انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فتح قسطنطنیہ ۱،۶، اپریل ۱۴۵۳ء مطابق ۳ ربیع الاوّل ۸۵۷ھ کو سلطان محمد خان ثانی اپنی فوجیں لئے ہوئے خشکی کی جانب سے قسطنطنیہ کی فصیل کے سامنے نمودار ہوا، اُدھر عثمانی جہازوں نے بحر مار مورا میں سمٹ کر بندرگاہِ قسطنطنیہ یعنی گولڈن ہارن کے سامنے بحری محاصرہ شروع کیا،سلطانی بیٹرہ کا امیر البحر بلوط اغلن نامی ایک سردار تھا،سلطان نے فصیل شہر کا محاصرہ کرکے جا بجا مناسب دستوں کو مامور کیا اوربیلداروں کو حکم دیا کہ ساباط اور سرنگوں کے بنانے میں مصروف ہوں اور تیز رفتاری کے ساتھ ساباط اوردمدموں کو فصیل شہر کے نزدیک لے جائیں،مناسب موقعوں پر دمدمے تیار کرکے تیر اندازوں کو مامور کیا گیا کہ جو شخص فصیل شہر سے سر اُبھارے، اُس کو تیر کا نشانہ بنائیں،اس محاصرے کے جاری کرنے میں سلطان محمد خان نے اپنی حیرت انگیز قابلیت کا اظہار کیا، محاصرین نے جلد جلد محاصرہ کے حلقہ کو تنگ اورفصیل شہر کے متصل پہنچنے کی کوشش کی، منجنیقوں اور توپوں کو مناسب موقعوں پر نصب کرکے فصیل شہر پر جا بجا گولوں اور پتھروں کی بارش کی گئی۔ اُدھر محصورین بھی مدافعت کے لئے پورے طور پر تیار اور مستعد تھے،جنبیوا کے سپہ سالار جان اغطیاس اوریونانی سپہ سالار ڈیوک نوطارس نے بڑی قابلیت اورہمت کے ساتھ مدافعت کے کاموں کو انجام دیا،پوپ نکلسن پنجم کے نائب کارڈنل نے اپنی شجاعت وتجربہ کاری کے نمایاں ثبوت پیش کرنے شروع کئے،ان تمام سپہ سالاروں اورفوجوں کی مجموعی طور پر نگرانی قیصر قسطنطنین نے اپنے ہاتھ میں لی، وہ صبح سے شام تک اوررات کے وقت بھی پشت زین سے بہت کم جدا ہوتا تھا،ہر ایک مورچہ اورہر ایک مقام پر خود پہنچتا،سپاہیوں کے دل بڑھاتا اورسپہ سالاروں کے کاموں کا معائنہ کرکے اُن کو داد دیتا تھا،محاصرہ کے شروع ہوتے ہی باشندگان شہر اورعیسائی فوجوں میں انتہا درجہ کا جوش پیدا ہوگیا تھا،لڑائی کی ترغیب دینے اورشہید ہونے کے فضائل بیان کرنے کے لئےبڑے پادری اوربشپ وعظ و نصیحت کرتے اورلوگوں کو لڑکر جان دینے پر آمادہ بناتے تھے،سلطان محمد خاں ثانی نے اپنا خیمہ شہر کے دروازہ سینٹ رومانوس کے سامنے نصب کرایا تھا اوراسی دروازے پر محاصرین نے زیادہ زور صر کرنا شروع کیا تھا، اوّل اوّل محصورین نے فصیل شہر اورخندق سے باہر نکل کر محاصرین پر حملے شروع کئے،لیکن جب اس طرح وہ عثمانیہ لشکر کے ہاتھ سے زیادہ مقتول ہونے لگے تو قسطنطین نے حکم دیا کہ کوئی شخص فصیل شہر سے باہر جانے کا قصد نہ کرے،قلعہ فصیل اوربرجوں سے توپوں اور منجنیقوں کے ذریعہ محصورین نے محاصرین کو ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کیا، آخر چند روز کے بعد فصیل شہر میں کہیں کہیں رخنے نمودار ہوئے لیکن محصورین کی قابلیت و مستعدی نے فوراً اُن کو بند کرکے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بنالیا،سلطان محمد خاں ثانی نے اپنی فوج کو خندق کے کنارے تک لے جاکر کئی