتا تھا،حضرت حنظلہؓ کا بیان ہے کہ جب ہم آپ کی خدمت میں ہوتے تھے اور آپ جنت اوردوزخ کا ذکر فرماتے تھے تو گویا ہمارے سامنے ان کی تصویر پھر جاتی تھی۔ (ترمذی ، بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ،باب منہ،حدیث نمبر:۲۴۳۸) ایمان بالقدر صحابہ کرامؓ مسئلہ تقدیر پر شدت کے ساتھ یقین رکھتے تھے ،طاؤس یمانی کا بیان ہے کہ میں نے متعدد صحابہؓ سے ملاقات کی، سب کے سب کہتے تھے کہ کل چیزیں تقدیر سے وجود میں آئی ہیں۔ (مسنداحمد،مسندعبداللہ بن عمر،حدیث نمبر:۵۶۲۷) ابن دیلمی کہتے ہیں کہ میرے دل میں مسئلہ تقدیر کے متعلق خدشہ پیدا ہوا انہوں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ خدا کی راہ میں کوہِ احد کے برابر بھی سونا صرف کروگے تو خدا اس وقت تک قبول نہ کرے گاجب تک تقدیر پر ایمان نہ لاؤ گے اوراگر اس عقیدہ کے خلاف تم کو موت آئی تو جہنم میں داخل ہوگے، اس کے بعد وہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضرت حذیفہؓ بن الیمانؓ اورزید بن ثابت کے پاس آئے تو سب نے یہی کہا؛ حضرت عبادہ بن صامتؓ نے ابو حفصہؓ کو نصیحت کی کہ بیٹے تم کو اس وقت تک حقیقتِ ایمان کی لذت نہ ملے گی جب تک تم کو یہ یقین نہ ہو کہ جو کچھ ہوا اس کو ہو نا لازمی تھا اورجو کچھ نہیں ہوا اس کا نہ ہوناضروری تھا۔ (ابوداؤد،کتاب السنہ، باب فی القدر،حدیث نمبر:۴۰۷۷) اس بنا پر جب کوئی شخص مسئلہ تقدیر کا انکار کرتا تھا تو صحابہ کرام شدت کے ساتھ اس سے تحاشی کرتے تھے۔ بصرہ میں جب معبد جہنی نے مسئلہ تقدیر کا انکار کیا تو یحیٰ بن یعمر اورحمید بن عبدالرحمن نے اس مسئلہ میں صحابہ کرام کی طرف رجوع کرنا چاہا حسن اتفاق سے ایک سفر حج میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ملاقات ہوگئی دونوں نے ان کو دائیں بائیں سے گھیر لیا اورکہا کہ کچھ مسلمان ایسے پیدا ہوگئے ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں، فرمایا: ان سے ملنا تو کہہ دینا کہ میں ان سے الگ ہوں اور وہ مجھ سے الگ ہیں، خدا کی قسم جب تک وہ تقدیر پر ایمان نہ لائیں گے؛ اگر کوہ اُحد کے برابر بھی سونا خیرات کریں گے تو خدا اس کو قبول نہ کرے گا۔ (مسلم، کتاب الایمان،بَاب بَيَانِ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ ،حدیث نمبر:۹) ان کا ایک دوست شام میں رہتا تھا اورباہم اس قدر تعلقات تھے کہ خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہتا تھا، لیکن ایک بار انہوں نے اس کو لکھ بھیجا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے مسئلہ تقدیر کے متعلق کچھ قیل و قال شروع کی ہے، اس لیے اب خط وکتابت کا سلسلہ بند کردو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں کچھ لوگ پیدا ہوجائیں گے جو تقدیر کا انکار کریں گے۔ (مسنداحمد،مسند عبداللہ بن عمرؓ،حدیث نمبر:۵۳۸۱) یہ صرف اعتقاد ہی اعتقادنہ تھا، بلکہ بعض صحابہ سخت مصیبت میں اسی پر عمل بھی کرتے تھے" طاعون عمو"اس کے زمانے میں حضرت عمرؓ نے سرغ تک پہنچ کر واپس آنا چاہا تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے فرمایا: افرار من قدر اللہ کیاآپ تقدیر الہی سے بھاگتے ہیں؟ بولے: کاش تمہارے سوا کوئی دوسرا اختلاف کرتا ،ہاں تقدیر الہی سے بھاگتے ہیں، مگر تقدیر الہی ہی کی طرف ہے۔ (مسلم ،کتاب السلام ،باب الطاعون والطیرۃ والکہانۃ ونحوہا،حدیث نمبر:۴۱۱۴) بصرہ میں طاعون آیا تو کسی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے کہا کہ ہم کو مقام وابق میں لے کر نکل چلئے بولے: الی اللہ آبق لا الی وابق۔ (طبقات ابن سعدتذکرہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ،۴/۱۱۱) خدا کی طرف بھاگوں گانہ کہ وابق کی طرف