انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتح شام فتح ایران اور فتح یمن کی پیشگوئی جنگ احزاب سے کون واقف نہیں،آپ نے یہ بھی بارہا سنا کہ اس میں مسلمانوں نے حضورﷺ کے حکم سے مدینہ کے گرد خندق کھودی،کھدائی کے دوران ایک چٹان ظاہر ہوئی جس پر کدال کام نہ کرتے تھے،صحابہ نے حضورﷺ سے صورت حال عرض کی، آپﷺ نے بسم اللہ کہہ کر کدال اٹھائی اوراس پر ضرب لگائی، ایک تہائی چٹان ٹوٹ گئی اورآپ نے ایک روشنی دیکھی، اس میں آپ نے شام کے سرخ محل دیکھے، آپﷺ نے پھر دوسری ضرب لگائی اور چٹان کا دوسرا تہائی حصہ بھی ٹوٹ گیا اورآپ نے اس کی روشنی میں مدائن کے سفید محلات دیکھے،آپ نے پھر ایک اور ضرب لگائی اورباقی چٹان بھی ٹوٹ گئی اورآپ نے صنعاء(یمن) کے دروازے دیکھے، حضرت براء کہتے ہیں: "حضور نے اس چٹان کی پہلی ضرب پر فرمایا "اعطیت مفاتیح الشام"مجھے شام کی کنجیاں دی گئیں، دوسری ضرب پر فرمایا مجھے فارس کی کنجیاں دی گئیں اور تیسری ضرب پر فرمایا مجھے یمن کی کنجیاں دی گئیں"۔ (مسند امام احمد،حدیث براء بن عازب،حدیث نمبر:۱۷۹۴۶) یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے،جو حرف بحرف پوری ہوئی،اس میں اس بات کی خبر دی گئی کہ یہ سلطنتیں مسلمانوں کے قبضے میں آئیں گی،اس میں یہ خبر بھی تھی کہ آپ کے صحابہ جوان ملکوں کو فتح کریں گے وہ آپ کے نقش قدم پر ہی آگے بڑھیں گے ورنہ ان کی فتوحات حضورﷺ کے ہاتھ میں دی گئی کنجیاں شمارنہ ہوتیں اور یہ صحیح ہے کہ صحابہؓ حضورﷺ کی وفات کے بعد آپ کے دین سے پھرے نہیں وہ آپ کی پوری تابعداری اوروفاداری سے دنیا کے کناروں تک پھیلے اورپہنچے ہیں۔ یہ خبر حدیث میں پہلے دور سے تعلق رکھتی ہے،جو اسلام کا قرن اول کہلاتا ہے یہ عہد صحابہ میں ہو بہو پوری ہوئی اور دنیانے صداقت حدیث کے کھلے نشان دیکھے، حدیث میں پھر ایسی پیشگوئیاں بھی موجود ہیں، جو اس سے پہلے دور میں پوری نہیں ہوئیں، کئی صدیوں کے بعد پوری ہوئیں، جس وقت حدیث کی کتابیں لکھی جارہی تھیں، اس وقت ان خبروں کے پورا ہونے کے کوئی آثار عالم ظاہر میں موجود نہ تھے، محدثین صرف یہ دیکھتے تھے کہ حدیث ان کے قواعد کے مطابق صحیح اور قابل قبول ہے یانہیں؟ان کے حدیثوں کے کتابوں میں لکھے جانے پر جب کئی صدیاں گزریں تو ان کے مصداق ظاہر ہوئے،اب ان روایات کا ایک ایک لفظ شہادت دے رہا ہے کہ حضورﷺ نے یہ باتیں اپنی طرف سے نہ کہی تھیں ؛بلکہ ان میں وحی غیر متلو کا الہامی عنصر شامل تھا۔مثلاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَخْرُجَ نَارٌ مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ تُضِيءُ أَعْنَاقَ الْإِبِلِ بِبُصْرَى"۔ (بخاری، باب خروج النار،حدیث نمبر:۶۵۸۵) ترجمہ:قیامت سے پہلے ایک وقت ہوگا،جب ارض حجاز سے ایک آگ نکلے گی،وہ اونٹوں کی گردنوں تک اونچے ٹیلوں اورپہاڑوں تک کو روشن کردیگی۔ یہ پیش گوئی حدیث کی ان کتابوں میں مذکور ہے،جو دوسری اور تیسری صدی میں لکھی گئیں؛لیکن یہ پوری کب ہوئی؟ ساتویں صدی ہجری میں، اب کسی جہت سے اس وہم کو راہ نہیں ملتی کہ یہ پیشگوئیاں بعد الوقوع ان کتابوں میں جگہ پاگئی ہیں، ہرگز نہیں یہ روایات حدیث کے الہامی پہلو کا کھلا نشان اورحدیث کے وحی غیر متلوہونے پر ایک روشن برہان ہیں،حافظ ابن حجر عسقلانی(۸۵۲ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: قرطبی(۶۷۱ھ) نے تذکرہ میں لکھا ہے کہ حجاز میں (۶۵۴ھ) کو ایک آگ نکلی، پہلے ایک بڑا بھاری زلزلہ آیا، یہ واقعہ جمادی الاخری بدھ کی شام کا ہے، یہ آگ جمعہ کے دن تک جلتی رہی، آگ ایک بڑے شہر کی شکل میں تھی، جس کے گرد فصیلیں ہوں اوراس پر برج اورمینار ہوں یوں دکھائی دیتا تھا جیسے اس میں کچھ انسان ہیں جو اسے جلارہےہیں، جس پہاڑ پر سے یہ گزرتی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی اورپگھلا کر رکھ دیتی، یوں بھی معلوم ہوتا کہ اس میں سے سرخ اورنیلے دریا بھی نکل رہے ہیں، اس کی آواز بادل کی گرج کی سی تھی اور یہ پتھروں کو ساتھ بہا لیے جاتی تھی، پھر اسی جگہ جا ٹھہری جو عراق والوں کے اترنے کی جگہ ہے،امام نوویؒ (۶۷۶ھ) لکھتے ہیں، اس آگ کا نکلنا جمیع اہل شام کے ہاں تواتر کے درجہ تک پہنچا ہوا ہے سو اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ (بخاری، باب خروج النار،حدیث نمبر:۶۵۸۵فتح الباری،۲۰/۱۲۸)