انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فیصلہ عمرو بن العاصؓ نے ابو موسیٰ اشعریؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ اعلان کردیجئے اورفیصلہ جو ہوچکا ہے لوگوں کو سُنادیجئے،ابو موسیٰ ؓ اشعری نے منبر پر چڑھ کر فرمایاکہ: ’’لوگو!ہم دونوں نے بہت غور کیا،لیکن سوائے ایک بات کے ہم اور کسی تجویز پر متفق نہ ہوسکے،اب میں تم کو اپنا وہی متفقہ فیصلہ سُناتا ہوں اوراُمید ہے کہ اسی تجویز پر عمل کرنے سے مسلمانوں کی نا اتفاقی دُور ہوکر اُن میں صلح قائم ہوجائے گی،وہ فیصلہ جس پر میں اور عمرو بن العاصؓ دونوں متفق ہیں،یہ ہے کہ اس وقت علیؓ اورمعاویہؓ دونوں کو معزول کرتے ہیں اورتم لوگوں کو اختیار دیتے ہیں کہ تم اپنے اتفاق رائے سے جس کو چاہو خلیفہ منتخب کرلو‘‘۔ مجمع نے اس تقریر کو سُنا اورابو موسیٰؓ منبر سے اُتر آئے، اس کے بعد عمرو بن العاصؓ منبر پر چڑھے اورانہوں نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ: ’’آپ حضرات گواہ رہیں کہ ابو موسیٰؓ نے اپنے دوست حضرت علیؓ کو معزول کردیا،میں بھی ان کی اس بات سے متفق ہوں اور حضرت علیؓ کو معزول کرتا ہوں،لیکن معاویہؓ کو میں معزول نہیں کرتا ؛بلکہ بحال رکھتا ہوں،کیونکہ وہ مظلوم شہید ہونے والے خلیفہ کے ولی اوراُن کی قائم مقامی کے مستحق ہیں۔‘‘ اگر حضرت عمرو بن العاصؓ ابو موسیٰ اشعریؓ کی رائے کی تمام وکمال تائید کرتے اورامیر معاویہؓ کی حمایت میں کچھ نہ فرماتے تو حکمین کے فیصلہ کی وہ بے حرمتی جو بعد میں ہوئی،ہرگز نہ ہوتی حضرت ابو موسیٰؓ نے جو کچھ فرمایا اس میں بھی گو کمزوری اور غلطی موجود ہو لیکن کم از کم بددیانتی اور خیانت کاشائبہ اس میں نہ تھا، اس سے اُس آٹھ سو مسلمانوں کے مجمع کو بھی غالباً کوئی اختلاف نہ ہوتا،کیونکہ کسی ایک خلیفہ کے انتخاب کا اختیار حکمین کی طرف سے انہیں آٹھ سو آدمیوں کو دیا گیا تھا،مگر جو کچھ بعد میں ہوا یہ سب کچھ پھر بھی ہونے والا تھا اورممکن تھا کہ اس سے بھی زیادہ خرابیاں مسلمانوں کے لئے پیدا ہوجائیں؛ کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنی معزولی کو تسلیم کرنے سے یقیناً انکار فرماتے،اس طرح حضرت امیر معاویہؓ بھی ملکِ شام کی حکومت اوراپنے مطالبات سے دست بردار نہ ہوتے اورایک تیسرا خلیفہ یا امیر جس کو یہ مجمع منتخب کرتا،حضرت امیر معاویہؓ اورحضرت علیؓ سے زیادہ طاقتورنہیں ہوسکتا تھا، اس طرح بجائے دورقیبوں کے تین شخص پیدا ہوجاتے اورمسلمانوں کی تباہی وہواخیز ی اور بھی ترقی کرجاتی۔ بات دراصل یہ ہے کہ امیر معاویہؓ مصالحت پر آمادہ نہ تھے اگر وہ مصالحت کے خواہاں ہوتے تو جنگِ صفین میں بڑی لڑائی شروع ہونے سے پیشتر جب کہ حضرت علیؓ کی طرف سے مصالحت کی کوشش کی گئی تھی وہ صلح کی یہی صورت یعنی طرفین سے ایک ایک حکم مقرر کرنے کی درخواست پیش کرسکتے تھے،لیکن انہوں نے یہ خواہش اس وقت پیش کی جبکہ ان کو اپنی شکست کا یقین ہونے لگا تھا،لہذا اُن کی طرف سے پنچوں کے تقرر کی خواہش کا پیش ہونا اور ھذاکتاب اللہ بیننا وبینکم کا اعلان کرنا مصیبت کو دُور کرنے اور شکست سے بچنے کے لئے ایک جنگی تدبیر اورخدعہ حرب کے سوا اور کچھ نہ تھا،اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس پنچایت کی تجویز کو بطیب خاطر نہیں مانا تھا،وہ تو اس کے خلاف تھے مگر لوگوں نے اُن کو مجبور کرکے اوردھمکیاں دے کر اُشتر کو واپس بُلوایا اور لڑائی کو ختم کرایا تھا،لہذا یہ یقین کرلینا کہ اگر عمرو بن العاصؓ مجمعِ عام میں ابو موسیٰ اشعریؓ کے بیان کی حرف بحرف تائید کرتے اور دونوں حضرات کو معزول کردیتے تو دونوں اس فیصلے کو تسلیم کرتے یا نہ کرتے آسان نہیں ہے،بہرحال دونوں صاحبوں نے مجمع کےسامنے وہ تقریریں جو اوپر درج ہوچکی ہیں کیں، عمرو بن العاصؓ کی تقریر سُن کر حضرت عبداللہ بن عباسؓ اوردوسرے حضرات نے ابو موسیٰ کو ملامت کرنا شروع کیا کہ تم فریب کھا گئے ،ابو موسیٰؓ نے عمرو بن العاصؓ کو سخت سُست کہا کہ تم نے قرار داد باہمی کے خلاف اظہار رائے کیا اور مجھ کو دھوکا دیا غرض فوراً مجلس کا سکون درہم برہم ہوکر بد نظمی کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ شریح بن ہانی نے عمرو بن العاصؓ پر تلوار کا وار کیا،عمرو بن العاص نے بھی اپنے آپ کو بچا کر شریح پر جو جوابی وار کیا،لوگ درمیان میں آگئے اور لڑائی کو بڑھنے نہ دیا، اس مجلس میں بد نظمی اور افرا تفری پیدا ہوجانے کا نتیجہ بھی امیر معاویہؓ کے لئے بہتر اورحضرت علیؓ کے لئے مضرثابت ہوا،کیونکہ اب شامی وعراقی دونوں گروہوں کا ایک جگہ رہنا دونوں طرف کے سرداروں کی نگاہ میں مضر تھا،لہذا نہ اُن آٹھ سو مسلمانوں کی جمعیت اب کوئی تجویز اتفاق رائے سے پاس کرسکتی تھی نہ اکابر صحابہ،ابو موسیٰ اشعریؓ اور عمرو بن العاصؓ بھی وہاں سے اپنی جمعیت کو ہمراہ لے کر فوراً دمشق کی جانب روانہ ہوگئے،شریح اورعبداللہ بن عباسؓ نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ کوفہ کی جانب کوچ کیا مکہ اور مدینہ سے جو چند حضرات یہاں آئے تھے وہ بھی متاسف حالت میں اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے،غرض تھوڑی ہی دیر میں اذرج کی انجمن درہم برہم ہوکر چڑیاں سی اُڑ گئیں۔ شامی لوگ عمرو بن العاصؓ کے ہمراہ خوشی خوشی دمشق کو جارہے تھے اورانہوں نے حضرت معاویہؓ کو امیر المومنین اورخلیفۃ المسلمین کہنا شروع کردیا تھا، دمشق میں پہنچ کر شامیوں نے امیر معاویہؓ کو کامیابی کی خوش خبری سُنائی اوران کے ہاتھ پر سب نے بیعت کی، عراقی جمعیت جو عبداللہ بن عباسؓ اورشریح بن ہانی کے ہمراہ کوفہ کو جارہی تھی اس کی حالت شامیوں کے خلاف تھی،یہ آپس میں ایک دوسرے کو بُرا کہتے اور جھگڑتے تھے، کوئی ابو موسیٰ کو بُرا کہتا اورملزم ٹھہراتا،کوئی ابو موسیٰ کی تائید کرتا اوربے خطا ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا،کوئی حضرت علیؓ کو بُرا کہتا اور حکمین کے تقریر پر رضامندی ظاہر کرنے کے فعل کو غلطی بتاتا اورکوئی اس رائے کی مخالفت کرکے عمروبن العاصؓ کو گالیاں دیتا تھا،غرض ان چارسوا ٓدمیوں کی بالکل وہی حالت تھی جو صفین سے کوفہ کی طرف جاتے ہوئے حضرت علیؓ کے لشکر کی تھی کوفہ میں پہنچ کر عبداللہ بن عباسؓ نے تمام روائداد حضرت علیؓ کو سُنائی اور انہوں نے ابو موسیٰؓ اورعمروبن العاصؓ دونوں کے فیصلے کو قرآن مجید کے خلاف بتا کر اُس کے ماننے سے قطعاً انکار کیا اورمعاویہؓ ،عمروبن العاصؓ،حبیب بن مسلمہ،عبدالرحمن بن مخلد، ضحاک بن قیس،ولید،ابوالاعور کے لئے بدعا کی اوراُن پر لعنت بھیجی،اس لعنت اوربددعا کا حال امیر معاویہؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی حضرت علیؓ کی شان میں اسی قسم کی بدعا کی اور اسی وقت سے ایک دوسرے پر لعنت کرنے کا سلسلہ جاری ہوا۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن مقام اذرج کی کار روائی سے امیر معاویہؓ کو صرف اس قدر فائدہ پہنچا کہ جو لوگ ان کے ساتھ شامل تھے،پہلے وہ ان کو امیر المومنین اورمسلمانوں کا خلیفہ نہیں کہتے تھے،اب وہ علانیہ ان کو امیر المومنین کہنے لگے،مگر کوئی نئی جماعت محض اذرج کی کاروائی کی بنا پر اُن کےہاتھ پر بیعت نہیں ہوئی،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لئے پہلے ہی سے دو گونہ مشکل تھی، اب وہ سہ گونہ ہوگئی امیر معاویہؓ اورشامیوں کو زیر کرنا اورخارجیوں کو قابو میں رکھنا،یہ کام تو پہلے سے درپیش تھے،اب تیسری مصیبت یہ پیش آئی کہ خود اپنے دوستوں اورمعتقدوں کو یہ سمجھانا پڑتا تھا کہ حکمین نے چونکہ آپس میں بھی اختلاف کیا ہے لہذا اُن کا کوئی فیصلہ نہیں مانا جاسکتا،دوسرے یہ کہ حکمین کو قرآن مجید نے یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ خد اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو چھوڑ کر اپنی اپنی خواہشات کی تائید کریں اور حق وراستی سے جدا ہوجائیں چند روز تک حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اہل کوفہ کو یہی بات سمجھائی کہ حکمین کا فیصلہ ہر گز قابلِ تسلیم نہیں اور ہم کو اہل شام پر چڑھائی کرنی چاہئے جب یہ حقیقت لوگوں کی سمجھ میں آگئی اور وہ حضرت علیؓ کے ساتھ شام پر چڑھائی کرنے کے لئے آمادہ ہونے لگے تو گروہِ خوارج نے بھی جو کوفہ میں کافی تعداد کے ساتھ موجود تھا،کروٹ لی۔