انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اخلاق وعادات اخلاق حضرت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا حقیقی مقصد دنیا کو برگزیدہ اورپسندیدہ اخلاق کی تعلیم دینا تھا،جیسا کہ خود ارشاد فرمایا بعثت لا تم مکارم الاخلاق،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو براہ راست اس سرچشمہ اخلاق سے سیراب ہونے کا موقع ملاتھا اس لئے اس مقدس جماعت کا ہر فرد اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ تھا؛لیکن حضرت عمر ؓ کو بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو تقرب حاصل تھا اس کے لحاظ سے ان کو زیادہ حصہ ملا،وہ محاسن ومحامد کی مجسم تصویر تھے ان کے آئینہ اخلاق میں خلوص، انقطاع الی اللہ،لذایذدنیا سے اجتناب حفظ لسان حق پرستی،راست گوئی،تواضع اورسادگی کا عکس سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے،یہ اوصاف آپ میں ایسے راسخ تھے کہ جو شخص آپ کی صحبت میں رہتا تھا،وہ بھی کم وبیش متاثر ہوکر اسی قالب میں ڈھل جاتا تھا،مسوربن مخرمہ ؓ کا بیان ہے کہ ہم اس غرض سے حضرت عمر ؓ کے ساتھ رہتے تھے کہ ان سے پرہیز گاری وتقویٰ سیکھیں ،عہد فاروقی کے افسروں اورعہدیداروں کے حالات کا بغور مطالعہ کرو،تم کو معلوم ہوگا کہ وہ سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ خوف خدا اخلاق کی پختگی اور استواری کا اصلی سرچشمہ خشئیت الہی اورخداوند جل وعلا جبروت وعظمت کا غیر متزلزل تیقن ہے، جو دل خشوع وخضوع اورخوف خداوندی سے خالی ہے اس کی حقیقت ایک مضغۂ گوشت سے زیادہ نہیں، حضرت عمر ؓ خشوع وخضوع کے ساتھ رات رات بھر نمازیں پڑھتے،صبح ہونے کے قریب گھروالوں کو جگاتے اوریہ آیت پڑھتے:وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا(طٰہٰ:۱۳۲) ،نمازمیں عموماً ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کا ذکر یا خدا کی عظمت کا جلال کا بیان ہوتا اور اس قدر متاثر ہوتے کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی،حضرت عبداللہ بن شداد ؓ کا بیان ہے کہ میں باوجود یکہ پچھلی صف میں رہتا تھا ؛لیکن حضرت عمرؓ یہ آیت اِنَّمَا اَشکُوْبِثَیْ وَحُزْنِیْ پڑھکر اس زور سے روتے تھے کہ میں رونے کی آواز سنتا تھا۔ (بخاری کتاب الصلوۃ باب اذابکی الامام فی الصلوٰۃ) حضرت امام حسن ؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نماز پڑھ رہے تھے جب اس پر پہنچے:اِنَّ عَذابَ ربک لواقع مالہ من دافع "یہ تیرے رب کا عذاب یقینی ہوکر رہنے والا ہے اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں"تو بہت متاثر ہوئے اورروتے روتے آنکھیں سوج گئیں،اسی طرح ایک دفعہ اس آیت پر: وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا(الفرقان:۱۳)اس قدرخضوع وخشوع طاری ہواکہ اگر کوئی ان کے حال سے ناواقف شخص دیکھ لیتا تو یہ سمجھتا کہ اسی حالت میں روح پرواز کرجائے گی،رقت قلب اورعبرت پذیری کا یہ عالم تھا کہ ایک روز صبح کی نماز میں سورۂ یوسف شروع کی اورجب اس آیت پر پہنچے وَابیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَھُوَ کَظِیْمٌ،(یوسف)توزاروقطاررونےلگے،یہاں تک کہ قرآن مجید ختم کرکے رکوع پر مجبور ہوگئے۔ (کنزالعمال ج۶ صفحۃ ۳۳۷) قیامت کے مواخذہ سے بہت ڈرتے تھے اور ہر وقت اس کاخیال رہتا تھا، صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی سے کہا کہ "تم کو یہ پسند ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام لائے،ہجرت کی،جہاد اورنیک اعمال کئے،اس کے بدلہ میں دوزخ سے بچ جائیں اور عذاب وثواب برابر ہوجائے،بولے خدا کی قسم نہیں ،ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی روزے رکھے،نمازیں پڑھیں، بہت سے نیک کام کئے اورہمارے ہاتھ پر بہت سے لوگ اسلام لائے ہم کوان اعمال سے بڑی بڑی توقعات ہیں،حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے تو یہی غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ عذاب سے بچ جائیں اورنیکی اوربدی برابر ہوجائیں۔ (بخاری باب ایام الجاہلیۃ) ایک بار راہ میں پڑا ایک تنکا اٹھالیا اورکہا کاش میں بھی خش وخاشاک ہوتا، کاش!