انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** نویں شہادت (۹)"َمَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"۔ (الحشر:۷) ترجمہ: جو چیز تمھیں اللہ کا رسول دے اسے لو اور جس چیز سے تمہیں روکے اس سے رک جاؤ۔ "آتَاكُمُ الرَّسُولُ" صرف مادی چیزوں غنائم وغیرہ کے لیے ہی نہیں، علم دینے، بات کہنے اور درجہ ومقام دینے کو بھی ایتاء سے تعبیر کرسکتے ہیں، قرآن کریم میں ہے: "يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ "۔ (المجادلۃ:۱۱) ترجمہ: اللہ بلند کرتا ہے ان کے لیے جو تم میں سے ایمان لائے اور دیئے گئے، علم درجات۔ "أُوتُوا الْعِلْمَ" کے الفاظ آپ کے سامنے ہیں "آتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ" کے الفاظ بھی ملاحظہ کیجئے، حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: "وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ"۔ (ص:۲۰) ترجمہ: ہم نے اسے تدبیر اوربات کی قوت فیصلہ دے رکھی تھی۔ کیا یہاں قول پر ایتاء کا لفظ نہیں آیا؛ اگر یہاں آسکتا ہے تو آتَاكُمُ الرَّسُولُ میں رسول کی ساری باتیں کیوں نہیں آئیں"وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا" میں کیاعطائے حکمت کے لیے ایتاء کا لفظ نہیں ہے؟۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اوریوشع بن نون کی جب حضرت خضر سے ملاقات ہوئی تو اسے یوں ذکر فرمایا: "فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا"۔ (الکہف:۶۵) ترجمہ: پھر ان دونوں نے پایا ایک بندہ ہمارے بندوں میں سے جس کو ہم نے حکمت دی تھی اوراسے اپنے پاس سے علم دیا تھا۔ تو یہاں رحمت کو لفظ اتینا سے بیان نہیں کیا گیا؟حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: "وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا، وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّا"۔ (مریم:۱۳) ترجمہ :اورہم نے ان کو بچپن ہی میں دانائی بھی عطا کردی تھی اوراپنی طرف سے شوق دیا اور دی پاکیز گی اور تھا وہ بچنے والا۔ کیا یہاں حکم کی بات، طبیعت کے شوق اور مزاج کی پاکیز گی کو لفظ ایتاء سے بیان نہیں کیا ہے؟ یہ آیات اس بات کے شواہد ہیں کہ اتاکم کے لفظ کچھ مادی چیز وں سے ہی خاص نہیں علم الحکمت اقوال اوربات کہنے کو بھی اس سے تعبیر کرتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح غنائم تقسیم فرماتے تھے علم بھی بانٹتے تھے اورہر کسی کو اپنے اپنے ظرف کے مطابق ملتا تھا،محدثین حدیث"انما انا قاسم واللہ معطیٰ" کوباب غنائم میں بیان کرتے ہیں تو وہ اسے باب العلم میں بھی لاتے ہیں، ہاں باب الرزق میں اسے کسی نے روایت نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) اس طبقے کے استاد تھے جنہیں حضرت عمرؓ انتم راس العرب وجمجمتھا (مستدرک حاکم:۳/۴) کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں، کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ لفظ ایتاء کے عربی اطلاق سے نا آشنا تھے؟ نہیں آپ نے آیت اتاکم الرسول سے حدیث پر واضح اندازمیں استدلال کیا ہے آپﷺ نے فرمایا: "لعن الله الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله"۔ (مشکاۃ المصابیح،باب الترجل الفصل الاول،حدیث نمبر:۴۴۳۱) ترجمہ: اللہ تعالی بدن کو گودنے والی، گدوانے والی، بالوں کو نچوانے والی اور افزائش حسن کے لیے دانتوں کو (ریتی سے) رگڑوانے والی عورتوں پر لعنت کرے۔ آپ کے پاس ایک عورت آئی اوراس نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ آپ فلاں فلاں عمل کی عورتوں پر لعنت کرتے ہیں،آپ نے فرمایا: "وَمَا لِي لَاأَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ هُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ"۔ (بخاری، باب وما اتاکم الرسول فخذوہ،حدیث نمبر:۴۵۰۷) ترجمہ: میں کیوں ان پر لعنت نہ کروں جن پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جوقرآن کریم میں ملعون ٹھہرے۔ وہ عورت حیران ہوئی اور کہا میں نے قرآن پڑھا ہے؛ لیکن میں نے کہیں یہ آیت نہیں پڑھی،اس پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا اگر تونے قرآن پڑھا ہوتا تو تو اس میں یہ آیت پا لیتی کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی: "مَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"۔ (الحشر:۷) ترجمہ:رسول جو تمہیں دے وہ لے لو اورجس سے روکے اس سے رک جاؤ۔ اس سے پتہ چلا کہ آیت "مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ " آنحضرتﷺ کے جملہ احکام واوامر کو شامل ہے اورآپ کی تعلیمات کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس میں ہم آپ کی کسی بات سے سرتابی کرسکیں۔ حضرت یزیدبن عبدالرحمن کی عظمت قدرسے کون واقف نہیں، آپ نے ایک محرم شخص (احرام والے مسلمان) کو سلے ہوئے کپڑوں میں دیکھا، آپؓ نے اسے اس سے منع فرمایا۔(ترجمان السنہ:۱/۱۱۵) اس نے آپؓ سے کہا کیا یہ قرآن پاک میں ہے؟ آپ نے اس کے جواب میں یہ آیت پڑھی۔ "مَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"۔ ترجمہ: رسول جو تمہیں دے وہ لے لو اور جس بات سے روکے اس سے رک جاؤ۔ معلوم ہوا کہ "مَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ" سے حجیت حدیث پر استدلال کیا جاسکتا ہے اور لفظ اتیاء کچھ مادی چیزوں سے خاص نہیں ہے۔ قرآن کریم میں یہاں مثبت اورمنفی دونوں پیرائے ہیں،مثبت کو اتاکم سے اور منفی کو نھاکم سے تعبیر فرمایا ہے،کسے معلوم نہیں، نہی کا لفظ امر کے مقابلہ میں آتا ہے، یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر کس نے نہیں پڑھا، قرآن کریم نے یہاں ما اتاکم الرسول کو ما نھاکم عنہ کے مقابلہ اور فخذوہ کو فنتھوا کے مقابلہ میں ذکر کیا ہے، سو اس بات میں کسی تردد کی گنجائش نہیں ہے کہ مااتاکم یہاں ماامرتکم بہ کے معنی میں ہے اوریہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ تعلیمات کو شامل ہے، یہ وہ ہدایت ہے جو آپﷺ اللہ کی طرف سے لائے اور یہی وہ پیغام ہے جو آپ نے امت کو دیا، قرآن کریم نے اسی کی تائید کی اورفرمایا مااتاکم الرسول فخذوہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اتاکم کو امرتکم بشی سے ذکر کیا ہے، اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس آیت میں اتاکم واقعی امرکم کے معنوں میں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اقرع بن حابس نے حضورﷺ سے سوال کیا کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہوتا ہے، ہاں نفلی حج اس کے علاوہ ہے وہ پھر بھی ہوسکتا ہے، حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ایسے ہی ایک سوال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَدَعُوهُ"۔ (مسلم،باب فرض الحج مرۃ فی العمر،حدیث نمبر:۲۳۸۰) ترجمہ: جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو تم اس پر جہاں تک تم سے ہو سکے عمل کرو اورجب کسی چیز سے تمہیں روکوں تو تم اسے چھوڑدو۔ کونکرہ ذکرکیا گیاہے،اس میں حضورﷺ کے ہزاروں حکم آگئے اوران میں سے ہرایک کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ قرآن کریم میں موجود ہے،ماکےعموم نے ہراس بات کوجوحضورﷺ لے کرآئے اپنے اندرسمولیا اورشئکانکرہ ہونا ہرحکم نبوی کو شامل ہوگیا،حاصل اینکہ یہ حدیث اوریہ آیت ایک کلیدی درجہ رکھتی ہیں، جس سے احادیث نبوی اور سنن رسالت کے جملہ خزانے کھلتے ہیں۔