انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا نام ونسب سہلہ یارملہ نام، ام سلیم کنیت، غمیصا اور رمیصا لقب، سلسلہ نسب یہ ہے: ام سلیم بنت ملحان بن خالد بن زید بن حرام بن جندب بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار، ماں کا نام ملیکۃ بنت مالک بن عدی بن زید مناۃ تھا (اصابہ:۸/۲۴۴) آبائی سلسلہ سے حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا، سلمیٰ بنت زید کی پوتی تھیں، سلمیٰ، عبدالمطلب جدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ تھیں، اسی بناپر حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ مشہور ہیں۔ نکاح مالک بن نضر سے نکاح ہوا۔ اسلام مدینہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں، مالک چونکہ اپنے آبائی مذہب پرقائم رہنا چاہتے تھے اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا تبدیل مذہب پراصرار کرتی تھیں اس لیے دونوں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور مالک ناراض ہوکرشام چلے گئے اور وہیں انتقال کیا، ابوطلحہ نے جواسی قبیلہ سے تھے نکاح کا پیغام دیا؛ لیکن حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کواب بھی وہی عذرت تھا، یعنی ابوطلحہ مشرک تھے، اس لیے وہ ان سے نکاح نہیں کرسکتی تھیں؛ غرض ابوطلحہ نے کچھ دن غورکرکے اسلام کا اعلان کیا اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہاکے سامنے آکر کلمہ پڑھا، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اب تم ان کے ساتھ میرا نکاح کردو (اصابہ، بحوالۂ ابنِ سعد) ساتھ ہی مہر معاف کردیا اور کہا، میرا مہر اسلام ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ یہ نہایت عجیب وغریب مہر تھا۔ عام حالات نکاح کے بعد حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیعت عقبہ میں شرکت کی اور چند ماہ کے بعد جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا اپنے صاحبزادے (حضرت انس رضی اللہ عنہ) کولے کرحضور میں آئیں اور کہا: انیس کوآپ کی خدمت کے لیے پیش کرتی ہوں، یہ میرا بیٹا ہے، آپ اس کے لیے دعا فرمائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی (مسلم:۲/۳۵۲۔ بخاری:۲/۹۴۴) اسی زمانہ میں آپ نے مہاجرین اور انصار میں مواخاۃ کی اور یہ مجمع ان ہی کے مکان میں ہوا۔ (بخاری) غزوات میں حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے نہایت جوش سے حصہ لیا، صحیح مسلم میں ہے: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ مَعَهُ إِذَا غَزَا فَيَسْقِينَ الْمَاءَ وَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى۔ (مسلم، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَاب غَزْوَةِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ،حدیث نمبر:۳۳۷۵، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا اور انصار کی چند عورتوں کوغزوات میں ساتھ رکھتے تھے، جولوگوں کوپانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ غزوۂ احد میں جب مسلمانوں کے جمے ہوئے قدم اُکھڑگئے تھے، وہ نہایت مستعدی سے کام کررہی تھیں، صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کودیکھا کہ مشک بھربھر کرلاتی تھیں اور زخمیوں کوپانی پلاتی تھیں، مشک خالی ہوجاتی تھی توپھرجاکر بھرلاتی تھیں۔ (بخاری، کتاب المغازی:۲/۵۸۱) سنہ۲ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، اس موقع پرحضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک لگن میں مالیدہ بناکر حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بھیجا اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا کہ اس حقیر ہدیہ کوقبول فرمائیں۔ (صحیح مسلم:۱/۵۵) سنہ۷ھ میں خیبر کا واقعہ ہوا، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا اس میں شریک تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا (ہی نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سنوارا تھا)۔ (صحیح مسلم:۱/۵۴۶) غزوۂ حنین میں وہ ایک خنجر ہاتھ میں لیے تھیں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا خنجر لیے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کروگی؟ بولیں اگرکوئی مشرک قریب آئے گا تواس سے اس کا پیٹ چاک کردوں گی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کرمسکرادیئے، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ کے جولوگ فرار ہوگئے ہیں ان کے قتل کا حکم دیجئے، ارشاد ہوا، خدا نے خود ان کا انتظام کردیا ہے۔ (صحیح مسلم:۲/۱۰۳) وفات حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کی وفات کا سال اور مہینہ معلوم نہیں؛ لیکن قرینہ یہ ہے کہ انہوں نے خلافتِ راشدہ کے ابتدائی زمانہ میں وفات پائی ہے۔ اولاد جیسا کہ اوپر معلوم ہوا انہوں نے دونکاح کئے تھے، پہلے شوہر سے حضرت انس رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے دولڑکے پیدا ہوئے، ابوعمیر اور عبداللہ، ابوعمیر صغرِ سنی میں فوت ہوگئے اور عبداللہ سے نسل چلی۔ فضل وکمال حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے چند حدیثیں مروی ہیں، جن کوحضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، ابوسلمہ اور عمروبن عاصم نے ان سے روایت کیا ہے لوگ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ میں ایک مسئلہ میں اختلاف ہوا تھا توان بزرگوں نے ان ہی کوحکم مانا۔ (مسند:۶/۴۳۰،۴۳۱) ان کومسائل کے پوچھنے میں کچھ عار نہ تھا، ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) خدا حق بات سے نہیں شرماتا کیا عورت پرخواب میں غسل واجب ہے، ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا یہ سوال سن رہی تھیں؛ بیساختہ ہنس پڑیں کہ تم نے عورتوں کی بڑی فضیحت کی؟ بھلا کہیں عورتوں کوبھی ایسا ہوتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں؟ ورنہ بچے ماں کے ہم شکل کیوں ہوتے ہیں۔ (مسند:۶/۶۹۲،۳۰۶) اخلاق حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا میں بڑے بڑے فضائل اخلاق جمع تھے، جوش ایمان کا یہ عالم تھا کہ اپنے پہلے شوہر سے صرف اس بناپرعلیحدگی اختیار کی کہ وہ اسلام قبول کرنے پررضامند نہ تھے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام دیا تومحض اس وجہ سے ردکردیا کہ وہ مشرک تھے اس موقع پرانہوں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کوجس خوبی سے اسلام کی دعوت دی وہ سننے کے قابل ہے، مسنداحمد میں ہے: قَالَتْ: يَاأَبَاطَلْحَةَ أَلَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ إِلَهَكَ الَّذِى تَعْبُدُ تَنْبُتُ مِنَ الأَرْضِ، قَالَ: بَلىٰ، قَالَتْ: أَفَلَا تَسْتَحْيِيْ تَعْبُدْ شَجَرَةَ؟۔ (اصابہ:۸/۲۴۳، بحوالہ مسند) ترجمہ: حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ! تم جانتے ہو کہ تمہارا معبود زمین سے اُگاہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں! حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا بولیں توپھرتم کودرخت کی پوجا کرتے شرم نہیں آتی؟۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ پراس تقریر کا اتنا اثر ہوا کہ فوراً مسلمان ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حددرجہ محبت کرتی تھیں، آپ اکثران کے مکان تشریف لے جاتے اور دوپہر کوآرام فرماتے تھے، جب بستر سے اُٹھتے تووہ آپ کے پیسنے اور ٹوٹے ہوئے بالوں کوایک شیشی میں جمع کرتی تھیں۔ (بخاری:۲/۹۲۹) ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشک سے منہ لگاکر پانی پیا تووہ اُٹھیں اور مشک کا منہ کاٹ کراپنے پاس رکھ لیا کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دہنِ مبارک مس ہوا ہے۔ (مسند:۶/۳۷۶) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی ان سے خاص محبت تھی، صحیح مسلم میں ہے: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَايَدْخُلُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّاعَلَى أَزْوَاجِهِ إِلَّاأُمِّ سُلَيْمٍ فَإِنَّهُ كَانَ يَدْخُلُ عَلَيْهَا فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ فَقَالَ إِنِّي أَرْحَمُهَا قُتِلَ أَخُوهَا مَعِي۔ (مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب مِنْ فَضَائِلِ أُمِّ سُلَيْمٍ أُمِّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَبِلَالٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،حدیث نمبر:۴۴۹۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ازواجِ مطہرات کے علاوہ اور کسی عورت کے یہاں نہیں جاتے تھے؛ لیکن اُم سلیم رضی اللہ عنہا مستثنیٰ تھیں لوگوں نے دریافت کیا توفرمایا: مجھے ان پررحم آتا ہے کہ ان کے بھائی (حرام رضی اللہ عنہ) نے میرے ساتھ رہ کرشہادت پائی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہ کہ آپ اکثراوقات حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کے مکان پرتشریف لیجاتے تھے، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نہایت صابر اور مستقل مزاج تھیں، ابوعمیران کا بہت لاڈلا اور پیارا بیٹا تھا؛ لیکن جب اس نے انتقال کیا تونہایت صبر سے کام لیا اور گھروالوں کومنع کیا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کواس واقعہ کی خبر نہ کریں، رات کوابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا؛ لیکن عجیب انداز سے کیا بولیں اگرتم کوکوئی شخص عاریۃً ایک چیز دے اور پھراس کوواپس لینا چاہے توکیا تم اس کے دینے سے انکار کروگے؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کبھی نہیں، کہا تواب تم کواپنے بیٹے کی طرف سے صبر کرنا چاہئے، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ یہ سن کرغصہ ہوئے کہ پہلے سےکیوں نہ بتلایا، صبح اُٹھ کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور سارا واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا: خدا نے اس رات تم دونوں کوبڑی برکت دی۔ (صحیح مسلم:۲/۳۴۲) اسی طرح ایک مرتبہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے ہیں کچھ بھیج دو، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے چند روٹیاں ایک کپڑے میں لپیٹ کرحضرت انس رضی اللہ عنہ کودیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر پیش کردیں، آپ مسجد میں تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین بھی بیٹھے ہوئے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ کودیکھ کرفرمایا: ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے تم کوبھیجا ہے؟ بولے جی ہاں! فرمایا: کھانے کے لیے؟ کہا: ہاں! آپ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کولےکر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان پرتشریف لائے، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گھبراگئے اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہاسے کہا: اب کیا کیا جائے؟ کھانا نہایت قلیل ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجمع کے ساتھ تشریف لائے ہیں، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے نہایت استقلال سے جواب دیا کہ ان باتوں کوخدا اور رسول زیادہ جانتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے تو حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے وہی روٹیاں اور سالن سامنے رکھ دیا، خدا کی شان اس میں بڑی برکت ہوئی اور سب لوگ کھاکر سیر ہوگئے۔ (بخاری:۲/۸۱۰) حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کے فضائل ومناقب بہت ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں جنت میں گیا تومجھ کوآہٹ معلوم ہوئی، میں نے کہا کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ انس رضی اللہ عنہ کی والدہ غمیصاء بنت ملحان ہیں۔ (صحیح مسلم:۲/۳۴۲)