انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت نوفل بن حارثؓ نام ونسب نوفل نام،ابوحارث کنیت،نسب نامہ یہ ہے، نوفل بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی قرشی ہاشمی، ماں کا نام غزیہ تھا،نانہالی شجرہ یہ ہے،غزیہ بنت قیس بن طریف بن عبدالعزی بن عامرہ بن عمیرہ بن ودیعہ بن حارث بن فہر،نوفل آنحضرتﷺ کے چچازاد بھائی تھے۔ بدر دعوت اسلام کے زمانہ میں آنحضرتﷺ کے عزیز قریب بھی آپ کے دشمن ہوگئے ؛لیکن نوفل کے خون میں ہمیشہ یکساں برادرانہ محبت قائم رہی؛چنانچہ حالت شرک میں بھی آپ سے مقابلہ کرنا پسند نہ کرتے تھے،بدر میں جب طوعا کرہا مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کو نکلے، اس وقت یہ پر خلوص اشعار وردزبان تھے۔ حرام علی حرب احمد اننی اری احمد امنی قریبا اواصرہ مجھ پر احمد سے جنگ کرنا حرام ہے وہ میرے قریبی عزیز ہیں اسلام بدر میں جب مشرکین کو شکست ہوئی تو دوسرے قیدیوں کے ساتھ یہ بھی گرفتار ہوئے،آنحضرتﷺ نے فرمایا،نوفل فدیہ دے کر رہا ہوجاؤ، عرض کیا یا رسول اللہ!میرے پاس فدیہ کے لائق کوئی چیز نہیں، فرمایا جدہ والے نیزے فدیہ میں دے دو، اس کے جواب میں انہوں نے آپ کی رسالت کا اعتراف کیا اور ہزارنیزے فدیہ میں پیش کیے اورذیل کے اشعار میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ (ابن سعد،جزء۴،ق۱:۳۰) الیکم الیکم اننی لست منکم تبرات من دین الشیرخ الاکابر دور ہو،دورہو،میں تمہاری جماعت میں نہیں ہوں، میں قریش کے بڑے بوڑھوں کے دین سے بیزار ہوں۔ شہدت علی ان النبی محمد اتی بالھدی من ربہ والبصائر میں نے شہادت دی ہے کہ محمد نبی ہیں اور خدا کی جانب سے وہ ہدایت اوربصیرت لائے ہیں وان رسول اللہ یدعواالی التقی وان رسول اللہ لیس لشاعر اوررسول اللہ ﷺ تقویٰ کی طرف بلاتے ہیں اوررسول اللہ شاعر نہیں ہیں علی ذلک احیی ثم لبث موقتا واثوی علیہ متیتا فی المقابر میں اسی پر زندہ رہوں گا اوراسی پر میں قبر میں موت کی حالت میں سوؤں گا اورپھر اسی پر قیامت کے دن اٹھونگا۔ اسلام کے بعد پھر مکہ واپس چلے گئے،غزوۂ خندق یا فتح مکہ کے زمانہ میں حضرت عباسؓ کے ساتھ مدینہ کے قصد سے روانہ ہوئے، ابواء پہنچ کر ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے لوٹنے کا ارادہ کیا، نوفلؓ نے کہا اس شرک کدہ میں کہاں جاتے ہو، جہاں کے آدمی رسول اللہﷺ سے لڑتے اوران کی تکذیب کرتے ہیں،اب اللہ نے رسول اللہﷺ کو عزت دی ہے اوران کے ساتھی بھی زیادہ ہوگئےہیں، ہمارے ساتھ چلے چلو، چنانچہ یہ قافلہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچا۔ (ابن سعد،جز۴،ق۱:۳۰) نوفل اورعباس سے قدیم تعلقات تھے،اس لیے آنحضرتﷺ نے ان دونوں میں مواخات کرادی اور قیام کے لیے دو مکان مرحمت فرمائے ،ایک مکان رحبۃ القضا میں مسجد نبویﷺ کے متصل تھا اور دوسرا بازار میں تینۃ الوداع کے راستہ پر۔ (اسد الغابہ:۵/۴۶) غزوات مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے فتح مکہ میں شریک ہوئے،پھر طائف وحنین وغیرہ میں داد شجاعت دی، خصوصاً حنین میں نہایت شجاعت وپامردی سے مقابلہ کیا اور اس وقت بھی جب مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہوگئیں اور وہ بے ترتیب ہوگئے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی،(مستدرک حاکم:۳/۲۴۶) اس غزوہ میں انہوں نے مسلمانوں کی بڑی گراں قدر مدد کی تھی،۳ ہزار نیزے آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کیے،آپ نے مدحیہ فرمایا، میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے نیزے مشرکوں کی پیٹھ توڑرہے ہیں۔ وفات حضرت عمرؓ کے خلیفہ ہونے کے ایک سال۳ ماہ بعد مدینہ میں وفات پائی ،حضرت عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اورجنت البقیع میں سپرد خاک کیا۔ (ابن سعد جزو۴،ق۱:۳۱) اولاد وفات کے بعد متعدد اولادیں چھوڑیں،عبداللہ ،عبدالرحمن،ربیعہ،سعید،مغیرہ،نوفل کی اولاد مدینہ،بصرہ اوربغداد میں بکثرت پھیلی،عبداللہ،امیرمعاویہؓ کے زمانہ میں مدینہ کے قاضی اور سعید فقیہ تھے۔ (ابن سعد،جزو۴،ق۱:۳۱) عام حالات آنحضرتﷺ وقتاً فوقتاً ان کی خبر گیری فرمایا کرتے تھے،ان کو شادی کی ضرورت ہوئی تو آنحضرتﷺ نے ایک عورت سے شادی کرادی،ان کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا، آنحضرتﷺ نے ابورافع اورابوایوب کے ہاتھ اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی اوراس کے بدلے تیس صاع جولے کر عطا کی۔ (مستدرک حاکم:۳/۲۴۶)