جگہ خندق کو پاٹ کے راستے بنائے اور اسطرح عثمانی فوج فصیل تک پہنچی لیکن فصیل کے اوپر کوئی بس نہ چل سکا، اوپر سے عیسائیوں نے روغن نقط جلا جلا کر اُن پر پھینکنا شروع کیا،مجبوراً اُن کو واپس آنا پڑا،اب سلطان نے ایک اورتدبیر سوچی اورلکڑی کے اونچے اونچے مینار بنوائے جو فصیل شہر کی برابر بلند تھے اوران کے نیچے بہئے لگے ہوئے تھے جن کی وجہ سے بآسانی اُن کو حرکت میں لاسکتے تھے،ان میناروں کے ساتھ ایک ایک لمبی سیڑھی اوپر کے حصے سے بندھی ہوئی تھی ان میناروں کو خندق کے کنارے لے جاکر اوراُس سیڑھی کو اوپر اُٹھا کر دوسرا سرا قلعہ کی دیوار پر رکھ دییا، اس طرح خندق کے اوپر ایک پُل بندھا جاتا تھا، عثمانی سپاہی مینار پر چڑھ کر سیڑھی کے اوپر ہوتے ہوئے فصیل شہر پر پہنچنے کی کوشش میں لگے رہے مگر محصور ین نے نہایت مستعدی اورچابک دستی کے ساتھ ان مینارں پر رال کے جلتے ہوئے گولے پھینک کر اُن میں آگ لگادی اوراس طرح ان میناروں اورسیڑھیوں کے جلنے سے قلعہ کشائی کی یہ تدبیر بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ ۱۵ اپریل کو یعنی محاصرہ شروع ہونے سے نویں روز خبر پہنچی کہ جنیوا کے چار جہاز غلہ اورگولہ بارود کا سامان لئے ہوئے ترکی جہازوں کی صفوں کو چیرتے پھاڑتے ہوئے صاف بچ کر نکل گئے اورگولڈن ہارن یعنی قسطنطنیہ کی بندر گاہ میں داخل ہوکر شہر والوں کو یہ گراں قدر امداد پہنچانے میں کامیاب ہوگئے،سلطان بذات خود گھوڑے پر سوار سمندر کے کنارے پہنچا اور دیکھا کہ پانچ جہاز اسی طرح بحیرہ مار مورا میں دشمنوں کے اور آرہے ہیں سلطان نے فوراً اپنے امیر البحر اوربحری فوج کو حکم دیا کہ ان کو روکو اوربندرگاہ میں داخل نہ ہونے دو، سلطان اور عثمانی بری فوج کنارے پر اس بحری جنگ کے دیکھنے میں مصروف تھی،اُدھر عیسائی لوگ بھی فصیل شہر کے اوپر چڑھے ہوئے اس تماشے کے معائنہ میں مشغول تھے،عثمانی جہازوں نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ ان جہازوں پر حملہ کرکے اُن کی لمبی قطار کو توڑدیا اوروہ ایک جگہ آگے پیچھے اورپہلو بہ پہلوا اکٹھے ہوگئے،عثمانی جہازون نے چاروں طرف سے اُن کو گھیر لیا اوران کے قریب پہنچ کر ہر چند گوشش کی کہ ان پر چڑھ کر اُن کے ملاحوں کو قتل کریں اورقابض ہوجائیں،مگر وہ جہاز اس قدر بڑے اوربلند تھے کہ عثمانی جہازوں نے اُن کا مھاصرہ کرلیا تھا تو دیکھنے والوں کو یقین ہوگیا تھا کہ یہ پانچوں جہاز ضرور گرفتار ہوجائیں گے لیکن اسی کشمکش میں تھوڑی دیر بعد دیکھا گیا کہ وہ تیزی سے عثمانی کشتیوں کے بیچ میں سے نکل کر بندرگاہ کی طرف چلے، محصورین نے فوراً زنجیر نیچی کردی اوروہ گولڈن ہارن میں داخل ہوگئے ،اس کے بعد زنجیر کو پھر کھینچ لیا گیا اورعثمانی جہازوں کے حملہ کا کوئی خوف اُن کو نہ رہا، سلطان محمد خاں نے اپنی بحری فوج کی اس ناکامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اُس کو سخت ملال ہوا، اُس نے اپنے امیر البحر کو بُلا کر اپنے