انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** روزہ روزہ کی اہمیت اورفرضیت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں ایمان اورنماز وزکوٰۃ کے بعد روزہ کا درجہ ہے،قرآن شریف میں فرمایاگیا ہے: "یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَـمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ"۔ (البقرۃ:۱۸۳) اے ایمان والو!تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے جیسے کہ تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا تاکہ تم میں تقوے کی صفت پیدا ہو۔ اسلام میں پورے مہینے رمضان کے روزے فرض ہیں اور جوشخص بلاکسی عذراورمجبوری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑدے تووہ بہت ہی سخت گناہگارہے،ایک حدیث میں ہے کہ: "جوشخص بلاکسی معذوری اوربیماری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑدے،تو زمانہ بھر کا روزہ رکھنا بھی اس کی تلافی نہیں کرسکتااگرچہ وہ رکھتا رہے"۔ (ترمذی،باب ما جاءفی الافطار متعمدا،حدیث نمبر:۶۵۵، شاملہ، موقع الإسلام) روزوں کا ثواب روزہ میں چونکہ کھانے پینے اورنفسانی شہوت کے پورا کرنے سے اپنے نفس کو عبادت کی نیت سے روکا جاتا ہے اور اللہ تعالی کے واسطے اپنی خواہشوں اورلذتوں کو قربان کیاجاتاہے،اس لیے اللہ تعالی نے اس کاثواب بھی سب سے نرالااور بہت زیادہ رکھا ہے،ایک حدیث میں ہے کہ: "بندوں کے سارے نیک اعمال کی جزا کاایک قانون مقررہے اورہرعمل کاثواب اسی مقررہ حساب سے دیاجائے گا،لیکن روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے،اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ بندہ روزے میں میرے لیے اپنا کھانا پینا اوراپنے نفس کی شہوت کو قربان کرتا ہے،اس لیے روزہ کی جزابندہ کو میں خود براہ راست دوں گا"۔ (بخاری،باب ھل یقول انی صائم اذا شتم،حدیث نمبر:۱۷۷۱، شاملہ، موقع الإسلام) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: "جوشخص پورے ایمان ویقین کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے اور اس سے ثواب لینے کے لیے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے پہلے سب گناہ معاف کردیئے جائیں گے"۔ (بخاری،باب صوم رمضان احتسابا من الایمان،حدیث نمبر:۳۷، شاملہ، موقع الإسلام) روزہ دار کے لیے فرحت کے دوخاص موقع ہیں،ایک خاص فرحت اس کو افطار کے وقت اس دنیاہی میں حاصل ہوتی ہے اور دوسری فرحت آخرت میں اللہ کے سامنے حاضری اور بارگاہ الہی میں باریابی کے وقت حاصل ہوگی"۔ (بخاری،باب ھل یقول انی صائم اذا شتم،حدیث نمبر:۱۷۷۱، شاملہ، موقع الإسلام) ایک اورحدیث میں وارد ہوا ہے کہ: "روزہ ڈھال ہے،(جودوزخ کے عذاب سے روزہ دارکو محفوظ رکھے گی)"۔ (مسلم،باب فضل الصیام،حدیث نمبر:۱۹۴۳، شاملہ، موقع الإسلام) ایک اورحدیث میں وارد ہوا ہے کہ: "روزہ دارکے لیے خود روزہ اللہ تعالی سے سفارش کرے گا کہ میری وجہ سے اس بندے نے دن کو کھانا پینا اورخواہش نفس کا پورا کرنا چھوڑاتھا(پس اس کو بخش دیا جائے اور اس کو پورا اجردیا جائے)تواللہ تعالی روزہ کی یہ سفارش قبول فرمالے گا"۔ (مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص،حدیث نمبر،۶۳۳۷، شاملہ، موقع الإسلام) ایک حدیث میں ہے کہ: "روزہ دارکے منہ کی بدبو(جوبعض اوقات معدہ خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے اچھی ہے"۔ (بخاری،باب ھل یقول انی صائم اذا شتم،حدیث نمبر:۱۷۷۱، شاملہ، موقع الإسلام) ان حدیثوں میں روزے کی جو فضیلتیں بیان ہوئی ہیں ان کے علاوہ اس کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانوں کو دوسرے حیوانوں سے ممتاز کرتا ہے، جب جی چاہا کھالیا،جب جی میں آیا پی لیااور جب نفسانی خواہش ہوئی اپنے جوڑے سے لذت حاصل کرلی ،یہ شان حیوانوں کی ہےاورکبھی نہ کھانا،کبھی نہ پینااورجوڑے سے کبھی لذت حاصل نہ کرنایہ شان فرشتوں کی ہے، پس روزہ رکھ کر انسان دوسرے حیوانوں سے ممتاز ہوتاہے اور فرشتوں سے ایک طرح کی مناسبت اس کو حاصل ہوجاتی ہے۔ روزوں کاخاص فائدہ روزے کا ایک خاص فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی میں تقویٰ اورپرہیزگاری کی صفت پیداہوتی ہے اور اپنی نفسانی خواہشات پر قابوپانے کی طاقت آتی ہے اور اللہ کے حکم کے مقابلے میں اپنے نفس کی خواہش اور جی کی چاہت کو دبانے کی عادت پڑتی ہے اور روح کی ترقی اور تربیت ہوتی ہے؛ لیکن یہ سب باتیں جب حاصل ہوسکتی ہیں کہ روزہ رکھنے والا خود بھی ان کے حاصل کرنے کا ارادہ رکھےاور روزے میں ان تمام باتوں کا لحاظ رہے جن کی ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے یعنی کھانے پینے کے علاوہ تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے بھی پرہیزکرے،نہ جھوٹ بولے، نہ غیبت کرے،نہ کسی سے لڑے جھگڑے ،الغرض روزے کے زمانہ میں تمام ظاہری اورباطنی گناہوں سے پوری طرح بچے،جیساکہ حدیثوں میں اس کی تاکید کی گئی ہے،چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: "جب تم میں سے کسی کے روزے کادن ہوتو چاہئے کہ کوئی گندی اور بری بات اس کی زبان سے نہ نکلے، اوروہ شور شغب بھی نہ کرے اور اگر کوئی آدمی اس سے جھگڑاکرے اور اس کو گالیاں دے تو اس سے بس یہ کہدے کہ میں روزے سے ہوں(اس لیے تمہاری گالیوں کے جواب میں بھی میں گالی نہیں دے سکتا)۔ (بخاری،باب ھل یقول انی صائم اذا شتم،حدیث نمبر:۱۷۷۱، شاملہ، موقع الإسلام) ایک اورحدیث ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جوشخص روزے میں بھی غلط گوئی اور غلط کاری نہ چھوڑے،تو اللہ کو اسکے کھانا پانی چھوڑنے کی کوئی ضرورت اور کوئی پرواہ نہیں"۔ (بخاری،بَاب مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فِي الصَّوْم،حدیث نمبر:۱۷۷۰، شاملہ، موقع الإسلام) ایک اور حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کتنے ہی ایسے روزہ دار ہوتے ہیں(جوروزہ میں بری باتوں اوربرے کاموں سے پرہیز نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے) ان کے روزوں کا حاصل بھوک پیاس کے سواکچھ بھی نہیں ہوتا"۔ (سنن دارمی، كتاب الرقاق، باب فِى الْمُحَافَظَةِ عَلَى الصَّوْمِ، حدیث نمبر:۲۷۷۶، شاملہ، موقع وزارة الأوقاف المصرية) الغرض روزے کے اثر سے روح میں پاکیزگی اور تقوی وپرہیزگاری کی صفت اورنفسانی خواہشات پر قابو پانے کی طاقت جب ہی پیدا ہوگی جبکہ کھانے پینے کی طرح دوسرے تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے بھی پرہیز کیاجائےاورخاص کر جھوٹ،غیبت اور گالی گلوج وغیرہ سے زبان کی حفاظت کی جائے؛ بہر حال اگراس طرح کے مکمل روزے رکھے جائیں تو انشاء اللہ وہ سب فائدے حاصل ہوسکتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا اور ایسے روزے آدمی کو فرشتہ صفت بناسکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کہ روزے کی حقیقت اور اس کی قدروقیمت کو سمجھیں اور اس کے ذریعہ اپنے اندر تقویٰ اورپرہیزگاری کی صفات پیدا کریں۔