انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت شیبہؓ بن عثمان نام ونسب شیبہ نام، ابو عثمان کنیت، نسب نامہ یہ ہے، شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ بن عبدالعزیٰ ابن عثمان بن عبد دار بن قصی قرشی عبدری جہمی، خانہ کعبہ کی کلید برداری ان ہی کے گھر میں تھی، ان کے والد عثمان جنگ احد میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں مارے گئے۔ اسلام ان کے اسلام کے بارے میں دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ فتحِ مکہ میں مشرف باسلام ہوئے، دوسری یہ کہ غزوۂ حنین میں ،لیکن پہلی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے، اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ خانہ کعبہ کی تطہیر کے بعد، آنحضرتﷺ نے اس کی کنجی شیبہ اور ان کے چچا زاد بھائی عثمان بن طلحہ کو واپس کی اور فرمایا کہ یہ کنجی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قیامت تک تمہارے پاس رہے گی جو شخص اس کو تم سے چھینے گا وہ ظالم ہوگا۔ (استیعاب:۱/۶۰۹) غزوۂ حنین میں اسلام والی روایت کا واقعہ یہ ہے کہ شیبہ بھی اپنے اہلِ خاندان کی طرح آنحضرتﷺ کے سخت دشمن تھے، حنین کے دن یہ آنحضرتﷺ کے ساتھ بد نیتی سے نکلے، اورآپ ﷺ کو غافل پاکر قتل کرنا چاہا، آپ ﷺ ہوشیار ہوگئے اورانہیں قریب بلایا، اس واقعہ سے شیبہ بہت مرعوب اورخوف زدہ ہوگئے،آنحضرتﷺ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مار کر فرمایا اب تم سے شیطان دور ہوگیا، اسلام کی صداقت کے لیے یہ واقعہ کافی تھا، کہ ایک شخص جان لینے کے لیے بڑہتا ہے اوررسول اللہ ﷺ اس کی نیت تاڑ جاتے ہیں اور نرم الفاظ میں مخاطب فرماتے ہیں ؛چنانچہ شیبہ اس وقت مشرف باسلام ہوگئے۔ (اسد الغابہ:۳/۷) غزوۂ حنین بہر حال حنین میں شیبہ اسلام کی حالت میں شریک ہوئے اوربڑے ثبات واستقلال سے لڑے، جب مسلمانوں کی عارضی شکست میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے،تو اس وقت بھی شیبہ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ (استیعاب:۲/۶۰۹) حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مرتبہ وہ اورشیبہ خانہ کعبہؓ میں بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عمرؓ نے خانہ کعبہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس گھر میں جس قدر سونا اورچاندی ہے، سب کو مسلمانوں میں تقسیم کردوں گا، انہوں نے کہا تم کو اس کا کیا حق ہے،جب کہ تمہارے دو ساتھیوں (آنحضرتﷺ اور حضرت ابوبکرؓ) نے ایسا نہیں کیا، ان کے استدلال پر حضرت عمرؓ نے فرمایا میں ان ہی دونوں کی اقتدا کرتا ہوں (بخاری باب الا) امارتِ حج شیبہ بہت دنوں تک زندہ رہے، لیکن کسی سلسلہ میں نظر نہیں آتے، حضرت علیؓ اورامیر معاویہ کے زمانہ کا یہ واقعہ ملتا ہے کہ ۳۹ ھ میں جب ان دونوں میں کشمکش جاری تھی تو حضرت علیؓ نے قثم بن عباس کو اپنی جانب سے امیر الحج بنا کر بھیجا اور امیر معاویہ نے یزید بن شجرہ کو، مکہ میں دونوں میں امارت کے بارہ میں اختلاف ہوا، اس وقت شیبہ موجود تھے،حضرت ابو سعیدؓ خدری نے جھگڑاچکا نے کے لیے ان کو امیر بنایا، ان کی امارت پر فریقین متفق ہو گئے؛چنانچہ ۳۹ھ کا حج ان ہی کی امارت میں ہوا۔ (اصابہ:۲/۲۱۶) وفات فضل وکمال کے آخر عہد خلافت ۵۹ ھ میں وفات پائی، دو لڑکے مصعب اور عبداللہ یاد گار چھوڑے۔ (تہذیب الکمال:۱۶۸) فضل وکمال فضل وکمال کے لحاظ سے شیبہ کا کوئی خاص پایہ نہیں ہے، تاہم حدیث کی کتابیں ان کی مرویات سے خالی نہیں ہیں، ان سے مصعب بن شیبہ نافع بن مصعب ،ابو وائل ،عکرمہ اور عبدالرحمن بن زجاج وغیرہ نے روایتیں کی ہیں، علامہ ابن عبدالبر انہیں فضلائے مؤلفۃ القلوب میں لکھتے ہیں۔ (استیعاب:۲/۷۶۰۹)