ہاتھ سے خوب مارا اورآئند کے لئے اُس کو سخت ملال ہوا،اُس نے اپنے امیر البحر کو بُلا کر اپنے ہاتھ سے خوب مارا اورآئندہ کے لئے اُس کو زیادہ مستعد رہنے کا حکم دیا، مگر امیر البحر بے چارے کی کوئی خطا نہ تھی اور وہ اپنے چھوٹے چھوٹے جہازوں سے دیوہیکل جہازوں پر کسی طرح قبضہ کرسکتا تھا، مگر سلطان کی تنبیہ اورامیر البحر کی بیش از پیش مستعدی کا یہ نتیجہ ضرور ہوا کہ اس کے بعد کسی اورجہاز کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ دردانیال کو عبور کرکے بحر مار مورا میں داخل ہوسکے،ان پانچ جہازوں میں جو فوج سوار ہوکر آئی تھی یہ گویا قسطنطنیہ کے لئے آکری بیرونی امداد تھی،سلطان نے محاصرہ کے کام میں انتہا درجہ کی مستعدی دکھائی، بار بار نقصان اٹھانا پڑا، بار بار حملے ناکام اوربلا نتیجہ ثابت ہوئے،محصورین کی ہمتیں اپنی کامیابیوں کو دیکھ دیکھ کر اوربھی زیادہ بڑھ گئیں،شہر کے اندر سامان مدافعت اوررسد کی مطلق کمی نہ تھی وہ برسوں محصوررہ کر ثابت قدم رہنے کا ارادہ کرچکے تھے،اُن کو یہ بھی توقع تھی کہ ہنگری کا بادشاہ ہنی داس اپنے عہد نامۂ صلح کو توڑ کر ضرور شمال کی جانب سے حملہ آور ہوگا اور قسطنطنیہ کا محاصرہ اٹھ جائے گا، ان حالات کو دیکھتے ہوئے سلطان محمد خاں ثانی کی جگہ اگر کوئی دوسرا شخص ہوتا تو ضرور محاصرہ اٹھا کر چل دیتا اوراس کام کو کسی دوسرے وقت پر ٹال دیتا،مگر سلطان محمد خاں اپنے ارادہ کا پختہ اورہمت کا دہنی تھا،اُس کے عزم واستقلال میں مطلق کمی نہ آئی اوروہ ہر ایک ناکامی کو دیکھ کر اوربھی زیادہ اپنے ارادہ میں مضبوط ہوتا گیا۔ سلطان محمد خاں جب قسطنطنیہ کے ارادے سے فوج لے کر چلا ہے تو اس نے ایک جماعت علما وفضلا اورعابدوں زاہدوں کی بھی اپنے ہمراہ لی تھی،ان باخدا لوگوں کی صحبت سے مستفیض ہونے کا اس کو ابتدا ہی سے بہت شوق تھا، وہ اپنے باپ کی زندگی کے آخری چھ سال انہیں لوگوں کے پاس رہا تھا اورانہیں کے فیض محبت سے اُس کے ارادے میں استقلال اورحوصلے میں بلند ی پیدا ہوئی تھی،دوران محاصرہ میں بھی وہ انہیں روحانی اورباخدا لوگوں سے مشورہ لینا کافی سمجھتا تھا،رفتہ رفتہ جب محاصرہ کو طول ہوا تو اس جوان العمر وجواں بکت سلطان کو وہ تدبیر سوجھی جو اُس وقت تک کسی کو نہ سوجھی تھی، شہر کی ایک سمت جو سمندر یعنی گولڈن ہارن (شاخ زرین) سے محفوظ تھی اُس پر محاصرے کی کوئی زد نہیں پڑسکتی تھی، محاصرین کی تمام ہمت خشکی کی جانب صرف ہورہی تھی ،خاص سینٹ رومانس والے دروازے کی جانب آلات قلعہ کشائی زیادہ کام میں لائے جارہے تھے،لہذا شہر والے بھی اوراطراف سے بے فکر ہوکر اسی جانب اپنی پوری قوت مدافعت صرف کررہے تھے،سلطان نے سوچا کہ شاخ زرین کی جانب سمندر کی طرف سے اگر شہر پر حملہ ہوسکے تو اُن کی توجہ دو طرف تقسیم ہوسکے گی اوراس طرح فصیل شہر کو توڑ کر اس میں داخل ہونا ممکن ہوسکے گاکمگر سمندر کی جانب حملہ اُس وقت ہوسکتا تھا کہ گولڈن ہارن (شاخ زریں) کے دہانہ پر