انوار اسلام |
س کتاب ک |
ٹی وی کے ذریعہ نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ نماز کوئی مشینی عمل نہیں ہے؛ بلکہ ایک عبادت ہے، جس میں انسان اپنے پورے وجودِ ظاہری اور باطنی کیفیت، قلب وروح، دل ودماغ، زبان، اعضاء وجوارح اور حرکات وسکنات کے ساتھ خدا کےحضور بچھ جاتا ہے، یہ خدا سے ہم کلامی (مناجات) اور قلب کے خوف وعاجزی سے لبریز ہونے (خشوع) کا اظہار اور نشان ہوتا ہے، امام جو کچھ بولتا ہے وہ گویا غایت درجہ احترام وادب اور خوف ومحبت کے ساتھ اپنے مقتدیوں کی بات خدا تک پہنچانے کا کام کرتا ہے، ٹیلی ویژن کی امامت میں جو نماز ہوگی وہ محض ایک مشینی حرکت ہوگی اس میں وہ خوف وخشیت، تواضع وانکساری، ادب وشائستگی اور خوف ورجا کہاں ہوسکتا ہے؛ اس لئے فقہی نقطۂ نظر سے ہٹ کرعبادت وبندگی کی روح اور اس کی شان وکیفیت بھی اس کے مغائر ہے کہ انسان ان مصنوعی کل پرزوں کی اقتداء میں نماز ادا کرنے لگے۔ فقہی اعتبار سے اقتداء صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ امام اور مقتدی کے درمیان شارع عام (Main Road) بڑی نہر یا کسی پل وغیرہ کا فاصلہ نہ ہو، اتنے فاصلے کی موجودگی میں اقتداء درست نہ ہوگی اور اگر بڑا مجمع ہو، صفوں کا تسلسل بھی قائم ہو مثلاً عیدگاہ میں آسانی اور نقل وحرکت کے اندازے کے لئے مختلف جگہ ٹیلی ویژن لگادیئے جائیں تو نماز تو ہوجائیگی؛ لیکن یہ عمل کراہیت سے خالی نہ ہوگا، ٹی وی کی فقہی حیثیت سے قطعِ نظر نمازی کے سامنے اس طرح صورتوں کا آنا اپنی جگہ بھی کراہیت لئے ہوئے ہے اور اس لئے بھی کہ اس سے خشوع متاثر ہوگا؛ جہاں تک نقل وحرکت کی اطلاع کا مسئلہ ہے وہ لاؤڈ اسپیکر سے بھی ممکن ہے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۳۵)