انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** گھمسان کا مقابلہ انہو ں نے چالیس ہزار کے لشکر جرار کو خالد بن ولیدؓ کے تیرہ ہزار مسلمانوں پر حملہ آور کیا،یہ حملہ نہایت سخت اورزلزلہ انداز تھا،مسلمانوں نے نہایت صبر واستقلال کے ساتھ اس حملہ کو روکا اور پھر ہرطرف سے سمٹ کر اوراپنے آپ کو قابو میں رکھ کر دشمنوں پر بھوکے شیروں کی طرح حملہ آور ہوئے تو لشکرِ کذاب کے پاؤں اکھڑے گئے اور وہ بدحواسی کے عالم میں آوارہ وفرار ہونے لگے،محکم بن طفیل نے اپنے لشکر کی یہ حالت دیکھ کر بلند آواز سے یہ کہا کہ ‘‘اے بنو حنیفہ باغ میں داخل ہوجاؤ اور میں تمہارے پیچھے آنے والے حملہ آوروں کو روک رہا ہوں یہ آواز سُن کر بھاگنے والے سب باغ میں داخل ہوگئے،محکم بن طفیل تھوڑی دیر لڑتا رہا،آخر عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کے ہاتھ سے مقتول ہوا،لیکن ابھی تک فتح وشکست کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا،مرتدین بھی سنبھل کر پھر مقابلہ پر ڈٹ گئے اورطرفین سے داد شجاعت دی جانے لگی،مسلمانوں کے علمبردار ثابت بن قیسؓ شہید ہوئے،توحضرت زید بن خطابؓ نے علم اپنے ہاتھ میں لے لیا،مسلمانوں نے ایسی چپقلش مردانہ دکھائی کہ دشمن پیچھے ہٹتے ہٹتے باغ کی دیواروں کے نیچے پہنچ گیا،باغ کے دروازہ پر تھوڑی دیر لڑائی ہوئی آخر مسلمانوں نے باغ کا دروازہ بھی توڑدیا اورجا بجا سے دیواریں توڑ کر اندر داخل ہوگئے۔ لوگوں نے مسیلمہ سے دریافت کیا کہ وہ وعدہ فتح کا کب پورا ہوگا جو تیرا خدا تجھ سے کرچکا ہے،اس نے جواب دیا کہ یہ وقت ایسی باتوں کے دریافت کرنے کا نہیں ہے،ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے اہل وعیال کے لئے لڑے،باغ کے اندر بھی جب ہنگامہ زور خور د گرم ہوا تو مسیلمہ مجبوراً مسلح ہوکر گھوڑے پر سوار ہوا اورلوگوں کو لڑنے کے لئے آمادہ کرنے لگا، جب اُ س نے ہر طرف مسلمانوں کو چیرہ دست دیکھا تو گھوڑے سے اتر کر باغ کے باہر چپکے سے جانے لگا، اتفاقاً دروازہ باغ کے قریب وحشی (قاتل حمزہؓ) کھڑے تھا انہوں نے اپنا حربہ پھینک مارا جو مسیلمہ کی دوہری زرہ کو کاٹ کر اُس کےپیٹ کے باہر نکل گیا،بالآخر دشمنوں میں سے جس کو جس طرف راستہ ملا بھاگا اور تھوڑی دیر میں مسلمانوں کے سوا مرتدوں میں کوئی نظر نہ آتا تھا، اس لڑائی میں دشمنوں کے سترہ ہزار آدمی غازیان اسلام کے ہاتھ سے مقتول ہوئے اورایک ہزار سے کچھ زیادہ مسلمانوں کو درجۂ شہادت حاصل ہوا،لیکن مسلمانوں میں زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، شہید ہونے والوں میں حفاظ کلام اللہ بہت سے تھے،تین سو ساٹھ انصار اور تین سو ساٹھ تابعین اس لڑائی میں شہید ہوئے ،لڑائی ختم ہونے کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ نے مجاعہ بن مرارہ کو جو قید میں تھے اپنے ہمراہ لے کر لاشوں کا معائنہ کیا اور سرداران لشکر مسیلمہ اورخود مسیلمہ کی لاش کو مجاعہ نے شناخت کیا۔ بنو حنیفہ یعنی لشکر مسیلمہ کے بقتہ السیف تو آوارہ مفرور ہوچکے تھے،شہر اور قلعہ یمامہ میں عورتوں اوربچوں کے سوا کوئی مرد باقی نہ تھا اور زخمیوں کی مرہم پٹی ضروری سمجھ کر حضرت خالد بن ولیدؓ نے اسی روز شہر یمامہ پر قبضہ کرنا ضروری نہ سمجھا اُن کا ارادہ تھا کہ کل صبح شہر پر قبضہ کرنے کے لئے بڑھیں گے مجاعہ بن مرارہ نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی نہ کی،اُس نے خالد بن ولیدؓ سے کہا کہ ہمارے جس قدر سردار معہ مسیلمہ مارے گئے ہیں،آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے مہم کو پورا کرلیا ہے،ابھی ان سے بہت زیادہ بہادر جنگ جو لوگ باقی ہیں اور وہ شہر کی مضبوط فصیلوں اور سامان رسد نیز سامان حرب کی کافی فراہم سے فائدہ اُٹھا کر آپ کو ناک چنے چبوادیں گے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ تھوڑی دیر کے لئے مجھے چھوڑ دیجئے تاکہ میں شہر میں جاکر ان سب لوگوں کو اس بات پر آمادہ کر آؤں کہ وہ آپ کا مقابلہ نہ کریں اور شہر کو بہ رضا مندی صلح کے ساتھ آپ کے سپرد کرادوں، حضرت خالد نے مجاعہ سے کہا کہ میں تجھ کو قید سے رہا کئے دیتا ہوں تو جاکر اپنی قوم کو صلح پر رضا مند کر؛ لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ صرف میں ان نفوس کی بابت صلح کروں گا۔ مجاعہ لشکر اسلام سے روانہ ہوکر شہر میں گیا اوروہاں شہر کی عورتوں کو مسلح ہوکر فصیل شہر پر کھڑے ہونے کی ہدایت کرکے جو کچھ سمجھا نا تھا سمجھا آیا اورواپس آکر کہا کہ میری قوم محض اپنی جانوں کی بابت صلح کرنی نہیں چاہتی،حضرت خالد بن ولیدؓ نے شہر کی طرف نظر ڈالی تو تمام فصیل تلواروں اور نیزوں سے چیک رہی تھی اور مسلح آدمیوں کی کثرت جو مجاعہ نے بیان کی تھی اُس کی تصدیق ہو رہی تھی حضرت خالد بن ولیدؓ نے زخمیو ں کی کثرت اورمہم کے جلد ختم کرنے کے خیال سے صلح کو مناسب سمجھ کر اس بات پر رضا مندی ظاہر کی کہ نصف مال واسباب اورنصف مزروعہ باغات اورنصف قیدیوں کو بنو حنیفہ کے لئے چھوڑدیں گے مجاعہ پھر شہر میں گیا اور واپس آکر کہا کہ وہ لوگ اس پر بھی رضا مند نہیں ہوتے آپ ایک ربع مال واسباب وغیرہ لے کر صلح کرلیں،حضرت خالد بن ولیدؓ نے چوتھائی اموال واملاک پر صلح کرلی اورصلح نامہ لکھا گیا اس کے بعد جب دروازہ کھلواکر اندر گئے تو وہاں سوائے عورتوں اوربچوں کے کسی مرد کا نام ونشان نہ پایا،حضرت خالدؓ نے مجاعہ سے کہا کہ تونے ہمارے ساتھ فریب سے کام لیا ہے اُس نے کہا کہ میری قوم بالکل تباہ ہوجاتی،میرا فرض تھا کہ اپنی قوم کو مصیبت سے بچاؤں آپ مجھ کو معاف فرمائیے ،حضرت خالد خاموش ہورہے اور عہد نامہ کی خلاف ورزی کا خیال تک بھی اُن کے دل میں نہ آیا،تھوڑی دیر کے بعد مسیلمہ بن وقش حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ایک خط لے کر پہنچے اُس میں لکھا تھا کہ اگر تم کو بنو حنیفہ پر فتح حاصل ہو تو ان کے بالغ مردوں کو قتل کیا جائے اوران کی عورتوں اوربچوں کو قید کرلیا جائے ؛لیکن اس خط کے پہنچنے سے پہلے صلح نامہ لکھا جاچکا تھا،لہذا اس کی تعمیل نہ ہوسکی،پاس عہد اور ایفائے وعدہ کی مثالوں میں یہ واقعہ بھی خصوصیت سے قابلِ تذکرہ ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے بنو حنیفہ کے ایک وفد کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں روانہ کیا ایک خط خلیفہ کی خدمت میں لکھ کر اُن کو دیا،اس خط میں فتح کا مفصل حال اور ابو حنیفہ کے دوبارہ داخل اسلام ہونے کی خبر درج تھی،صدیق اکبرؓ نے اس وفد سے عزت واحترام کے ساتھ ملاقات کی اور محبت کے ساتھ اُن کو رخصت کیا جنگ یمامہ ماہِ ذی الحجہ ۱۱ ھ میں وقوع پذیرہوئی