آہنی زنجیر نہ ہوتی اورجہاز اُس میں داخل ہوسکتے،گولڈن ہارن سے مشرق کی جانب قریبا دس میل چوڑی خشکی گردن تھی جس کے دوسری طرف آبنائے باسفور کا سمندر تھا اور اس میں سلطانی جہاز آزادی سے چلتے پھرتے تھے،سلطان نے ماہ جمادی الاول کی چودھویں تاریخ جب کہ ساری رات کی چاندنی تھی باسفورس سے لے کر بندرگاہ گولڈن ہارن تک برابر لکڑی کے تختے بچھوادیئے، باسفورس کے کنارے خشکی پر اسی جہازوں کو چڑھالیا،ان اسی جہازوں کی ٹرین جب خشکی پر چڑھ آئی تو ان میں باقاعہد ملاحوں اور سپاہیوں کو سوار کردیا پھر ہزارہا آدمیوں نے دونوں طرف سے ان جہازوں کو دھیکیلنا شروع کیا، اُس طرف سے ہوا بھی موافق تھی؛چنانچہ جہازاوں کے بادبان کھول دیئے گئے اور وہ لکڑی کے تختوں پر آدمیوں کے زیادہ زور لگائے بغیر خود بخود بھی چلنے لگے،اُس چاندانی رات میں ہزارہا آدمیوں کا شور وغل ،خوشی کے نعرے اور فوجی گیت اورباجے شہر والے سنتے تھے اورکچھ نہ سمجھ سکتے تھے کہ آج عثمانیہ لشکر میں یہ کیا ہورہا ہے، آکر صبح ہونے سے پہلے یہ دس میل کی مسافت خشکی میں طے کراکر ان جہازوں کو بندرگاہ گولڈن ہارن میں لاکر ڈال دیاگیا، قسطنطین کےجہاز جو گولڈن ہارن میں موجود تھے،وہ سب گولڈن ہارن کے دہانہ کے قریب اوراُس آہنی زنجیر کے متصل صف بستہ تھے تاکہ کسی کو اندر داخل نہ ہونے دیں،شہر کے متصل اوربندرگاہ کی نوک پر اُن رہنے کی ضرورت نہ تھی،صبح ہونے پر شہر والوں نے دیکھا کہ عثمانیہ جہازوں نے صیل شہر کے نیچے ایک پُل بنادیا ہے اور توپوں کو مناسب موقعوں پر رکھ کر اس طرف کی کمزور فصیل پر گولہ باری کرنے کی تیاری کررہے ہیں، یہ دیکھ کر عیسائیوں کے حواس جاتے رہے،اُدھر عیسائی جہازوں نے گولڈن ہارن کے دہانہ کی طرف سے اندر کی جانب آنا اورعثمانی جہازوں پر حملہ کرنا چاہا تو بندرگاہ کے دونوں کنارے کے توپ خانے نے جو اسی غرض سے نصب کردیا گیا تھا اُ پر گولہ باری کی اورجو جہاز آگے بڑھا اُسی کو گولہ کا نشانہ بنا ڈبودیا، شاید اسی موقع پر سلطان محمد خان ثانی کے توپ خانے نے سب سے زیادہ مفید خدمت انجام دی،اس طرح یکایک سمندر کی جانب سے حملہ ہونے پر عیسائیوں کو اپنی طاقت تقسیم کرنی پڑی اور وہ مجبور ہوگئے کہ شہر کی اس جانب مدافعت اورحفاظت کے لئے زبردست فوج متعین کریں۔ اسی روز یعنی ۲۴ مئی کو قسطنطین نے سلطان کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ جس قدر خراج مجھ پر مقرر کریں میں ادا کرنے کو تیار ہوں، مجھ کو باج گذار بنا کر قسطنطنیہ میرے ہی پاس رہنے دیجئے ،سلطان نے جب کہ اُس کو شہر کے مفتوح ہونے کا یقین ہوچکا تھا جوابا کہلا بھجوایا کہ اگر تم اطاعت کرے ہو تو تم کو ینان کا جنوبی حصہ دیا جاسکتا ہے،لیکن قسطنطنیہ کو اپنے ممالک مقبوضہ میں شامل کئے بغیر میں نہیں رہ سکتا،سلطان محمد خان جانتا تھا کہ قسطنطنیہ کی عیسائی سلطنت جو سلطنت عثمانیہ کے بیچ میں واقع ہے جب تک قائم رہے گی خطرات اور مصائب کا سدِّ باب نہ ہوگا، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ قسطنطنیہ سلطنت عثمانیہ کا بہترین دارالسلطنت ہوسکتا ہے، وہ قسطنطین اوراُس کے پیش رو قیاصرہ کی مسلسل شرارتوں سے بھی بخوبی واقف تھا، وہ اس قدر طویل محاصرہ اورمحنت کے بعد اب کامیابی کے قریب پہنچ چکا تھا، ایسی حالت میں قسطنطین کی درخواست پر اُس کا جنوبی یونان کے دے دینے پر آمادہ ہوجانا بڑی ہی عظیم الشان شاہانہ فیاضی تھی،لیکن قیصر قسطنطین کی قسمت میں یہی لکھا تھا کہ وہ مشرقی روم کی اس عظیم الشان اور پرانی سلطنت کا آخری فرماں رو ا ہو؛چنانچہ اُس نے سلطان کی اس مہربانی سے کوئی فائدہ اٹھانا نہ چاہا اورپہلے سے چہار چند زیادہ جانفشانی وجاں فروشی کے ساتھ قسطنطین مخالفت میں مصروف ہوگیا۔ ۱۹جمادی الاول ۸۵۷ھ مطابق ۲۸مئی ۱۴۵۳ء کو سلطان محمد خاں ثانی نے اپنی تمام فوج میں اعلان کرادیا کہ کل علی الصبح شہر پر ہر طرف سے آخری حملہ ہوگا،فوج کو شہر میں تاخت و تاراج کی اجازت دی جائے مگر اس شرط پر کہ وہ سرکاری عمارات کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں اور غیر مضافی رعایا جو اطاعت کے ساتھ امن طلب کرے اورضعیفوں وبچوں وغیرہ کو ہاتھ نہ لگائیں،یہ خبر سنتے ہی کہ صبح کو فیصلہ کن حملہ ہوگا، مسلمانوں کے لشکر میں رات بھر خوشی کے نعرے بلند ہوتے رہے،اُدھر شہر کے اندر قصر شاہی میں قسطنطین نے سپہ سالاران فوج عمائد سلطنت اورامرائے شہر کو مدعو کرکے ایک جلسہ منعقد کیا،اُس کو معلوم ہوچکا تھا کہ صبح فیصلہ کُن حملہ ہونے والا ہے،اُس نے شہر والوں کو آخرتک لڑنے اورمارنے کی ترغیب دی اورخود بھی اسی طرح قسمیں کھا کھا کر اپنے اپنے مورچوں کی طرف پہرہ دینے چلے گئے، قیصر اس جلسہ سے فارغ ہوکر سینٹ اباصوفیہ کے گرجا میں آکر اپنی آخری عبادت میں مصروف ہوا،اُس کے بعد اپنے محل میں آیا جہاں یاس و ہراس چھایا ہوا نظر آتا تھا، وہاں چند لمحہ آرام کرکے اپنے گھوڑے پر سوار ہوا،سینٹ رومانس کی طرف آیا جہاں محاصرین کے حملہ کا بہت زور تھا۔ اُدھر سلطان محمد خاں ثانی بھی نماز فجر سے فارغ ہوکر اورمجمع علماء اورباخدا لوگوں سے دُعا کی فرمائش کرکے اپنی رکاب میں دس ہزار چیدہ سوار لے کر حملہ آوری کے کام میں مصروف ہوا،سُلطان کے پیرومرشد نے جو اُس کے ساتھ مجمع علماء میں موجود تھے،اُس روز اپنے لئے ایک الگ چھولداری نصب کرائی اورباہر ایک دربان کو بٹھادیا کہ کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے اور خود دُعا میں مصروف ہوگئے،حملہ ہر طرف سے شروع ہوا، توپوں اور منجنیقوں نے جابجا شہر کی فصیل میں سوراخ کردیئے اورمحاصرین نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ ان رخنوں کے ذریعہ شہر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی مگر وہ ہر مرتبہ نہایت سختی کے ساتھ واپس لوٹا دیئے گئے، کئی مرتبہ عثمانی لشکر کے بہادر شہر کے بُرجوں اور فصیل شکستہ حصوّں پر چڑھ جانے میں کامیاب ہوئے مگر اندر سے سپاہی شہری اوراُن کی