انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت حارثہ بن سراقہؓ نام ونسب حارثہ نام،قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے،حارثہ بن سراقہ بن حارث بن عدی بن مالک بن عدی بن عامر بن غنم بن عدی بن النجار والدہ کا نام ربیع بنت نضر تھا وہ جلیل القدر صحابیہ اورحضرت انس بن مالکؓ کی حقیقی پھوپھی تھیں۔ اسلام والد ہجرت سے قبل فوت ہوگئے تھے،والدہ زندہ تھیں اوراسلام کے شرف سے مشرف ہوئیں،ماں کے ساتھ بیٹے نے بھی دائرہ اسلام میں شمولیت اختیار کی۔ غزوہ بدر کی شرکت اور شہادت غزوۂ بدر میں شریک تھے جس روز کوچ کا حکم ہوا، سب سے پہلے گھوڑے پر سوار ہوکر نکلے، آنحضرتﷺ نے ان کو ناظرونگران بناکر ساتھ لیا، ایک حوض پر پانی پی رہے تھے کہ جسان بن عرفہ نے تیر مارا، اس نے اس تشنۂ دہن کو شربت شہادت سے سیراب کیا ،کہتے ہیں کہ انصار میں سب سے پہلے انہی کو شرف شہادت حاصل ہوا۔ بدر سے واپسی کے وقت حارثہ کی ماں آنحضرتﷺ کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! حارثہ سے مجھے جس قدر محبت تھی آپ کو معلوم ہے،اگر وہ جنت میں گئے ہوں تو خیر صبر کروں گی ورنہ آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں، ارشاد ہوا کہ کیا کہہ رہی ہو جنت ایک نہیں ؛بلکہ کثرت سے ہیں اور حارثہ تو جنت الفردوس میں ہیں۔ (اسد الغابہ:۱/۲۸۶،بخاری،۲/۵۷۴) ربیع اس بشارت کو سن کر باغ باغ ہوگئیں مسکراتی ہوئی اٹھیں اورکہنے لگیں نج نج یا حارثہ! یعنی واہ واہ اے حارثہ۔ (اسد الغابہ:۱/۳۵۶) اخلاق حضرت حارثہؓ اپنی ماں کے نہایت اطاعت گذار اورفرماں بردار تھے مصنف اسد الغابہ لکھتے ہیں۔ کان عظیم البربامہ (اسد الغابہ:۳۵۵) ماں کے معاملہ میں نہایت نیکو کار تھے۔ جوش ایمانی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کسی طرف جارہے تھے کہ حارثہ سامنے آگئے فرمایا حارث! صبح کیسی کی؟ بولے اس طرح کہ سچا مسلمان ہوں،فرمایا ذرا سوچ کر کہو،ہر قول کی ایک حقیقت ہوتی ہے،عرض کیا یا رسول اللہ! دنیا سے منہ پھیر لیا ہے ،رات کو رواں اوردن کو تشنہ دہن رہتا ہوں، اس وقت یہ حال ہے کہ اپنے کو عرش کی طرف جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، جنتی جنت اورجہنمی دوزخ میں جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، ارشاد ہوا جس بندے کا قلب خدا منور کردے،وہ پھر خدا سے جدا نہیں ہوتا، حارثہؓ نے درخواست کی کہ میرے لئے شہادت کی دعا کیجئے ،آپ نے دعا کی جس کی قبولیت غزوہ بدر میں ظاہر ہوئی۔