انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
امام تراویح میں قراءت کیسی آواز میں کرے؟ افضل اور بہتر ہے کہ امام جہری نمازوں میں بلا تکلف اس قدر جہر سے پڑھے کہ مقتدی قراءت سن سکیں، اس سے زیادہ تکلف کرکے پڑھنا مکروہ اور منع ہے، ارشاد ربانی ہے: وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا o (بنی اسرائیل:۱۱۰) ‘‘اور نہ تم اپنی نماز میں زیادہ سے سے پڑھو اور نہ بالکل آہستہ، ان کے بیچ درمیانی راہ اختیار کرو’’، مفسرین فرماتے ہیں کہ نماز میں درمیانی آواز سے قراءت کرنا چاہئے، اس سے قلب پر اثر ہوتا ہے، نہ اس قدر زور سے پڑھے کہ قاری اور سامع دونوں کو تکلیف ہو کہ اس سے حضور قلب میں خلل آجائے۔ فقہاء کرام جہر سے پڑھنے میں دو باتیں ضروری قرار دیتے ہیں: اول یہ کہ پڑھنے والا اپنے اوپر غیر معمولی زور نہ ڈالے(یہ مکروہ ہے)، دوسرے یہ کہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو، مثلاً تہجد کے وقت کوئی سورہا ہے یا کچھ لوگ اپنے کام میں مصروف ہیں، آپ ان کے پاس کھڑے ہوکر اتنی زور سے قراءت کرنے لگیں کہ ان کے کام میں خلل ہو، یہ بھی مکروہ ہے، ان دو باتوں کے بعد تیسری بات یہ ہے کہ جماعت کی کمی زیادتی کا لحاظ کرتے ہوئے قراءت کرے، مثلاً مقتدیوں کی تین صفیں ہیں، آپ اتنی بلند آواز سے پڑھیں کہ تیسری صف تک آواز پہنچتی رہے یا اس سے زیادہ زور سے پڑھیں کہ باہر تک آواز پہنچے، فقیہ ابو جعفرؒ کا قول یہ ہے کہ جتنی بلند آواز پڑھیں اچھا ہے، بشرطیکہ پڑھنے والے پر تھکن نہ ہو اور کسی دوسرے کو ایذاء نہ پہنچے، مگر دوسرے فقہاء کا قول یہ ہے اور راجح یہی ہے کہ بقدر ضرورت آواز بلند کریں، یعنی صرف اتنی بلند کریں کہ تیسری صف تک آواز پہنچے، البتہ اگر صفیں زیادہ ہوں تو آواز کو اس سے بلند بھی کرسکتے ہیں، بشرطیکہ اپنے اوپر زیادہ زور نہ پڑے۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۶/۲۳۵، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)