عورتیں اوربچے تک بھی لڑنے اورمدا فعت کرنے میں مصروف تھے،ہر طرف یہی حالت تھی اور سمندر وخشکی ہر طرف سے جوش وخروش کے ساتھ حملہ جاری تھا، ایک عجیب ہنگامہ رست خیز برپا تھا کشتوں کے پشتے لگ گئے تھے مگر محاصر ومحصور دونوں میں سے کوئی بھی ہمت نہ ہارتا تھا،دوپہر کے قریب ہنگامہ کارزار میں سخت شدت پیدا ہوگئی اور سلطان نے اپنے ایک وزیر یا مصاحب کو اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں روانہ کیا کہ یہ وقت خاص طور پر دُعا اورروحانی امداد کا ہے،محصورین کی ہمت اورسخت مدافعت کو دیکھ کر حملہ آوروں کے دل چھوٹے جاتے تھے اور سلطان کو اندیشہ تھا کہ اگر آج شہر فتح نہ ہوا تو پھر اُس کا فتح ہونا سخت دشوار ہوگا، کیونکہ حملہ آور اپنی پوری ہمت اورطاقت صرف کرچکے تھے،بادشاہ کا فرستادہ جب اُس مرد خدا آگاہ کی چھولداری کے قریب پہنچا تو دربان مانع ہوا،تو پھر اُس نے سختی کے ساتھ دربان کو ڈانٹا اورکہا کہ میں ضرور حاضر خدمت ہوکر سلطانی پیغام پہنچاؤں گا کیونکہ یہ بڑا نازک وقت اورخطرہ کا مقام ہے،یہ کہہ کر سلطانی فرستادہ چھولداری میں داخل ہوا تو اُس نے دیکھ کہ وہ بزرگ سربسجود اوردُعا میں مصروف ہیں،اس کے داخل ہونے پر انہوں نے سر اُٹھا یا اور کہا کہ شہر قسطنطنیہ فتح ہوچکا، اس کو اس بات کا یقین نہ آتا تھا،مگر وہاں سے واپس ہو کر دیکھا تو واقعی فصیل شہر پر سلطانی جھنڈا لہرا رہا تھا،بات یہ ہوئی کہ جس وقت سلطان نے استمدادِ دعا کے لئے اپنے وزیر کو رونہ کیا وہ نہایت نازک وقت تھا، ٹھیک اُسی وقت فصیل شہر کا وہ حصہ جو سلطان کے سامنے تھا یکا یک خود بخود گرپڑا اوراُس کے گرنے سے خندق پُر ہوکر شہر میں داخل ہونے کے لئے میدان صاف ہوگیا،اسھر فصیل کا یہ حصہ گرا اُدھر عین اُسی وقت بندرگاہ کی طرف سے بحری فوج نے ایک بُرج پر قبضہ کرکے سلطانی علم بلند کیا،اس علم کو بلند اورسامنے کی دیوار کو منہدم دیکھ کر ادھر سے بلا تامل سلطان کی رکابی فوج نے حملہ کردیا، عیسائیوں نے خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر وہ دست بدست لڑائی میں مسلمانوں سے عہدہ برآنہ ہوسکے،ساتھ ہی ہرطرف سے حملہ آوروں نے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی،دروازوں کو توڑ توڑ کر اندر گھس گئے اورشہر کے چاروں طرف فصیل کے اندرونی جانب عیسائیوں کی لاشوں کے انبار لگ گئے،سلطان اپنے گھوڑے پر سوار اُسی منہدمہ فصیل کے راستے شہر میں داخل ہوکر سیدھا سینٹ آبا صوفیہ کے گرجے کی طرف روانہ ہوا، اس گرجے میں پہنچتے ہی اس نے اذان دی اور پہلی مرتبہ اس جگہ اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی،یہاں اس نے اوراس کے ہمراہیوں نے نماز ظہرا دا کی اور خدائے تعالیٰ کا شکر بچالایا، اس کے بعد قسطنطین کی تلاش میں لوگوں کو بھیجا، سینٹ رومانس کے قریب جس فصیل منہدم ہوئی تھی وہاں عیسائیوں نے حملہ آوروں کا خوب جم کر مقابلہ کیا تھا اورسب سے زیادہ کشت و خون وہیں ہوا تھا،اسی جگہ لاشوں کے درمیان قسطنطین کی لاش ملی جس کے جسم پر صرف دو زخم آئے تھے، قسطنطین کا سرکاٹ کر لوگ سلطان کی خدمت میں لے آئے، اس طرح فتح قسطنطنیہ تکمیل کو پہنچ گئی،سلطان اس کے بعد قیصر شاہی کی طرف متوجہ ہوا ،وہاں اُس نے دیکھا تو ہو کا عالم تھا، اس خاموشی و ویرانی کو دیکھ کر بے اختیار سلطان کی زبان سے نکلا کہ۔ پردہ داری می کند برقصرِ قیصر عنکبوت بوم نوبت می زندبرگنبد افراسیاب یہ فتح ۲۰ جمادی الاوّل ۸۵۷ھ مطابق ۲۹ مئی ۱۴۵۳ ء کو وقوع پذیر ہوئی، عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ فصیل قسطنطنیہ کا گرنا انہیں بُزرگ باخدا کی دُعا کا نتیجہ تھا اور اسی لئے مشہور ہے کہ قسطنطنیہ دُعا کے ذریعہ فتح ہوئی تھی، اسی تاریخ سے سلطان محمد خاں ثانی سلطان فاتح کے لقب سے مشہور ہوا، چالیس ہزار عیسائی مسلمانوں کے ہاتھ سے مقتول ہوئے اور ساٹھ ہزار جنگجو عیسائیوں کو مسلمانوں نے گرفتار کیا،بہت تھوڑے ایسے تھے جو فتح قسطنطنیہ کے بعد کسی نہ کسی طرح خشکی یا سمندر کے راستے بچ کر نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئے،اکثر اٹلی میں اورکمتر دوسرے مقامات میں جاکر آباد وپناہ گزریں ہوئے،قیصر قسطنطنین کا ایک پوتا چند روز کے بعد مسلمان ہوگیا تھا اورقسطنطنیہ میں آکر رہنے لگا تھا،بالآخر بہت جلد اس خاندان کا نام ونشان گُم ہوگیا۔ قسطنطنیہ کے باشندوں کو سلطان فاتح نے امن وامان عطا کی جو لوگ اپنے مکانوں اور جائدادوں پر قابض رہے اور بخوشی اطاعت قبول کی اُن کو اور اُن کے اموال کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہین پہنچایا گیا، عیسائیوں کے معبودوں اورگرجوں کو (بجزاباصوفیہ کے) علیٰ حالہ قائم اورعیسائیوں کے تصرف میں رکھا، قسطنطنیہ کے بشپ اعظم کو سلطان نے اپنی خدمت میں بُلا کر خوش خبری سُنائی کہ آپ بدستور یونانی چرچ کے پیشوارہیں گے، آپ کے مذہبی اختیار میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی جائےگی، سلطان محمد خاں فاتح نے خود یونانی چرچ کی سرپرستی قبول کی اور بشپ اعظم اورپادریوں کو وہ اختیار ات حاصل ہوگئے جو عیسائی سلطنت میں بھی اُن کو حاصل نہ تھے، عیسائیوں کو کامل مذہبی آزادی عطا کی گئی،گرجوں کے مصارف اور چرچ کے اخراجات پورا کرنے کے لئے بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں،جنگی اسیروں کو جو فتح مند فوج نے گرفتار کئے تھے، سلطان فاتح نے خود اپنے سپاہیوں سے خرید کر آزاد کیا اور اُن کو شہر قسطنطنیہ کے ایک خاص محلہ میں آباد کیا ،اس فتح کے بعد سلطان فاتح نے دیکھا کہ قسطنطنیہ کے اکثر گھر ویران اور غیر آباد ہوگئے ہیں ،شہر کی رونق کو واپس لانے اوراُس کی آبادی کو بڑھانے کے لئے سلطان فاتح نے ایشیائے کوچک سے پانچ ہزار مسلمان خاندانوں کو قسطنطنیہ میں لاکر آباد کرنے کا انتظام کیا، ماہِ رمضان ۸۵۷ھ تک یہ پانچ ہزار مسلم خاندان قسطنطنیہ میں آ کر آباد ہوگئے اور قسطنطنیہ پہلے سے زیادہ با رونق شہر بن گیا۔