انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت حسینؓ کا سفر مکہ اس وقت مدینہ بہت پر آشوب ہو رہا تھا ،اس کے مقابلہ میں اگر کہیں امن تھا تو وہ حرم محترم تھا اورحضرت حسینؓ کے پاس کوفہ سے خط پر خط اورآدمی پر آدمی آرہے تھے کہ آپ کوفہ تشریف لائیے ہم سب جان نثاری کے لئے تیار ہیں،لیکن محمد بن حنفیہ نے کسی دوسرے مقام پر جانے کی مخالفت کی تھی اورمکہ ہی میں قیام کرنے کا مشورہ دیا تھا، اس لئے حضرت حسینؓ نے مدینہ چھوڑ کر مکہ جانے کا قصد کرلیا؛چنانچہ شعبان ۶۰ ھ میں مع اہل وعیال مکہ روانہ ہوگئے،راستہ میں عبداللہ بن مطیع ملے انہوں نے آپ کو مدینہ سے جاتے ہوئے دیکھا تو پوچھا میں آپ پر فدا ہوں کہاں کا قصد ہے فرمایا فی الحال مکہ جاتا ہوں،عبداللہ نے کہا، اس میں مضائقہ نہیں،مگر خدا کے لئے کوفہ کا قصد نہ کیجئے گا، وہ منحوس شہر ہے، وہاں آپ کے والد شہید کئے گئے، آپ کے بھائی بے یار و مدد گار چھوڑے گئے،نیز ے سے زخمی ہوئے جان جاتے جاتے بچی، آپ حر م میں بیٹھ جایے، آپ عرب کے سردار ہیں، حجازی آپ کے مقابلہ میں کسی کو نہ مانیں گے، حرم میں بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ لوگوں کو اپنی طرف مائل کیجئے ،میرے چچا اورماموں آپ پرفدا ہوں آپ حرم کو ہرگز ہرگز نہ چھوڑئیے گا اگر نصیب دشمناں آپ پر کوئی آنچ آئی تو ہم سب غلام بناڈالے جائیں گے۔