انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نام ونسب میمونہ نام، قبیلہ قریش سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے، میمونہ بنتِ حارث بن حزن ابن بحیر بن ہزم بن روبۃ بن عبداللہ بن ہلال بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن بن منصور بن عکرمۃ بن خصیفۃ بن قیس بن عیلان بن مضر، والدہ قبیلۂ حمیر سے تھیں، ان کا نام ونسب حسب ذیل ہے: ہند بنت عوف بن زہیر بن حارث بن حماطۃ بن جرش۔ نکاح پہلے مسعود بن عمروبن عمیرثقفی سے نکاح ہوا (زرقانی:۳/۲۸۸) لیکن کسی وجہ سے علیحد گی اختیار کرنی پڑی؛ پھرابورہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں آئیں، ابورہم نے سنہ۷ھ میں وفات پائی تولوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتساب کی کوشش کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ سنہ۷ھ میں عمرہ کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے تھے اسی احرام کی حالت میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہاسے نکاح ہوا (بخاری:۲/۶۱۱) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نکاح کے متولی ہوئے تھے (نسائی:۵۱۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ سے فارغ ہوکر جب مدینہ واپس ہوئے توسرف میں جومدینہ کے راستہ پرمکہ سے ۱۰/میل ہے (تہذیب ۱۲/۴۵۳) قیام فرمایا ابورافع (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کولے کرسرف پہنچے اور یہیں رسم عروسی ادا ہوئی (ابن سعد:۲/۸۹) یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نکاح تھا (ذیل المذیل طبری:۱۳/۲۴۵۳) اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سب سے آخری بیوی تھیں۔ وفات یہ عجیب اتفاق ہے کہ مقام سرف میں ان کا نکاح ہوا تھا اور سرف ہی میں انہوں نے انتقال بھی کیا (بخاری:۲/۶۱۱۔ مسندابن حنبل:۶/۳۳۳) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور قبر میں اتارا، صحاح میں ہے کہ جب ان کا جنازہ اُٹھایا گیا توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں جنازہ کوزیادہ حرکت نہ دو، باادب آہستہ لے چلو (بخاری:۲/۷۵۸) سالِ وفات کے متعلق اگرچہ اختلاف ہے؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ انہوں نے سنہ۵۱ھ میں فات پائی۔ فضل وکمال حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے ۴۶/حدیثیں مروی ہیں، جن میں بعض سے ان کی فقہ دانی کا پتہ چلتا ہے، ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پراگندہ ہوئے توکہا بیٹا! اس کا کیا سبب ہے؟ جواب دیا ام عمار میرے کنگھا کرتی تھیں (اور آج کل ان کے ایام کا زمانہ ہے) بولیں کیا خوب! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہماری گود میں سررکھ کرلیٹتے تھے اور قرآن پڑھتے تھے اور ہم اسی حالت میں ہوتے تھے؛ اسی طرح ہم چٹائی اٹھاکر مسجد میں رکھ آتے تھے، بیٹا! کہیں یہ ہاتھ میں بھی ہوتا ہے۔ (مسند:۱۶/۳۳۱) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے جن بزرگوں نے روایت کی ہے اُن کے نام یہ ہیں: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن شداد بن الہاد، عبدالرحمن بن السائب، یزید بن اصم (یہ سب ان کے بھانجے تھے)، عبداللہ الخولانی (ربیب تھے)، مذبہ (کنیز تھیں) عطا بن یسار، سلیمان بن یسار (غلام تھے)، ابراہیم بن عبداللہ بن معبد بن عباس، کریب (ابن عباس رضی اللہ عنہ کے غلام)، عبیدہ بن سباق، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، عالیہ بنت سبیع رضی اللہ عنہم۔ اخلاق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: أَنَّهَا كَانَتْ من أَتقانَا للّٰهَ وَأَوْصَلُنَا لِلرَّحِمِ۔ (الإصابة في معرفة الصحابة:۴/۶۳، شاملہ،موقع الوراق) ترجمہ:میمونہ رضی اللہ عنہا خدا تعالیٰ سے بہت ڈرتی اور صلہ رحمی کرتی تھیں۔ احکام نبوی کی تعمیل ہروقت پیشِ نظر رہتی تھی، ایک دفعہ ان کی کنیز بدیہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے گھر گئی تودیکھا کہ میاں بیوی کے بچھونے دور دور بچھے ہیں، خیال ہوا کہ شائد کچھ رنجش ہوگئی ہے؛ لیکن دریافت سے معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ (بیوی کے ایام کے زمانہ میں) اپنا بستر ان سے الگ کرلیتے ہیں؛ آکرحضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا توبولیں، ان سے جاکر کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے اس قدر کیوں اعراض ہے؟ آپ برابر ہم لوگوں کے بچھونوں پرآرام فرماتے تھے۔ (مسند:۶/۳۳۲) ایک عورت بیمار پڑی تواس نے منت مانی تھی کہ شفا ہونے پربیت المقدس جاکر نماز پڑھے گی، خدا کی شان وہ اچھی ہوگئی اور سفر کی تیاریاں شروع کیں، جب رخصت ہونے کے لیے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی توبولیں تم یہیں رہو اور مسجد نبوی میں نماز پڑھ لوکیونکہ یہاں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں کے ثواب سے ہزارگنا زیادہ ہے۔ (مسند:۶/۳۳۳) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کوغلام آزاد کرنے کا شوق تھا، ایک لونڈی کوآزاد کیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اللہ تم کواس کا اجر دے)۔ (مسند:۶/۳۳۳) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کبھی کبھی قرض لیتی تھیں، ایک بار زیادہ رقم قرض لی توکسی نے کہا کہ آپ اس کوکس طرح ادا کریں گی؟ فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جوشخص ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے، اللہ خود اس کا قرض ادا کردیتا ہے۔ (مسند:۶/۳۳۳)