انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امراء وعمال رسول اللہ ﷺکے عہد مبارک میں صرف دو قسم کے عمال کا تقرر ہوا حکام وولاۃ اورمحصلین زکوٰۃ جو صحابہ محصل زکوۃ بناکر روانہ کئے جاتے تھے ان کو ۔ (۱)ایک فرمان عطا ہوتا تھا، جس میں بہ تصریح بنایا جاتا تھا کہ کس قسم کے مال کی کتنی تعداد میں کتنی زکوٰۃ لینی چاہئے ،انتخاب کرکے یا حق سے زیادہ مال لینے کی اجازت نہ تھی۔ (۲)یہ لوگ جب زکوٰۃ وصول کرکے لاتے تھے تو آپﷺ ان کا محاسبہ فرماتے تھے کہ کہیں کوئی ناجائز رقم تو نہیں وصول کی ہے۔ (۳)تمام عمال کو بقدر ضرورت معاوضہ ملتا تھا اورمقدار ضرورت کی تصریح آپﷺ نے خود فرمادی تھی۔ من کان لنا عاملا فلیکتسب زوجہ فان لم یکن لہ خادم فلیکتسب خادما وان لم یکن لہ مسکن فلیکتب مسکنا ومن اتخذ غیر ذالک فھم غال۔ (ابوداؤد کتاب الخراج باب فی ارزاق العمال) جو شخص ہمارا عامل ہوا اس کو ایک بی بی کرلینا چاہئے اگر اس کے پاس ملازم نہ ہو تو ایک ملازم رکھ لینا چاہئے اگر گھر نہ ہو تو ایک گھر بنا لینا چاہئے، لیکن اگر کوئی اس سے زیادہ لے گا تو وہ خائن ہوگا۔ صحابہؓ کرام نے جس صداقت ،راستبازی، دیانت اورایثار نفسی کے ساتھ ان احکام کی پابندی کی وہ ان کے محاسن اخلاق کا طغرائے امتیاز ہے محصلین زکوٰۃ کو لوگ بہترین منتخب؛ بلکہ بعض حالتوں میں اپنا کل مال دیدیتے تھے، لیکن وہ لوگ صرف وہی مال لیتے تھے اوراسی قدر لیتے تھے جس کی رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی تھی ؛چنانچہ زکوۃ کے عنوان میں اس کی متعدد مثالیں پہلے حصے میں گذرچکی ہیں۔ خیانت کا ارتکاب تو ایک طرف بعض صحابہ خیانت کے خوف سے اس خدمت ہی کو قبول کرنا پسند نہیں کرتے تھے؛ چنانچہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابومسعود انصاریؓ کو مصدق بنا کر بھیجنا چاہا تو فرمایا کہ ایسا نہ کرنا کہ قیامت میں تمہاری پشت پر کوئی صدقہ کا اونٹ بلبلاتا ہوا نظرآئے (یعنی خیانت نہ کرنا) بولے کہ اب میں نہیں جاتا، ارشاد ہوا کہ میں تمہیں مجبور بھی نہیں کرتا۔ (ابوداؤد کتاب الخراج باب فی غلول الصدقہ) ایک بار آپ نے ارشاد فرمایا۔ یا ایھا الناس من عمل منکم لنا علی عمل فکتمنا منہ مخیطا فما فوقہ فھوغل یا تی بہ یوم القیامۃ۔ لوگو!جو شخص ہمارا عامل ہو وہ اگر ایک دھاگہ یا اس سے بھی کم ہم سے چھپالے تو یہ خیانت کامال ہے، اس کو قیامت میں حاضر کرنا پڑےگا۔ ایک صحابی جو عامل تھے یہ سن کر بول اٹھے یا رسول اللہ ﷺ مجھ کو اس خدمت سے سبکدوش فرمائیے،(ابوداؤد کتاب الاقضیۃ باب فی ہدایۃ العمال) صحابہ کرام کو رشوت خوری سے اس قدر اجتناب تھا کہ جب حضرت عبداللہ بن رواحہؓ حسب معاہدہ یہود خیبر کے یہاں نصف پیداوار تقسیم کرنے کے لئے گئے اوریہودیوں نے رعایت کی غرض سے عورتوں کے زیور جمع کرکے ان کو رشوت میں دینا چاہا تو بولے یہ حرام ہے اور ہم حرام مال نہیں کھاسکتے۔ (موطا امام مالک کتاب المساقات باب ماجاء) معاوضہ خدمت اگرچہ خود رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمادیا تھا اوربہت سے صحابہ اس کو لیتے بھی تھے تاہم بعض اکابر صحابہ اپنی خدمت کا صلہ صرف خدا سے چاہتے تھے،چنانچہ ایک بار حضرت عمرؓ نے یہ خدمت انجام دی اورمعاوضہ لینے سے انکار کردیا، لیکن خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر بغیر سوال کئے کچھ مل جائے تو اس کو لے لو کھاؤ پیو ،صدقہ کردو۔ (ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ باب فی الاستعفاف) حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں فتوحات کو وسعت ہوئی اورسلطنت کے کاروبار پھیلے تو انہوں نے صیغہ فوج سے علیحدہ کرلیا اورہر ایک کے لئے الگ الگ عمال مقرر فرمائے جو امیر الخراج اورامیر الشفور کے لقب سے ممتاز تھے،(طبری ،صفحہ ۲۵۲) ان میں ہر ایک کے لئے ایک ایک ضلع مخصوص کردیا ؛چنانچہ ابو عبیدہ بن عبداللہ بن جراحؓ کو حمص میں ،یزید بنؓ ابی سفیان کو دمشق میں ،شرجیل بن حسنہ کو اردن میں عمروبن عاصؓ اورعلقمہ بن حجرز کو فلسطین میں متعین کیا۔ (طبری،صفحہ۲۰۹۰) حضرت ابوبکرؓ نے عمال کے تقرر میں حسب ذیل اصول ملحوظ رکھے۔ (۱)رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو لوگ عامل مقرر ہوئے تھے ان کو اپنے عہد پر قائم رکھا، چنانچہ آپ کی وفات کے بعد جب متعدد صحابہ اپنے اپنے عہدے چھوڑ کر چلے آئے تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تم لوگ کیوں چلے آئے عمال رسول اللہ ﷺ سے زیادہ ملکی خدمت کا کون مستحق ہوسکتا ہے۔ (استیعاب تذکرہ خالد بن سعید بن عاصؓ) (۲)وہ عمال کے تقرر میں کسی قسم کی رعایت پسند نہیں کرتے تھے؛ یہی وجہ ہے کہ اس معاملہ میں رشتہ داری کا لحاظ ومروت نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت یزید بن ابو سفیانؓ کو شام کا عامل مقرر کرکے بھیجا تو فرمایا کہ وہاں تمہاری قرابتیں ہیں، شاید امارت کے لئے تم ان کو ترجیح دو، تمہاری نسبت مجھے یہی خوف ہے ؛کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کا والی ہو اوروہ رعایت سے ان پر امراء مقرر کرے تو اس پر خدا کی لعنت ہوگی۔ (مسند جلد۱،صفحہ۶) (۳)اہل بدر کے متعلق حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ کا طرز عمل بالکل متضاد تھا، حضرت عمرؓ ان سے ملکی اورمذہبی خدمت لیتے تھے، لیکن حضرت ابوبکرؓ فرماتے تھے کہ میں کسی بدری صحابی کو عامل نہ بناؤں گا اوران کو موقع دوں گا کہ اپنے بہترین اعمال کے ساتھ خدا سے ملاقات کریں کیونکہ اللہ تعالی ان کے اورصلحاء کے ذریعہ سے امتوں کی مصیبت اورعذاب کو اس سے زیادہ دفع کرتا ہے جتنی ان سے مددحاصل ہوسکتی ہے۔ (طبری،صفحۃ ۱۹۳۱) (۴)اعمال کی تمام تر کامیابی کا دارومدار اس پر ہے کہ ان کے رعب وداب اور اثرو اقتدار کو ہر ممکن طریقے سے قائم رکھا جائے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ امراء وعمال سے قصاص نہیں لیتے تھے؛ بلکہ دیت دلواتے تھے،حضرت ابوبکرؓ کا بھی یہی دستور تھا،ایک بار حضرت خالدؓ نے غلطی سے بہت سے لوگوں کو قتل کروادیا ،حضر عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو قصاص لینے پر آمادہ کیا؛لیکن انہوں نے کہا جانے دو اورخاموش رہو۔ (طبری ،صفحہ،۱۹۲۶) حضرت عمرؓ کے زمانے میں عہدوں کی ترتیب و تقسیم میں اوربھی وسعت پیدا ہوئی صوبوں کی تقسیم جو پہلے ہوچکی تھی اس کے علاوہ انہوں نے ملک کی جدید تقسیم کی اوراس تقسیم کی رو سے مکہ، مدینہ، شام، جزیرہ، بصرہ،کوفہ،مصر اورفلسطین کو الگ الگ صوبہ قراردیا اوران میں حسب ذیل عمال مقرر فرمائے۔ والی یعنی حاکم صوبہ کاتب یعنی میر منشی کاتب دیوان یعنی دفتر فوج کا میر منشی صاحب الخراج یعنی کلکٹر صاحب احداث یعنی افسر پولیس صاحب بیت المال یعنی افسر خزانہ قاضی یعنی صدر الصدور اورمنصف والی کا اسٹاف نہایت وسیع ہوتا تھا،چنانچہ حضرت عمرؓ نے حضرت عمار بن یاسرؓ کو کوفہ کا والی بنا کر روانہ فرمایا تو دس آدمی ان کے اسٹاف میں دیئے۔ (اسد الغابہ تذکرہ قرظہ) (۱)ان عمال کے تقرر میں حضرت عمرؓ اکثر موقعوں پر اپنی فطری جوہر شناسی سے کام لیتے تھے عرب میں جو لوگ کسی خاص وصف میں عام طورپر مشہور تھے،مثلا حضرت امیر معاویہؓ، حضرت عمروبن العاصؓ، حضرت صغیرہ بن شعبہؓ، کہ اپنی سیاست دانی کی وجہ سے دہاۃ العرب کہے جاتے تھے، یا حضرت عمرو معدی کربؓ اورحضرت طلحہ بن خالدؓ کہ فن حرب میں بے نظیر خیال کئے جاتے تھے، ان لوگوں کو ملکی یا فوجی عہدوں کا مستحق بنادیا تھا، ان کے علاوہ جن لوگوں میں ان کو کوئی خاص قابلیت نظر آئی ان کو اس قابلیت کے لحاظ سے مناسب عہدے عطا فرمائے۔ حضرت عبداللہ بن ارقمؓ ایک صحابی تھے جو رسول اللہ ﷺکے کاتب تھے اورآپﷺ کو ان کی دیانت پر اس قدر اعتماد تھا کہ جب وہ خط لکھ کے لاتے تھے تو آپ اس کو پڑھوا کے سنتے بھی تھے، ایک بار آپ ﷺ کی خدمت میں کہیں سے خط آیا آپ ﷺ نے فرمایا اس کا جواب کون لکھے گا؟ حضرت عبداللہ بن ارقمؓ نے فرمایا کہ میں ؛چنانچہ خود اپنی طبیعت سے جواب لکھ کر لائے اور وہ آپ ﷺ کو نہایت پسند آیا، حضرت عمرؓ بھی موجود تھے ان کو اس پر حیرت ہوئی، اورجب خلیفہ ہوئے تو ان سے میر منشی کا کام لیا اور تدین کے لحاظ سے بیت المال کا افسر بھی مقرر فرمایا۔ (اسدالغابہ تذکرہ حضرت عبداللہ بن ارقم) ایک بار حضرت عمرؓ بیٹھے ہوئے تھے، ایک عورت آئی اورکہا کہ میرے شوہر سے زیادہ افضل کون ہوسکتا ہے رات بھر شب بیداری کرتا ہے گرمیوں کے دن میں برابر روزے رکھتا ہے حضرت عمرؓ نے بھی اس کی تعریف کی اور وہ شرما کر چلی گئی ،حسن اتفاق سے حضرت کعبؓ بن سور بھی موجود تھے بولے یا امیر المومنین آپ نے عورت کا انصاف شوہر سے نہیں دلوایا وہ شکایت کرتی ہے کہ میرا شوہر مجھے سے راہ ورسم نہیں رکھتا، حضرت عمرؓ نے عورت کو واپس بلایا اوراس نے اب صاف صاف اقرار کیا، حضرت عمرؓ نے کعب ہی سے اس کا فیصلہ کرادیا اوران کو اسی وقت بصرہ کا قاضی مقرر کرکے بھیج دیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ کعبؓ بن سور) تمام عمال فاروقی میں صرف حضرت عمار بن یاسرؓ ایک ایسے بزرگ تھے جو فن سیاست سے بالکل ناآشنا تھے اوربایں ہمہ نہایت معزز ملکی عہدے پر ممتاز تھے؛لیکن خود حضرت عمرؓ نے جب ان کو معزول کیا تو صاف صاف فرمادیا۔ لقد علمت ماانت بصاحب عمل ولکنی تاولت ونریدان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلعھم آئمۃ ونجعلھم الوارثین (طبری،صفحہ۲۶۷۸) میں خود جانتا تھا کہ تم ملکی خدمات کے اہل نہیں ہو لیکن میں نے اس آیت کے معنی کی عملی تشریح کی ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں کمزور تھے اوران لوگوں کو امام اوروارث بنائیں۔ ذاتی قابلیت کے علاوہ خارجی اوصاف کے لحاظ سے دیہاتیوں پر ہمیشہ شہریوں کو ترجیح دیتے تھے۔ (فتوح البلدان،صفحہ۳۵۱) اوراپنے قبیلہ کے کسی شخص کو کوئی ملکی عہدہ نہیں دیتے تھے، اپنے خاندان میں صرف نعمان بن عدی کو میسان کا عامل مقرر فرمایا؛ لیکن ان کو بھی چند دنوں کے بعد ایک حیلہ سے معزول کردیا۔ (اسدالغابہ تذکرہ نعمان بن عدیؓ) ملکی عہدوں پر ہمیشہ صحیح اورتندرست لوگوں کو مامور فرماتے تھے، حضرت سعید بن عامرؓکی نسبت معلوم ہوا کہ ان پر کبھی کبھی غشی طاری ہوجایا کرتی ہے تو ان کو طلب فرمایا اورجب انہوں نے اس کی معقول وجہ بیان کی تو پھر ان کو خدمت مفوضہ پر واپس کردیا۔ (استیعاب تذکرہ حضرت سعید بن عامرؓ) غیر مذاہب کے لوگوں میں صرف ابو زید کی نسبت اصابہ میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ان کو عامل مقرر کیا اوراس کے سوا کسی عیسائی کو عامل نہیں بنایا۔ عمال کے انتخاب کی مختلف صورتیں تھیں (۱)کبھی حضرت عمرؓ خود صحابہ کرام کو جمع فرماتے اوران سے طالب اعانت ہوتے ؛چنانچہ ایک بار تمام صحابہ کو جمع کرکے کہا کہ اگر آپ لوگ میری مدد نہ کریں گے تو دوسرا کون کر یگا تمام صحابہ نے بخوشی آمادگی ظاہر فرمائی اورحضر ت عمرؓ نے اسی وقت حضرت ابوہریرہؓ کو بحرین اورہجر کا کلکٹر مقررکرکے روانہ فرمایا، باایں ہمہ اُس وقت ملکی خدمت زہد وتقدس کے خلاف سمجھی جاتی تھی اس لئے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے کہا کہ عمر تم نے اصحاب رسول اللہ کو آلودہ دنیا کردیا، حضرت عمرؓ نے فرمایا آخر میں اس کے سوا کس سے مددلوں بولے اگر ایسا ہی ہے تو تنخواہ اس قدر مقرر کرو کہ خیانت کی طرف مائل نہ ہونے پائیں۔ (۲)بعض اوقات صوبوں یا ضلعوں کی طرف سے منتخب اشخاص کو طلب کرتے تھے اوران کو وہاں کا عامل مقرر فرماتے تھے ؛چنانچہ اسی طریقے کے مطابق حضرت عثمان بن مزقدؓ کوفہ کے اورحضرت معین بن یزیدؓ شام کے اورحجاج بن علاطؓ بصرہ کے کلکٹر مقرر ہوئے۔ (کتاب الخراج ،صفحۃ ۶۴،۶۵) (۳)حضرت عمرؓ کو عمال کے انتخاب میں ایک بڑی دشواری یہ پیش آئی کہ لوگ حق الخدمت لینا زہد و تقدس کے خلاف سمجھتے تھے ؛لیکن اگر اس ایثار پر سلطنت کے کاروبار کی بنیاد رکھ دی جاتی تو آئندہ چل کر مختلف دشواریاں پیش آتیں ،اس لئے حضرت عمرؓ نے اس غلطی کو ہر ممکن طریقے سے مٹانا چاہا، ایک بار حضرت عبداللہ بن سعدیؓ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو فرمایا کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم بعض ملکی خدمتیں انجام دیتے ہو اورجب تم کو معاوضہ دیا جاتا ہے تو ناپسند کرتے ہو؟انہوں نے کہا ہاں میرے پاس گھوڑے ہیں اور میری حالت اچھی ہے، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی خدمت اللہ کے لیے انجام دوں، بولے ایسا ہرگز نہ کرو میں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایسا کیا تھا؛ لیکن آپﷺ نے فرمایا کہ اس مال کو لے کرکھاؤ اورصدقہ کرو جو مال بغیر حرص وسوال کے مل جائے اس کو لے لو اورجو نہ ملے اس کے پیچھے نہ پڑو۔ (مسند ابن حنبل،جلد۱،صفحہ۱۷ ابوداؤد کتاب الخراج باب ارزاق العمال) (۴)ان کے زمانہ میں جب عمال کا تقررہوتا تھا تو ان کو متعدد صحابہ کے سامنے ایک فرمان عطا ہوتا تھا جس میں ان کی تقرری اورفرائض کی تصریح ہوتی تھی، یہ عامل جس مقام پر پہونچتا تھا، تمام رعایا کے سامنے اس فرمان کو پڑھ کر سناتا تھا؛ چنانچہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ کو جب مدائن کا عامل مقرر کرکے بھیجا تو فرمان میں یہ الفاظ تھے۔ اسمعوالہ واطیعوہ واعطوماسالکم ان کی سنو ان کی اطاعت کرو اورجو کچھ وہ مانگیں ان کو دو ،انہوں نے یہاں آکر یہ فرمان پڑھا تو لوگوں نے کہا آپ جو چاہیں مانگیں، بولے جب تک تمہارے یہاں رہوں اپنا کھانا اوراپنے گدھے کا چارہ چاہتا ہوں۔ (اسد الغابہ تذکرہ حذیفہ بن الیمانؓ وکتاب الخراج،صفحہ ۶۰) (۵)حضرت عمرؓ کو اس پر سخت اصرار تھا کہ امراء وعمال عیش و تنعم میں مبتلا نہ ہونے پائیں، حاکم و محکوم میں مساوات قائم رہے، غیر قوموں کی عادتیں ان میں سرایت نہ کرنے پائیں، حاکم تک ہر شخص بلا روک ٹوک پہونچ سکے ؛چنانچہ حضرت عتبہ بنؓ فرقد کو بہ تصریح لکھا۔ وایاکم والتنعم وزی اھل الشرک ولبرس الحریر عیش و تنعم اہل شرک کی وضع اورحریر سے احتراز کرو۔ اس بنا پر جب کسی شخص کو عامل مقرر فرماتے تھے تو اس سے یہ معاہدہ لے لیتے تھے کہ ترکی گھوڑے پر سوا نہ ہوگا ،چھنا ہوا آٹا نہ کھائے گا،باریک کپڑے نہ پہنے گا،دروازے پر دربان نہ رکھے گا، اہل حاجت کے لئے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا،(مشکوۃ صفحہ ۲۵۸بروایت بیہقی) اورجو عمال ان شرائط کی خلاف ورزی کرتے تھے ان کو فوراً معزول کردیتے تھے، ایک دفعہ راستے میں جارہے تھے دفعۃً آواز آئی اے عمر! کیا یہ معاہدے تمہیں نجات دلا سکتے ہیں؟ حالانکہ تمہارا عامل عیاض بن غنم باریک کپڑے پہنتا ہے اوردربان رکھتا ہے،حضرت عمرؓ نے محمد بن مسلمہ کو بھیجا کہ جس حال میں پاؤ ان کو پکڑ لاؤ، وہ آئے تو دیکھا کہ دروازے پر واقعی دربان ہے، اندر گھس گئے تو دیکھا کہ جسم پر باریک قمیص ہے، انہوں نے کہا امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہو، بولے بدن پر قباڈال لوں، بولے نہیں ،وہ اسی حالت میں حضرت عمرؓ کے سامنے آئے تو انہوں نے قمیص اتروالی ،اس کے بعد اون کا ایک کرتہ اورایک عصا اوربکریوں کا ایک ریوڑ منگایا اورکہا کہ کرتہ پہنو، یہ عصالو اوریہ بکریاں چراؤ ،انہوں نے کہا اس سے تو موت بہتر ہے، بولے گھبرانے کی بات نہیں تمہارے باپ کا نام غنم اسی لئے رکھا گیا تھا کہ وہ بکریاں چرایا کرتا تھا۔ (کتاب الخراج،صفحہ۶۶) (عربی میں غنم بکری کو کہتے ہیں) حضرت سعدؓ نے جب کوفہ میں ایک عظیم الشان محل تعمیر کرایا اورحضرت عمرؓ کو معلوم ہوا کہ ان کی وجہ سے ان تک فریادیوں کی آواز نہیں پہونچ سکتی تو محمد بن مسلمہ کو بھیج کر اس میں آگ لگوادی۔ (مسند ابن حنبل،جلد۱صفحہ۵۴) مصر میں حضرت خارجہ بن حذافہؓ نے ایک بالاخانہ تیار کروایا اورحضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو حضرت عمرو بن العاصؓ کو لکھ بھیجا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ خارجہ نے ایک بالا خانہ تیار کروایا ہے اوراس کے ذریعہ سے اپنے ہمسایوں کی پردہ دری کرنا چاہتا ہے میراخط جس وقت پہنچے اس کو فوراً منہدم کردو۔ (حسن المحاضرہ،جلد۱صفحہ۵۹) ایک بار حضرت بلالؓ نے شکایت کی کہ امرائے شام پرند کے گوشت اور میدے کی روٹی کے سوا اور کچھ کھانا ہی نہیں جانتے ؛حالانکہ عام لوگوں کو یہ کھانا میسر نہیں ہوتا، اس پر حضرت عمرؓ نے سخت گرفت کی اور تمام عمال سے اقرار لیا کہ روزانہ فی کس دوروٹی اورزیتون کا تیل تقسیم کرنا ہوگا اورمال غنیمت کی تقسیم بھی مساویانہ طورپر ہوگی۔ (یعقوبی جلد۲،صفحہ۱۶۸) ان کو اس پر اس قدر اصرار تھا کہ حضرت عتبہ بن ؓ فرقد نے ان کے پاس کھانے کی کوئی عمدہ چیز ہدیۃ بھیجی تو انہوں نے پوچھا کیا کل مسلمان یہی کھاتے ہیں، بولے نہیں، اسی وقت ان کو لکھا کہ یہ تمہاری یا تمہارے باپ کی کمائی نہیں جو خود کھاؤ وہی تمام مسلمانوں کوکھلاؤ۔ (فتح الباری ،جلد۱صفحہ۲۴۱ ومسلم کتاب اللباس والزینتہ) اس داروگیر کا نتیجہ یہ تھا کہ عمال نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے،چنانچہ ایک بارحضرت عمرؓ نے ایک عامل کو طلب فرمایا وہ آئے تو ساتھ میں صرف ایک توشہ دان ایک عصا اورایک پیالہ تھا، حضرت عمرؓ نے دیکھا تو بولے کہ تمہارے پاس بس اسی قدر اثاثہ ہے، بولے اس سے زیادہ اورکیا ہوگا؟ عصا پر توشہ دان ٹانگ لیتا ہوں اورپیالے میں کھالیتا ہوں۔ (استیعاب تذکرہ حضرت سعید ابن عامرؓ) حضرت حذیفہ بن الیمانؓ مدائن کے عامل مقرر ہوکر آئے تو لوگوں نے کہا جو جی چاہے طلب فرمایے ،بولے صرف اپنا کھانا اوراپنے گدھے کا چارہ چاہتا ہوں وہاں سے پلٹے تو جس حالت میں گئے تھے اس میں سرموفرق نہ آیا تھا، حضرت عمرؓ نے دیکھا تولپٹ گئے کہ تم میرے بھائی اورمیں تمہارا بھائی ہوں۔ (اسدالغابہ تذکرہ حذیفہ بن الیمانؓ) حضرت عمرؓ شام میں آئے اورحضرت ابوعبیدہؓ کا زہد وتقشف (سادگی)دیکھا تو فرمایا ابوعبیدہ تمہارے سوا.. ہم میں سے ہر ایک کو دنیا نے بدل دیا۔ (اسداالغابہ تذکرہ ابوعبیدہ بن جراحؓ) (۶)جب کوئی عامل مقرر ہوتا اس کے تمام مال واسباب کی فہرست تیار کرالی جاتی تھی اوراس کی مالی حالت میں اس سے زیادہ جس قدر اضافہ ہوتا تھا وہ تقسیم کرالیا جاتا تھا، چنانچہ اس قاعدے کی رو سے بہ کثرت عمال کے مال کی تقسیم کی گئی، حضرت عمروبن العاص گورنر مصر کو لکھا کہ اب تمہارے پاس بہ کثرت اسباب،غلام برتن اورمویشی ہوگئے ہیں، حالانکہ میں نے جس وقت تمہیں مصر کا گورنر مقرر کیا تھا، تمہارے پاس یہ سامان موجود نہ تھے،انہوں نے عذر کیا کہ مصر میں زراعت اورتجارت دونوں سے پیداوار ہوتی ہے اس لئے ہمارے پاس بہت سی رقسم پس انداز ہوجاتی ہے لیکن حضرت عمرؓ نے ان کی دولت تقسیم ہی کروالی۔ (فتوح البلدان ،صفحہ ۳۲۶) حضرت ابو ہریرہؓ بحرین سے واپس آئے تو اپنے ساتھ بارہ ہزار روپیہ لائے، حضرت عمرؓ نے یہ کل رقم لے لی اورکہا تم نے خدا کا مال چرایا ہے۔ (فتوح البلدان ،صفحہ۹۰) ایک بار ایک شخص نے ایک قصیدے میں بہت سے عمال کے نام گنائے اورلکھا کہ ان لوگوں کے مال ودولت کا حساب ہونا چاہئے ،حضرت عمرؓ نے سب کی دولت تقسیم کروائی یہاں تک کہ ان کے پاس صرف ایک جوتہ رہنے دیا اورایک خود لے لیا۔ (فتوح البلدان ،صفحہ۳۹۲) طبری اوریعقوبی نے اس قسم کے متعدد واقعات نقل کئے ہیں اور یعقوبی نے ان عمال کے نام بھی ایک جگہ جمع کردیئے ہیں جن کے مال تقسیم کرالئے گئےاسد الغابہ تذکرہ محمد بن مسلمہؓ میں بھی اجمالاً اس قدر لکھا ہے۔ وھوالذی ارسلہ عمرالی عمالہ لیاخذ شطراموالھم لثقتہ بہ حضرت عمرؓ نے انہی کو اس لئے بھیجا تھا کہ عمال کا آدھا مال تقسیم کر لائیں، کیونکہ ان کے نزدیک وہ بہت زیادہ قابل اعتماد تھے۔ (۷)عمال کی شکایتوں کی تحقیقات کے لئے حضرت محمدؓ بن مسلمہ کو مامور فرمایا، جب کسی عامل کی شکایت پیش ہوتی تھی تو وہی تحقیقات کے لئے ماجور کئے جاتے تھے، ایک بار کوفہ والوں نے حضرت سعدؓ کی شکایت کی کہ وہ ٹھیک طورپر نماز نہیں پڑھاتے تو حضرت عمرپہلے خود طلب فرما کر ان سے معلوم کیاا اس کے بعد ان کے ساتھ حضرت محمد بن مسلمہؓ کو بھیجا اورانہوں نے جاکر ایک ایک مسجد میں اس کی تحقیقات کی۔ (صحیح بخاری باب وجوب القرآۃ للامام والماموم،بخاری میں محمد بن مسلمہ کا نام مذکور نہیں ہے مگر فتح الباری میں ان کا نام لیا ہے) (۸)اس پر بھی تسکین نہیں ہوئی تو تمام عمال کو حکم دیا کہ حج کے زمانہ میں حاضر ہوں تاکہ مجمع عام میں ان کی شکایتیں پیش ہوسکیں،چنانچہ معمولی سے معمولی شکایتیں پیش ہوتی تھیں اوران پر گرفت کی جاتی تھی، ایک بار حضرت عمرؓ نے مجمع عام میں خطبہ دیا جس میں فرمایا۔ انی لم ابعث عمالی لیضر بواابشارکم ولالیاخذواموالکم فمن فعل بہ ذالک فلیرفعہ الی اقصہ منہ میں نے عمال کو اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ تمہارے منہ پر طمانچے ماریں ،نہ اس لئے کہ تمہارا مال چھین لیں جس شخص کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے اس کو اپنا معاملہ میرے سامنے پیش کرنا چاہئے تا کہ میں اس سے قصاص لوں۔ اس پر حضرت عمروبن العاصؓ نے فرمایا کہ اگر کوئی عامل رعایا کو تادیباً سزادے تب بھی آپ اس سے قصاص لیں گے بولے "ہاں" اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کیوں نہ قصاص لونگا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ سے خود قصاص لیا گیا ہے۔ (ابوداؤد کتاب الحدودباب القود بغیر حدید) یہ محض الفاظ ہی الفاظ نہ تھے؛ بلکہ عین حج کے مجمع میں اس پر عمل بھی ہوا،ایک بار انہوں نے حسب معمول تمام عمال کو طلب کیا اورایک خطبہ میں کہا کہ جس شخص کو عمال سے کوئی شکایت ہو وہ کھڑا ہوکر پیش کرے، ایک شخص اٹھا اورکہا کہ آپ کے عامل نے مجھے سو کوڑے مارے ہیں، حضرت عمرؓ نےفرمایا کیا تم بھی سو کوڑے مارنا چاہتے ہو، اٹھو، حضرت عمروبن العاصؓ نے کہا کہ یہ امر عمال پر گراں ہوگا اورآئندہ کے لئے ایک نظیر قائم ہوجائے گی؛لیکن حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا خود رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا کہ بالآخر حضرت عمروبن العاص ؓ نے استغاثہ کرنے والے کو اس شرط پر راضی کیا کہ فی تازیانہ دواشرفیاں لے کر اپنے حق سے بازآئے۔ (کتاب الخراج،صفحہ۶۶) (۹)اس کے علاوہ عمال کے حالات دریافت کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے، جب عمال کے پاس سے کوئی شخص آتا تو اس سے اس کا حال دریافت کرتے ،ایک بار حضرت جریرؓ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے یہاں سے آئے تو حضرت عمرؓ نے ان کا حال پوچھا، انہوں نے نہایت انشا پردازانہ الفاظ میں ان کی تعریف کی۔ (استیعاب تذکرہ جریری بن عبداللہ) عمال جب واپس آتے تو حضرت عمرؓ آگے بڑھ کر کسی جگہ چھپ جاتے اورخفیہ طورپر انکا معائنہ کرتے، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ مدائن سے واپس آئے تو حضرت عمرؓ آگے بڑھ کر راہ میں چھپ گئے اورجب ان کی قدیم حالت میں کوئی تغیر نہیں پایا تو ان سے بے اختیار لپٹ گئے،حضرت حذیفہؓ کو تمام منافقین کے نام معلوم تھے اس لئے حضرت عمرؓ ان سے اپنے عمال کی نسبت بعض باتیں دریافت فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے فرمایا کہ میرے عمال میں کوئی منافق بھی ہے؟ بولے ہاں ایک ہے مگر نام نہ بتاؤں گا بالآخر حضرت عمرؓ نے اس کا خود پتہ لگالیا اوراس کو معزول کردیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حذیفہ بن الیمانؓ) عمال کی معزولی حضرت عمرؓ ہمیشہ ملکی عہدے ان لوگوں کو دیتے تھے جو ایک طرف تو اس خدمت کے انجام دینے کی قابلیت رکھتے تھے، دوسری طرف ان کا دامنِ اخلاق بالکل بے داغ ہوتا تھا، اس لئے ان کو جس عامل میں ان اوصاف کی کچھ بھی کمی نظر آتی تھی اس کو فوراً معزول کردیتے تھے۔ ایک بار حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے میرمنشی نے حضرت عمرؓ کے نام ایک خط لکھا جس کی ابتدا ءاعربی طریقے کے موافق ان الفاظ میں کی من ابوموسیٰ چونکہ عربی قاعدے کی رو سے من ابی موسیٰ لکھنا چاہئے تھا اس لئے حضرت عمرؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو لکھا کہ جس وقت میرا خط پہونچے اپنے میر منشی کو ایک کوڑا مارو اورعلیحدہ کردو۔ (فتوح البلدان ،صفحہ ۳۵۴) حضرت عمارؓ کو والی مقرر کیا تو ایک شخص نے کہا کہ ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ نے ان کو کہاں کا عامل مقرر فرمایا ہے، حضرت عمرؓ نے ان سے اس قسم کے چند سوال کئے تو معلوم ہوا کہ واقعی یہ خیال صحیح تھا، اس لئے ان کو معزول کردیا، (طبری صفحہ،۲۶۷۷) اس کے بعد حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کا تقرر فرمایا؛ لیکن کوفہ والوں نے ان کی شکایت کی کہ ان کا غلام تجارت کرتا ہے ان کو بھی وہاں سے ہٹالیا۔ (طبری،صفحہ ۲۶۷۸) حضرت نعمان بن عدیؓ کو میسان کا عامل بناکر بھیجا تو انہوں نے بی بی کو بھی ساتھ لے جانا چاہا ؛لیکن اس نے انکار کردیا، وہاں پہنچے تو بی بی کے نام ایک خط میں حسب ذیل اشعار لکھ بھیجے۔ فمن مبلغ حسناء ان حلیلھا میری طرف سے اس پیکر حسن کو کون پیغام پہونچائے گا۔ بمیسان لیسقی فی زجاع وحنتم کہ اس کا شوہر میسان میں شیشے کے شیشے اورخم کے خم لنڈھارہاہے اذا شئت غننتی دھاقین قریۃ جب میں چاہتا ہوں تو دیہاتی لوگ میرے لئے گیت گاتے ہیں وصناضۃ تحدو علی کل میھم اور ستار ہر قسم کے سازبجاتا ہے۔ اذا کنت ندمانی فبالاکبر اسقنی اورتو میری ہم نشین ہو تو بڑےپیالے سے پلا ولایسقنی بالاصغر المتثلم نہ کہ چھوٹے اورٹوٹے ہوئے پیالے سے لعل امیر المومنین یسوءہ شائد امیر المومنین کو تناد منا فی الجوسق المتھدم ہماری مصاحبت ناگوارہو حضرت عمرؓ کو اس خط و کتابت کاحال معلوم ہوا تو ان کو لکھا کہ میں نے تمہارا آخری شعر سنا درحقیقت مجھے اس قسم کی صحبت ناگوار ہے، اس کے بعد ان کو معزول کردیا، وہ آئے تو کہا کہ خدا کی قسم یہ کچھ نہ تھا، صرف چند اشعار میری زبان پر جاری ہوگئے تھے ورنہ میں نے کبھی شراب نہیں پی، حضرت عمرؓ نے کہا میرا بھی یہی خیال ہے؛لیکن باایں ہمہ اب تم کبھی میرے عامل نہیں ہوسکتے۔ (اسد الغابہ تذکرہ نعمان بن عدیؓ) جو عمال غلاموں کی عیادت نہیں کرتے تھے یا ان تک کمزور لوگوں کا گذر نہیں ہوسکتا تھا وہ معزول کردیئے جاتے تھے۔ (کتاب الخراج،صفھہ ۶۶) تنخواہ تنخواہ کا کوئی خاص معیار نہ تھا؛بلکہ حالات کے لحاظ سے تنخواہیں مختلف ہوتی تھیں ؛مثلا حضرت عیاضؓ بن غنم حمص کے والی تھے اوران کو روزانہ ایک اشرفی اورایک بکری ملتی تھی (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عیاض بن غنمؓ) لیکن حضرت امیر معاویہؓ اسی عہدے پر مامور تھے اوران کو اس کے صلےمیں ہزار دینار ماہوار ملتے تھے، (استیعاب تذکرہ حضرت امیر معاویہؓ) جو تنخواہ تھی وہ ہر شخص کے لئے کافی ہوتی تھی۔ حضرت عثمانؓ نے اگرچہ اس نظام میں اس قدر تغیر کیا کہ تمام بڑے بڑے عہدے بنوامیہ کو دیدئے ؛تاہم انہوں نے کسی قدیم عامل کو معزول نہیں کیا، طبری میں ہے کہ وہ بلاشکایت یا بغیر استعفاءکے کسی عامل کو معزول نہیں کرتے تھے، (طبری صفحہ ۲۸۱۴) بلکہ شام میں حضرت عمرؓ کے معزول کردہ جو عامل پہلے سے موجود تھے ان کو اپنے اپنے عہدوں پر قائم رہنے دیا، (طبری صفحہ ۲۸۶۷) باقی اس نظام میں اورکسی قسم کا ردوبدل نہیں ہوا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہد خلافت میں اس معاملہ میں دوعظیم الشان انقلاب پیدا ہوئے ،ایک تویہ کہ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کے سوا تمام عمال عثمانی کو یک قلم موقوف کردیا،(یعقوبی ،صفحہ ۲۰۸) دوسرے یہ کہ انہوں نے تمام عمال کے طرز عمل کی عام تحقیقات کرائی، (کتاب الخراج ،صفحہ ۶۷) اورغالبا ًیہ ایسی ترقی تھی جو خود حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں بھی نہیں ہوئی تھی۔