انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلافت ابن زبیر رضی اللہ عنہ پرایک نظر حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان کا بیٹا یزید اس بات کا مستحق نہ تھا کہ مسلمانوں کا خلیفہ بنایا جائے؛ کیونکہ اس کے سوا اور بہت سے لوگ مسلمانوں میں موجود تھے، جویزید سے زیادہ حکومت وخلافت کی قابلیت رکھتے تھے، انہیں میں ایک حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی تھے، یزید کی عملی زندگی بہت ہی قابل اعتراض تھی اور اسی لیے بعض حضرات نے اس کی بیعت سے انکار کیا تھا۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ کے بعد اگرحضرت امام حسین علیہ السلام زندہ ہوتے توبہت زیادہ ممکن تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلیفہ یاشہنشاہ تسلیم کرلیے جاتے، یزید کے مقابلے میں اگرحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مدعی خلافت بن کرکھڑے ہوتے تونہ صرف تمام دوسرے طبقات اہلِ اسلام ان کے شریک ہوتے بلکہ خود بنواُمیہ میں سے بھی ایک بڑی جماعت ان کی حمایت میں سرگرم نظر آتی؛ مگرانھوں نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہ کی، حضرت امام حسین علیہ السلام نے خود خلافت کے حصول کی بہت کوشش کی مگر ان کوکوفہ والوں نے دھوکا دیا، مکہ ومدینہ کے لوگوں کا مشورہ انہوں نے قبول نہ کیا اور اہلِ حجاز ان کی کوئی امداد نہ کرسکے، اب ان کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے بہتر کوئی شخص نہ تھا جومستحق خلافت ہو، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے صحیح خلافت ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تمام عالمِ اسلام میں لوگوں نے اپنی آزاد مرضی سے ان کوخلیفہ تسلیم کیا اور جہاں جہاں لوگوں کوآزادی حاصل تھی کسی نے بھی ان کی مخالفت پرآمادہ ہوئے اور شام وفلسطین ومصر وغیرہ میں جبروقہر کے ساتھ انہوں نے اپنی حکومت دوبارہ قائم کی اور پھراسی جبروقہر کے ساتھ وہ تمام عالمِ اسلام پراپنی حکومت کرسکے، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بالمقابل مروان بن حکم اور عبدالملک بن مروان کی حکومت کوباغیوں کی حکومت کہا جاسکتا ہے؛ پس عبدالملک بن مروان کی حکومت کا وہ زمانہ جوحضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شروع ہوتا ہے اس کوباقاعدہ حکومت اور جائز خلافت سمجھنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کواپنے عہدحکومت میں کوئی ایسا موقع نہیں ملا کہ وہ لڑائیوں اور چڑھائیوں کی فکر سے مطمئن بیٹھے ہوں، اس لیے ان کے عہد حکومت میں اگرجدید فتوحات اور اندرونی اصلاحیں ہم کونظر نہ آئیں توکوئی تعجب کا مقام نہیں، وہ بہت بڑے سپہ سالار اور جنگی شہ سوار تھے، ساتھ ہی وہ بڑے مدبر اور حکمراں بھی تھےیہ ایک اتفاقی بات تھی کہ ان کے حریفوں کی تدبیریں ان کے خلاف کامیاب ثابت ہوئیں اور ان کوجامِ شہادت نوش کرنا پڑا، ان کی زندگی کا عملی نمونہ زہد وعبادت کے اعتبار سے بہت ہی قابل تعریف تھا۔ بنواُمیہ کے خلفاء میں یہ بات خصوصیت سے نمایاں تھی کہ وہ اپنی خلافت وحکومت کے قیام واستحکام کے لیے روپیہ سے خوب کام لینا جانتے تھے وہ روپیہ کے حاصل کرنے میں بھی خوب مستعد تھے اور اس روپیہ کواپنے حصولِ مقصد کے لیے خرچ بھی خوب سلیقہ کے ساتھ کرتے تھے؛ اگرلوگوں میں روپیہ کی محبت پیدا نہ ہوگئی ہوتی تووہ ہرگز کامیاب نہ ہوسکتے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کوان کے مقابلے میں ہرگز ناکامی حاصل نہ ہوتی، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اگرعبدالملک بن مروان کی طرح بیت المال کواپنے دوستوں اور مددگاروں کے لیے وقف کردیتے اور کمزوروں کا لحاظ نہ رکھتے تواُن کے گرد بھی بہت سے شمشیرزن جمع ہوجاتے اور بنواُمیہ کونیچا دیکھنا پڑتا؛ لیکن حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس خلافِ تقویٰ راہِ عمل کوہمیشہ ناپسند کیا اور ان کے لیے یہی موزوں بھی تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مختار بن عبیدہ کاکوفہ میں قتل ہونا ایک بڑا کارنامہ تھا، فارس کے فتنہ خوارج کوبھی انہوں نے خوب دبایا اور حتی الامکان ان کوسرنہیں اُٹھانے دیا؛ اگربنواُمیہ کے ساتھ اندرونی معرکہ آرائی اور زور آزمائی جاری نہ ہوتی تووہ بہترین خلیفہ ثابت ہوتے اور شریعتِ اسلام کودنیا میں بہت رواج دیتے، ان کی شہادت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی حکومت وفرماں روائی کا زمانہ ختم ہوگیا، وہ سب سے آخری صحابی تھے؛ جنھوں نے ملکوں پرحکومت کی، ان کی زاہدانہ وعابدانہ زندگی ایک مشعلِ راہ اور نجمِ ہدایت تھی، وہی ایک ایسے خلیفہ تھے جن کا دارالخلافہ مکہ معظمہ تھا، نہ ان سے پہلے مکہ معظمہ کبھی دارالخلافہ بنا نہ ان کے بعد آج تک کسی نے مکہ معظمہ کودارالخلافہ بنایا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان کے بھائی مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے باپ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی بہادریوں کے کارنامے پڑھ کر اور ان کی والدہ حضرت اسماء بنتِ صدیقِ اکبررضی اللہ عنہم کی شجاعت وحوصلہ مندی دیکھ کرانسان کا دل مرعوب ہوجاتا اور دنیا کے شجاعت پیشہ لوگوں کوبے اختیار اس بہادر خاندان کے ساتھ محبت پیدا ہوجاتی ہے، خاک وخون میں لوٹنا، حمایتِ حق میں سینے پربرچھیوں اور تیروں کے زخم کھاکر آگے بڑھنا اور دشمنانِ حق کوتہ تیغ کرنا، جیسا دشوار اور مشکل کام ہے اس سے زیادہ مزے دار اور خوش گوار بھی ہے، قلب کی قوت ارادے کی پختگی اور ہمت وحوصلے کی بلندی کے اظہار کا موقع تلواروں کی چمک، برچھیوں کی انی اور تیروں کی بارش میں ہی سب سے بہتر میسر آسکتا ہے، ہمارا زمانہ بھی کیسا منحوس زمانہ ہے کہ صفحاتِ تاریخ میں مؤمنوں کی بہادری اور بہادروں کی جاں فروشی کے افسانے تھوڑی دیر کے لیے ہماری رگوں میں خون کے دوران کوبڑھادیتے ہیں؛ لیکن ہم اپنی آنکھوں سے کوئی ایسا میدان نہیں دیکھ سکتے، جہاں سرتلواروں سے کٹ کٹ کرگررہے ہوں؛ نیزے سینوں کوچھید چھید کرکمر کے پار نکل رہے ہوں، گردنوں سے خون کے فوّارے نکل رہے ہوں، لاشیں خون کی کیچڑ میں تڑپ رہی ہوں، گھوڑوں کی ٹاپوں میں کچل کچل کر لاشوں کے قیمے بن رہے ہوں، کٹے ہوئے سرفٹ بال کی طرح سے گھوڑوں کی ٹھوکروں سے ادھر اُدھر لڑک رہے ہوں، گردوغبار میں آفتاب چھپ گیا ہو، تکبیر کے نعرے بلند ہورہے ہوں، مردانِ خدا اپنے حقیقی محبوب کا بول بالا کرنے کے لیئے اپنی جانیں قربان کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتے ہوں اور خدائے تعالیٰ کی رحمت نے اس خوش فضا نظارہ کا احاطہ کرلیا ہو، یہ مسرت افزا اور دل فریب نظارے طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما، خالد وضرار رضی اللہ عنہما، شرجیل وعبدالرحمن رضی اللہ عنہما، حسین بن علی وعبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہما، طارق بن زیاد ومحمد بن قاسم رحمہما، محمد خاں ثانی وسلیمان اعظم، صلاح الدین ایوبی ونورالدین زنگی رحمہما، محمود غزنوی وشہاب الدین غوری رحمہماکے حصے میں آئے تھے، ہم ضعیف الایمان وبزدل لوگوں کی قسمت ایسی کہاں تھی؛ اسی لیے خدائے تعالیٰ نے تلواروں، نیزوں اور تیروں کوبے کار کرکے ان کی جگہ توپوں، بندوقوں اور ہوائی جہازوں کودنیا میں بھیج دیا ہے؛ کیونکہ قلب کی قوت، ارادے کی پختگی، ہمت وحوصلے کی بلندی، یعنی ایمانِ کامل کے اظہار کا مظہر جس خوبی سے تلوار کی دھار بن سکتی تھی، بارود کا شعلہ نہیں بن سکتا۔