کاش میں پیدا ہی نہ کیا جاتا، کاش میری ماں مجھے نہ جنتی۔ (کنزالعمال ج۶ : ۲۲۴) غرض حضرت عمر ؓ کا دل ہر لمحہ خوف خداوندی سے لرزاں وترساں رہتا تھا،آپ فرماتے کہ اگر آسمان سے ندا آئے کہ ایک آدمی کے سوا تمام دنیا کے لوگ جنتی ہیں تب بھی مواخذہ کا خوف زائل نہ ہوگا کہ شاید وہ بد قسمت انسان میں ہی ہوں۔ (ایضاً) حب رسول اوراتباع سنت تہذیب نفس اوراخلاق حمیدہ سے مزین ہونے کے لئے ہر مسلمان کافرض ہے کہ اپنے دل میں مبدءخلق عظیم یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص محبت اوراتباع سنت کا صحیح جذبہ پیداکرے جو دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے خالی اورجو قدم اسوۂ حسنہ کا جادۂ مستقیم سے منحرف ہے وہ کبھی سعادت کونین کی نعمت سے متمتع نہیں ہوسکتا،ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ اپنی جان کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہیں،ارشاد ہوا،عمرمیری محبت اپنی جان سے بھی زیادہ ہونی چاہئے، حضرت عمر ؓ نے کہا اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ آپ جمال نبوت کے سچے شیدائی تھے،ان کو اس راہ میں جان ومال اولاد اورعزیز واقارب کی قربانی سے بھی دریغ نہ تھا، عاصی بن ہشام جو حضرت عمر ؓ کاماموں تھا ،معرکۂ بدر میں خود ان کے ہاتھ سے مارا گیا،اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات ؓ سے ناراض ہوکر علیحدگی اخیتار کرلی توحضرت عمرؓ نے یہ خبر سن کر حاضر خدمت ہونا چاہا،جب باربار اذن طلب کرنے پر بھی اجازت نہ ملی تو پکار کر کہا"خداکی قسم !میں حفصہ کی سفارش کے لئے نہیں آیا ہوں،اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس کی گردن ماردوں۔ (فتح الباری ج ۹ : ۲۵۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت عمر ؓ کی محبت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو ان کو کسی طرح اس کا یقین نہیں آتا تھا،مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حالت وارفتگی میں قسمیں کھا کر اعلان کرتے تھے کہ جس کی زبان سے نکلے گا کہ میرا محبوب آقا دنیا سےاُٹھ گیا اس کا سرتوڑدوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب کبھی عہد مبارک یاد آجاتا تورقت طاری ہوجاتی اورروتے روتے بیتاب ہوجاتے،ایک دفعہ سفرِشام کے موقع پر حضرت بلال ؓ نے مسجد اقصیٰ میں اذان دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ ہوگئی اور اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ ( فتوح الشام ازوی فتح بیت المقدس) یہ فطری امر ہے کہ محبوب کا عزیز بھی عزیز ہوتا ہےاس بناپر جن لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں عزیز رکھتے تھے، حضرت عمر ؓ نے اپنے ایام خلافت میں ان کا خاص خیال رکھا؛ چنانچہ جب آپ نے صحابہ ؓ کے وظائف مقرر کیے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب غلام زید بن حارثہ کے فرزند اسامہ بن زید کی تنخواہ اپنے بیٹے عبداللہ سے زیادہ مقرر کی،عبداللہ نے عذرکیا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔(مستدرک ج۳ مناقب عبداللہ بن عمر ؓ)اسی طرح جب فتح مدائن کے بعد مال غنیمت آیا تو حضرت عمر ؓ نے حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین ؓ کو ہزار ہزار درہم مرحمت فرمائے اوراپنے صاحبزادے عبداللہ کو صرف پانچ سودیئے،حضرت عبداللہ ؓ نے عذرکیا اورکہا کہ جب یہ دونوں بچے تھے،اس وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معرکوں میں پیش پیش رہا ہوں، حضرت عمر ؓ نہ کہا ہاں ؛لیکن ان کے بزرگوں کا جو رتبہ ہے وہ تیرے باپ دادا کا نہیں ہے۔ ازواج ِمطہرات ؓ کے مرتبہ، ان کے احترام اورآرام وآسائش کا خاص لحاظ رکھتے تھے چنانچہ ان کی تنخواہیں سب سے زیادہ بارہ ہزار مقرر کیں،(کتاب الخراج : ۲۴) ۶۳ھ میں جب امیر الحجاج بن کر گئے تو ازواج مطہرات کو بھی نہایت ادب واحترام کے ساتھ ہمراہ لے گئے،حضرت عثمان ؓ اورحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو سواریوں کے ساتھ کردیا تھا،یہ لوگ آگے پیچھے چلتے تھے اورکسی کو سواریوں کے قریب نہیں آنے دیتے تھے،ازواج مطہرات ؓ منزل پر حضرت عمرؓ کے ساتھ قیام کرتی تھیں اورحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کسی کو قیام گاہ کے متصل آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ (ابن سعدتذکرہ عبدالرحمن بن عوف ؓ) حضرت عمر ؓ کے دستور عمل کا سب سے زریں صفحہ اتباع سنت تھا،وہ خوردونوش،لباس وضع،نشست وبرخاست غرض ہر چیز میں اسوۂ حسنہ کو پیش نظر رکھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ فقر وفاقہ سے بسر کی تھی، اس لئے حضرت عمر ؓ نے روم وایران کی شہنشاہی ملنے کے بعد بھی فقر وفاقہ کی زندگی کا ساتھ نہ چھوڑا، ایک دفعہ حضرت حفصہ ؓ نے کہا کہ اب خدا نے مرفہ الحالی عطا فرمائی ہے اس لئے آپ کو نرم لباس اورنفیس غذا سے پرہیز نہ کرنا چاہئے،حضرت عمر ؓ نے کہا،جان پدر!تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسرت اورتنگ حالی کو بھول گئیں،خداکی قسم !میں اپنے آقا کے نقش قدم پر چلوں گا کہ آخرت کی فراغت اورخوشحالی نصیب ہو،اس کے بعد دیر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسرت کا تذکرہ کرتے رہے،یہاں تک کہ حضرت حفصہ ؓ بے تاب ہوکر رونے لگیں۔ ( کنزالعمال ج ۶ : ۲۳۶) ایک دفعہ یزید بن ابی سفیان کے ساتھ شریک طعام ہوئے،معمولی کھانے کے بعد دسترخوان پر جب عمدہ کھانے لائے گئے تو حضرت عمر ؓ نے ہاتھ کھنچ لیا اورکہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں عمر ؓ کی جان ہے اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روش سے ہٹ جاؤ گے تو خداتم کو جادۂ مستقیم سے منحرف کردے گا۔ (ایضاً : ۳۴۵) اسلام میں شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کو بوسہ دیاہے،حضرت عمرؓ کو اپنے زمانہ خلافت میں جب اس کا موقع پیش آیا تو اس خیال سے کہ ایسا نہ ہو کہ پتھر کو بوسہ دینے سے کبھی مسلمانوں کو یہ دھوکہ ہوکہ اس میں بھی الہی شان ہے حجراسود کو بوسہ تو دیا؛لیکن اس کے سامنے کھڑے ہوکرکہا: إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ "میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا۔" (بخاری،بَاب مَا ذُكِرَ فِي الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ،حدیث نمبر:۱۴۹۴) اسی طرح طواف میں رمل کا حکم مشرکین عرب کے دلوں پر رعب ڈالنے کی مصلحت پر مبنی تھا اس لئے جب خدا نے ان کو ہلاک کردیا تو حضرت عمر ؓ کو خیا ل ہوا کہ اب رمل سے کیا فائدہ ہے مگر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار کو ترک کرنے پر جرأت نہ ہوئی۔ (بخاری کتاب الحج) ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجو کام جس طرح کرتے دیکھا اسی طرح وہ بھی عمل پیرا ہوں،ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں دورکعت نماز پڑھی تھی،حضرت عمر ؓ نے جب اس طرف سے گزرتے تو اس جگہ دورکعت نماز ادا کرلیتے تھے،ایک شخص نے پوچھا یہ نماز کیسی ہے؟آپ نے فرمایا کہ میں نے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہے،یہ کوشش صرف اپنی ذات تک محدودنہ تھی؛بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ہر شخص کا دل اتباع سنت کے جذبہ سے معمور ہوجائے۔ ایک دفعہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، حضرت عمر ؓ نے عین خطبہ کی حالت میں اس کی طرف دیکھا اور کہا آنے کا یہ کیا وقت ہے؟ انہوں نے کہا کہ بازار سے آرہا تھا کہ اذان سنی،وضو کرکے فوراً حاضر ہوا،حضرت عمرؓ نے فرمایا"وضو پر کیوں اکتفاکیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جمعہ کو)غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔ (بخاری کتاب الجمعہ باب فضل الغسل یوم الجمعہ) زہد وقناعت دنیا طلبی اورحرص تمام بداخلاقیوں کی بنیاد ہے ،حضرت عمر ؓ کو اس سے طبعی نفرت تھی، یہاں تک کہ خود ان کے ہم مرتبہ معاصرین کو اعتراف تھا کہ وہ زہد وقناعت کے میدان میں سب سے آگے ہیں، حضرت طلحہ ؓ کا بیان ہے: قدامتِ اسلام اورہجرت کے لحاظ سے بہت سے لوگوں کو عمر بن الخطاب پر فوقیت حاصل ہے؛لیکن زہد وقناعت میں وہ سب سے بڑے ہوئے ہیں،صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت عمر ؓ کو کچھ دینا چاہتے تو وہ عرض کرتے کہ مجھ سے زیادہ حاجت مند لوگ موجود ہیں جو اس عطیہ کے زیادہ مستحق ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے کہ اس کو لے لو،پھر تمہیں اختیار ہے کہ اپنے پاس رکھویا صدقہ کردو،انسان کو اگر بے طلب مل جائے تو لے لیناچاہیے۔ (ابوداؤد ،کتاب الزکوٰۃ ،باب فی الاستغفاف) حضرت عمر ؓ کا جسم کبھی نرم اور ملائم کپڑے سے مس نہیں ہوا، بدن پر بارہ بارہ پیوند کا کرتہ،سرپر پھٹاہوا عمامہ اورپاؤں میں پھٹی ہوئی جوتیاں ہوتی تھیں، اسی حالت میں وہ قیصر وکسریٰ کے سفیروں سے ملتے تھے اور وفود کو باریاب کرتے تھے،مسلمانوں کو شرم آتی تھی،مگر اقلیم زہد کے شہنشاہ کے آگے کون زبان کھولتا،ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ اورحضرت حفصہ ؓ نے کہا،امیرالمومنین !اب خدانے مرفہ الحال کیا ہے،بادشاہوں کے سفراء اورعرب کے وفود آتے رہتے ہیں،اس لئے آپ کو اپنے طرز معاشرت میں تغیر کرنا چاہئے، حضرت عمر ؓ نے کہا،افسوس تم دونوں امہات المومنین ہوکر دنیا طلبی کی ترغیب دیتی ہو،عائشہؓ!تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت کو بھول گئیں کہ تمہارے گھر میں صرف ایک کپڑا تھا جس کو دن کو بچھاتے اوررات کو اوڑھتے تھے،حفصہؓ!تم کو یاد نہیں ہے کہ ایک دفعہ تم نے فرش کو دہرا کرکے بچھادیا تھا،اس کی نرمی کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر سوتے رہے۔ بلال ؓ نے اذان دی تو آنکھ کھلی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاحفصۃ ماذا ضعت ثنیت المھاد حتی ذھب بی النوم الی الصباح مالی وللدنیا ومالی شغلتمو نی بین الفراش (کنز العمال ،۶/۳۵۰) "حفصہ تم نے یہ کیا کیا فرش کو دہرا کردیا کہ میں صبح تک سوتا رہا مجھے دنیاوی راحت سے کیا تعلق ہے؟ اور فرش کی نرمی کی وجہ سے تونے مجھے غافل کردیا۔" ایک دفعہ گزی کا کرتہ ایک شخص کو دھونے اورپیوند لگانے کے لئے دیا اس نے اس کے ساتھ ایک نرم کپڑے کا کرتہ پیش کیا، حضرت عمر ؓ نے اس کو واپس کردیا اوراپنا کرتہ لے کر کہا اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے۔ ( ایضاً : ۳۴۶) کپڑا عموماً گرمی میں بنواتے تھے اورپھٹ جاتا تو پیوند لگاتے چلے جاتے ،حضرت حفصہ ؓ نے اس کے متعلق گفتگو کی تو فرمایا،مسلمانوں کے مال میں اس سے زیادہ تصرف نہیں کرسکتا،(ایضاً : ۳۳۲)ایک دفعہ دیر تک گھر میں رہے،باہر آئے تو لوگ انتظار کررہے تھے، معلوم ہوا کہ پہننے کو کپڑے نہ تھے اس لئے ان ہی کپڑوں کو دھوکر سوکھنے کو ڈالدیا تھا،خشک ہوئے تو وہی پہن کر باہر نکلے۔ غذا بھی عموماً نہایت سادہ ہوتی تھی،معمولاً روٹی اورروغن زیتون دسترخوان پر ہوتا تھا،روٹی گیہوں کی ہوتی تھی ؛لیکن آٹا چھانا نہیں جاتا تھا،مہمان یا سفراء آتے تھے تو کھانے کی ان کو تکلیف ہوتی تھی کیونکہ وہ ایسی سادی اورمعمولی غذا کے عادی نہیں ہوتے تھے،حفص بن ابی العاص ؓ اکثر کھانے کے وقت موجود ہوتے تھے ؛لیکن شریک نہیں ہوتے تھے،ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے وجہ پوچھی تو کہا کہ آپ کے دسترخوان پر ایسی سادہ اورمعمولی غذا ہوتی ہے کہ ہم لوگ اپنے لذیذ اور نفیس کھانوں پراس کو ترجیح نہیں دے سکتے،حضرت عمر ؓ نے کہا،کیا تم یہ سمجھتے ہوکہ میں قیمتی اورلذیذ کھانا کھانے کی مقدرت نہیں رکھتا؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اگر قیامت کا خوف نہ ہوتا تو میں بھی تم لوگوں کی طرح دنیاوی عیش وعشرت کا دلدادہ ہوتا۔ (ایضاً،: ۳۴۶) حضرت عمر ؓ ہر شخص کو اپنی طرح زہد اورسادگی کی حالت میں دیکھنا چاہتے تھے، وقتاً فوقتاً اپنے عمال اوراحکام کو ہدایت کرتے رہتے تھے کہ رومیوں اورعجمیوں کی طرز معاشرت نہ اختیار کریں،سفر شام میں جب انہوں نے افسروں کو اس وضع میں دیکھا کہ بدن پر حریر ودیبا کے حلے اور پر تکلف قبائیں ہیں اور وہ اپنی زرق برق پوشاک اورظاہری شان وشوکت سے عجمی معلوم ہوتے ہیں تو آپؓ کو اس قدر غصہ آیا کہ گھوڑے سے اتر پڑے اورسنگریزے اٹھا کر ان پر پھینکے اور فرمایا کہ اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اخیتار کرلیں، اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص جس کو انہوں نے یمن کا عامل مقرر کیا تھا،اس صورت سے ملنے آیا کہ لباس فاخرہ زیب تن کئے ہوئے تھے اور بالوں میں خوب تیل پڑا ہواتھا،اس وضع کو دیکھ کر حضرت عمر ؓ نہایت ناراض ہوئے اور وہ کپڑے اترواکر موٹا جھوٹا کپڑا پہنایا۔ احنف بن قیس ایک جماعت کے ساتھ عراق کی ایک مہم پر روانہ کئے گئے، وہ وہاں سے کامیاب ہوکر تزک واحتشام کے ساتھ واپس آئے تو حضرت عمر ؓ نے ان کے زرق برق پوشاک دیکھ کر منہ پھیر لیا،وہ لوگ امیر المومنین کو برہم دیکھ کر دربار سے اٹھ آئے اور عرب کی سادہ پوشاک زیب تن کرکے پھر حاضر خدمت ہوئے،حضرت عمر ؓ اس لباس میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اورفرد اً فرداً ہر ایک سے بغلگیر ہوئے۔ قناعت کا یہ حال تھا کہ اپنے زمانہ خلافت میں چند برس تک مسلمانوں کے مال سے ایک خرمہرہ نہیں لیا حالانکہ فقروفاقہ سے حالت تباہ تھی،صحابہ ؓ نے ان کی عسرت اور تنگدستی کو دیکھ کر اس قدر تنخواہ مقرر کردی جو معمولی خوراک اورلباس کے لئے کافی ہو ؛لیکن شہنشاہ قناعت نے اس شرط پر قبول کیا کہ جب تک ضرورت ہے لوں گا اورجب میری مالی حالت درست ہوجائے گی،کچھ نہ لوں گا،فرمایا کرتے تھے کہ میرا حق مسلمانوں کے مال میں اسی قدر ہے جس قدر یتیم کے مال میں ولی کا ہوتا ہے،(کنزالعمال ج ۶ : ۳۳۰)میں اپنی ذات پراس سے زیادہ نہیں صرف کرسکتا جس قدر خلافت سے پہلے اپنے مال میں سے صرف کرتا تھا،ایک دفعہ ربیع بن زیاد حارثی نے کہا امیر المومنین! آپ کو خدانے جو مرتبہ بخشا ہے اس کے لحاظ سے آپ دنیا میں سب سے زیادہ عیش ونشاط کی زندگی کے مستحق ہیں، حضرت عمر ؓ نہایت خفا ہوئے اورفرمایا میں قوم کاامین ہوں،امانت میں خیانت کب جائز ہے،(کنزالعمال، ۶/ ۳۴۶)ایک دفعہ عتبہ بن فرقد شریک طعام تھے اور ابلاہوا گوشت اورسوکھی روٹی کے ٹکڑے زبردستی حلق سے فروکررہے تھے حضرت عمر ؓ نے کہا اگر تم سے نہیں کھا یا جاتا تو نہ کھاؤ، عتبہ ؓ سے نہ رہا گیا، کہنے لگے امیر المومنین!اگر آپ اپنے کھانے پہننے میں کچھ زیادہ صرف کریں گے تو اس سے مسلمانوں کا مال کم نہ ہوجائے گا،حضرت عمرؓ نے کہا،افسوس تم مجھے دنیاوی عیش و تنعم کی ترغیب دیتے ہو۔ (ایضاً : ۳۴۸) اپنے وسیع کنبہ کے لئے بیت المال سے صرف دو درہم روزانہ لیتے تھے اور تکلیف وعسرت کے ساتھ بسر کرتے تھے،ایک دفعہ حج میں اسی درہم صرف ہوگئے تو اس کا افسوس ہوا اوراسے اسراف تصور کیا،(اسد الغابہ ج ۴ : ۷۲)کپڑے پھٹ جاتے تھے ؛لیکن اس خیال سے کہ بیت المال پر بار نہ پڑے اسی میں پیوند پر پیوند لگاتے جاتے تھے ،حضرت امام حسن ؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے، میں نے شمار کیا تو ان کے تہبند پر بارہ پیوند لگے ہوئے تھے، (کنزالعمال ج ۶ : ۳۴۷) انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ میں نے زمانہ خلافت میں دیکھا کہ ان کے کرتہ کے مونڈے پر تہہ بہ تہہ پیوند لگے ہوئے ہیں،(موطا امام مالک باب ماجاء فی لبس الثیاب)غرض فاروق اعظم ؓ نے زہد وقناعت کا جو نمونہ پیش کیا، دنیا کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے،اورحقیقت یہ ہے کہ ان کی عظمت وشان کے تاج پر زہد وقناعت ہی کا طرہ زیب دیتا ہے۔ خلافت کے بارگراں نے حضرت عمرؓ کو بہت زیادہ محتاط بنادیا تھا کیونکہ اس وقت ان کی معمولی بے احتیاطی اور فرو گذاشت قوم کے لئے صدہاخرابیوں کا باعث ہوسکتی تھی اور مشکوک طبائع ان کی ذراسی لغزش سے طرح طرح کے افسانے اختراع کرسکتے تھے،حضرت عمر ؓ نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو کبھی ملکی عہدے نہیں دئےکہ اس میں جانبداری پائی جاتی تھی، عمال وحکام کے تحائف واپس کردیتے اور اس سختی سے چشم نمائی کرتے کہ پھر کسی کو جرأت نہ ہوتی،ایک دفعہ حضرت ابو موسی اشعری ؓ نے آپ کی زوجہ عاتکہ بنت زید ؓ کے پاس ہدیۃً ایک نفیس چادر بھیجی،حضرت عمر ؓ نے دیکھا تو ابو موسیٰ اشعری ؓ کوبلاکر کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں،(کنزالعمال ج۶ : ۳۵۰)اسی طرح ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیت المال کا جائزہ لیا تو وہاں صرف ایک درہم موجود تھا، انہوں نے اس خیال سے کہ یہ یہاں کیوں پڑا رہے،اٹھا کر حضرت عمر ؓ کے صاحبزادے کو دیدیا، حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے درہم واپس لے کر بیت المال میں داخل کردیا اورابو موسیٰ اشعری ؓ کو بلاکر فرمایا کہ افسوس تم کو مدینہ میں آل عمر ؓ کے سوا اور کوئی کمزور نظر نہ آیا،تم چاہتے ہو کہ قیامت کے دن تمام امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ میری گردن پر ہو۔ (ایضاً) فتح شام کے بعد قیصر روم سے دوستانہ مراسم ہوگئے تھے اور خط وکتابت رہتی تھی،ایک دفعہ ام کلثوم ؓ(حضرت عمر ؓ کی زوجہ) نے قیصر کی حرم کے پاس تحفہ کے طورپر عطر کی چند شیشیاں بھیجیں، اس نے اس کے جواب میں شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر بھیجا،حضرت عمر ؓ کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ گوعطر تمہارا تھا؛لیکن قاصد جولے کر گیا وہ سرکاری تھا اور اس کے مصارف عام آمدنی سے ادا کئے گئے تھے؛چنانچہ جواہرات لے کر بیت المال میں داخل کردیئے اور ان کو کچھ معاوضہ دے دیا، اسی طرح ایک بازار میں ایک فربہ اونٹ فروخت ہوتے دیکھا،دریافت سے معلوم ہوا کہ آپ کے صاحبزادے عبداللہ ؓ کا ہے، ان سے پوچھا کہ یہ اونٹ کیسا ہے؟انہوں نے کہا میں نے اس کو خرید کر سرکاری چراگاہ مین بھیج دیا تھا اور اب کچھ فربہ ہوگیا ہے تو بیچنا چاہتا ہوں،حضرت عمر ؓ نے فرمایا چونکہ یہ سرکاری چراگاہ میں فربہ ہوا ہے اس لئے تم صرف راس المال کے مستحق ہو،اوربقیہ قیمت لے کر بیت المال میں داخل کردی، (ایضاً : ۳۵۷) خلافت سے پہلے آپ تجارت کرتے تھے، بیت المال سے وظیفہ مقرر ہونے سے بیشتر تک کچھ دنوں زمانہ خلافت میں بھی یہ مشغلہ جاری تھا،ایک دفعہ شام کی طرف مال بھیجنا چاہا، روپیہ کی ضرورت ہوئی تو حضرت عبدالرحمن بن عوف سے قرض طلب کیا،انہوں نے کہا،آپ امیر المومنین ہیں، بیت المال سے اس قدر رقم قرض لے سکتے ہیں، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ بیت المال سے نہیں لوں گا، کیونکہ اگر ادا کرنے سے پہلے مرجاؤں گا تو تم لوگ میرے ورثاءسے مطالبہ نہ کروگے اور یہ بارمیرے سررہ جائے گا، اس لئے چاہتا ہوں کہ کسی ایسے شخص سے لوں جو میرے متروکہ سے وصول کرنے پر مجبور ہو۔ (طبقات ابن سعد جلد ثالث ،قسم اول : ۱۹۹) ایک دفعہ بیمار ہوئے طبیبوں نے شہد تجویز کیا ،بیت المال میں شہد موجود تھا؛ لیکن قلب متقی بغیر مسلمانوں کی اجازت کے لینے پر راضی نہ تھا؛چنانچہ اسی حالت میں مسجد میں تشریف لائے اور مسلمانوں کو جمع کر کے اجازت طلب کی،جب لوگوں نے اجازت دے دی تو استعمال فرمایا، (ایضاً : ۱۹۸) بحرین سے مال غنیمت میں مشک وعنبر آیا اس کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے لئے کسی ایسے شخص کی تلاش ہوئی جس کو عطریات کے وزن میں دستگاہ ہو،حضرت عمر ؓ کی بیوی عاتکہ بنت زید ؓ نے کہا میں اس کام کو کرسکتی ہوں، حضرت عمرؓ نے کہا تم سے یہ کام نہیں لوں گا،کیونکہ مجھے خوف ہے کہ تمہاری انگلیوں میں جو کچھ لگ جائیگا اسے اپنے جسم پر لگاؤ گی اور اس طرح عام مسلمانوں سے زیادہ میرے حصہ میں آجائے گا۔ (کنزالعمال ج۶ : ۳۵۰) ابو موسیٰ اشعری ؓ نے عراق سے زیورات بھیجے، اس وقت آپ کی گود میں آپ کی سب سے محبوب یتیم بھتیجی اسماء بنت زید ؓ کھیل رہی تھی، اس نے ایک انگوٹھی ہاتھ میں لے لی،حضرت عمر ؓ نے بلطائف الحیل اس سے لے کر زیورات میں ملادی اورلوگوں سے کہا کہ اس لڑکی کو میرے پاس سے لے جاؤ،اسی طرح عبداللہ بن ارقم نے معرکۂ جلولا کے بعد زیورات بھیجے تو آپ کے ایک صاحبزادے نے ایک انگوٹھی کی درخواست کی، حضرت عمر ؓ اس سوال پر خفا ہوئے اور کچھ نہ دیا۔ (ایضاً) ایک دفعہ حضرت حفصہ ؓ یہ سن کر کہ مال غنیمت آیا ہوا ہے،حضرت عمر ؓ کے پاس آئیں اورکہا امیر المومنین! اس میں میراحق مجھ کو عنایت کیجئے، میں ذوالقربی میں سے ہوں، حضرت عمر ؓ نے کہانور نظر تیرا حق میرے خاص مال میں ہے،یہ تو غنیمت کا مال ہے، افسوس ہے کہ تونے اپنے باپ کو دھوکہ دینا چاہا، وہ بیچاری خفیف ہوکر چلی گئیں۔ حضرت عمر ؓ کی تمنا تھی کہ اپنے محبوب آقا حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون ہوں،حضرت عائشہ ؓ نے اجازت دیدی تھی،مگر خیال یہ تھا کہ شاید خلافت کے رعب نے انہیں مجبور کیاہو، اس لئے اپنےصاحبزادےکو وصیت فرمائی کہ مرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اجازت لی جائے، اگر اذن ہو توخیر ورنہ عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا،اس طرح وفات کے بعد بھی فاروق اعظم ؓ نے ورع وتقویٰ کا بدیع المثال نمونہ پیش کیا، ؓ۔ تواضع حضرت عمر ؓ کی عظمت وشان اوررعب وداب کا ایک طرف تو یہ حال تھا کہ محض نام سے قیصر وکسریٰ کے ایوان حکومت میں لرزہ پیدا ہوجاتا تھا، دوسری طرف تواضع اورخاکساری کا یہ عالم تھا کہ کاندھے پر مشک رکھ کر بیوہ عورتوں کے لئے پانی بھرتے تھے،مجاہدین کی بیویوں کا بازار سے سودا سلف خرید کر لادیتے تھے،پھر اس حالت میں تھک کر مسجد کے گوشہ میں فرش خاک پرلیٹ جاتے تھے۔ ایک دفعہ اپنے ایام خلافت میں سرپرچادرڈال کر باہر نکلے،ایک غلام کو گدھے پر سوار جاتے دیکھا چونکہ تھک گئے تھے اس لئے اپنے ساتھ بٹھا لینے کی درخواست کی،اس کے لئے اس سے زیادہ کیا شرف ہوسکتا ہے ،فوراً اتر پڑا اورسواری کے لئے اپنا گدھا پیش کیا،حضرت عمر ؓ نے کہا اپنی وجہ سے تمہیں تکلیف نہیں دے سکتا تم جس طرح سوار تھے سوار رہو میں تمہارے پیچھے بیٹھ لوں گا، غرض اسی حالت میں مدینہ کی گلیوں میں داخل ہوئے ،لوگ امیرالمومنین کو ایک غلام کے پیچھے دیکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے۔ ( بخاری کتاب المناقب باب فقہ البیعہ) آپ کو بارہا سفر کا اتفاق ہوا ؛لیکن خیمہ وخرگاہ کبھی ساتھ نہیں رہا، درخت کا سایہ شامیانہ اورفرش خاک بستر تھا، سفر شام کے موقع پر مسلمانوں نے اس خیال سے کہ عیسائی امیر المومنین کے معمولی لباس اوربے سروسامانی کو دیکھ کر اپنے دل میں کیا کہیں گے؟ سواری کے لئے ترکی گھوڑا اور پہننے کے لئے قیمتی لباس پیش کیا، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ خدانے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لئے یہی بس ہے۔ ایک دن صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے،ایک شخص نے کہا امیر المومنین!یہ کام کسی غلام سے لیا ہوتا ؟ بولے مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہوسکتا ہے؟ جو شخص مسلمانوں کاوالی ہے وہ ان کا غلام بھی ہے۔ (کنزالعمال ج ۶ : ۳۵۳) تشددوترحم حضرت عمر ؓ کی تندمزاجی کے افسانے نہایت کثرت سے مشہورہیں اور ایک حد تک وہ صحیح بھی ہیں؛لیکن یہ قیاس صحیح نہیں ہے کہ قدرت نے ان کو لطف اور رحمدلی سے ناآشنا رکھاتھا، اصل یہ ہے کہ ان کا غیض وغضب بھی خدا کے لئے تھا اور لطف ورحم بھی اسی کے لئے،جیسا کہ ایک موقع پر خود ارشاد فرمایا تھا: والله لقد لان قلبي في الله حتى لهو ألين من الزبد ولقد اشتد قلبي في الله حتى لهو أشد من الحجر."واللہ!میرادل خدا کے بارے میں نرم ہوتا ہے تو جھاگ سے بھی نرم ہوجاتا ہےاور سخت ہوتا ہے تو پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔" (کنزل العمال،جز۱۲،حدیث نمبر:۳۵۸۱۱) مثال کے طورپر چند واقعات درج ذیل ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ حضرت عمرؓ کا غصہ اور لطف ورحم محض خدا کے لئے تھا،ذاتیات کو مطلقاً دخل نہ تھا۔ غزوۂ بدر میں کافروں نے بنوہاشم کو مسلمانوں سے لڑنے پر مجبور کیا تھا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ عباس ؓ کہیں نظر آئیں تو ان کو قتل نہ کرنا، ابو حذیفہ ؓ کی زبان سے نکل گیا کہ بنوہاشم میں کیا خصوصیت ہے؟ اگر عباس ؓ سے مقابلہ ہوگیا تو ضرور مزہ چکھاؤں گا،حضرت عمر ؓ یہ گستاخی دیکھ کر آپے سے باہر ہوگئے اور کہااجازت دیجئے کہ میں اس کا سراُڑادوں۔ (ابن سعد قسم اول جزو۴۱ تذکرہ عباس ؓ : ۴) حضرت حاتم بن ابی بلتعہ ؓ بڑے رتبہ کے صحابی تھے، یہ خود ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تھے؛لیکن ان کے اہل وعیال مکہ میں تھے،جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کا قصد فرمایا تو حاطب ؓ نے اپنے اہل وعیال کی حفاظت کے خیال سے اپنے بعض مشرک دوستوں کو اس کی اطلاع دیدی،حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو برافروختہ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اجازت دیجئے کہ اس کو قتل کردوں۔ ( بخاری ،کتاب المغازی، باب غزوہ فتح ومابعث بہ حاطب ؓ ابی بلقہ) اسی طرح خویصرہ نے ایک دفعہ گستاخانہ کہا"محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)عدل کر"حضرت عمر ؓ غصے سے بےتاب ہوگئے اور اس کو قتل کردینا چاہا؛لیکن رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا۔ غرض اسی قسم کے متعدد واقعات ہیں جن سے اگر تم مزاج کی سختی کا اندازہ کرسکتے ہو تو دوسری طرف للہیت کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا۔ ایام خلافت میں جو سختیاں ظاہو ہوئیں وہ اصولِ سیاست کے لحاظ سے نہایت ضروری تھیں، حضرت خالد بن ولید ؓ کی معزولی، حکام سے سختی کے ساتھ بازپرس، مذہبی پابندی کے لئے تنبیہ وتعزیر اور اسی قسم کے تمام امور حضرت عمر ؓ کے فرائض منصبی میں داخل تھے، اس لئے انہوں نے جو کچھ کیا وہ منصب خلافت کی حیثیت سے ان پر واجب تھا، ورنہ ان کا دل لطف ومحبت کے شریفانہ جذبات سے خالی نہ تھا ؛بلکہ وہ جس قدر مذہبی اورانتظامی معاملات میں سختی اورتشدد کرتے تھے، ہمدردی کے موقعوں پر اس سے زیادہ لطف ورحم کا برتاؤ کرتے تھے، خدا کی ذی عقل مخلوق میں غلاموں سے زیادہ قابل رحم حالت کسی کی نہیں ہوگی،حضرت عمرؓ نے عنان خلافت ہاتھ میں لینے کے ساتھ تمام عربی غلاموں کو آزاد کرادیا،(یعقوبی ج۲ : ۱۵۸) اوریہ قانون بنادیا کہ اہل عرب کبھی کسی کے غلام نہیں ہوسکتے،کنزالعمال میں بہ تصریح ان کا قول مذکور ہے کہ "لا تسترق عربی" یعنی عربی غلام نہیں ہوسکتے ،عام غلاموں کا آزاد کرانا بہت مشکل تھا تاہم ان کے حق میں بہت سی مراعات قائم کیں،مجاہدین کی تنخواہیں مقرر ہوئیں تو آقا کے ساتھ اسی قدران کے غلام کی تنخواہ مقرر ہوئی،(فتوح البلدان ذکر العطاء فی خلافت عمر بن الخطاب ؓ)اکثر غلاموں کو بلاکر ساتھ کھانا کھلاتے ،ایک شخص نے دعوت کی تومحض اس وجہ سے برافروختہ ہوکر آٹھ گئے کہ اس نے دسترخوان پر اپنے غلام کو نہیں بٹھایا تھا،آپ اکثر حاضرین کو سنا کر کہتے تھے کہ جو لوگ غلاموں کو اپنے ساتھ کھانا کھلانا عار سمجھتے ہیں،خداان پر لعنت بھیجتا ہے غلاموں کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ وہ اپنے عزیز واقارب سے جدا ہوجاتے تھے،حضرت عمر ؓ نے حکم دیا کہ کوئی غلام اپنے اعزہ سے جدانہ کیاجائے۔ (کنز العمال ج ۲ : ۲۴۶) ۱۸ھ میں جب عرب میں قحط پڑا اس وقت حضرت عمر ؓ کی بےقراری قابل دید تھی، دور دراز ممالک سے غلہ منگواکر تقسیم کیا، گوشت گھی اور دوسری مرغوب غذائیں ترک کردیں،اپنے لڑکے کے ہاتھ میں خربوزہ دیکھ کر خفا ہوئے کہ قوم فاقہ مست ہے اورتو تفکہات سے لطف اٹھاتا ہے، غرض !جب تک قحط رہا،حضرت عمر ؓ نے ہر قسم کے عیش و لطف سے اجتناب رکھا۔ (ایضاً ج ۶ وقائع الرمادہ : ۳۴۳) عراق عجم کے معرکہ میں نعمان بن مقرن اوردوسرے بہت سے مسلمان شہید ہوئے،حضرت عمر ؓ پر ان کی شہادت کا اتنا اثر تھا کہ زار وقطار روتے تھے، مال غنیمت آیا تو غصہ سے واپس کردیا کہ مجاہدین اورشہداء کے ورثا میں تقسیم کردیا جائے۔ تم نے انتظامات کے سلسلہ میں پڑھا ہوگا کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد میں ہر جگہ لنگر خانے، مسافر خانے اوریتیم خانے بنوائے تھے،غرباء مساکین اورمجبورولاچار آدمیوں کے روز ینے مقرر کردیئے تھے، کیا یہ تمام امور لطف وترحم کے دائرہ سے باہر ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے ذمیوں اور کافروں کے ساتھ جس رحمدلی اور لطف کا سلوک کیا آج مسلمان،مسلمان سے نہیں کرتے،زندگی کے آخری لمحے تک ذمیوں کا خیال رہا، وفات کے وقت وصیت میں ذمیوں کے حقوق پر خاص زوردیا۔ (بخاری ،کتاب المناقب باب قصہ البعہ والا تفاق علیؓ، عثمانؓ) عفو اس لطف وترحم کی بناپر حضرت عمر ؓ عفواوردرگزر سے بھی کام لیتے تھے، ایک دفعہ حر بن قیس اورعینیہ بن حصن حاضر خدمت ہوئے، عینیہ نے کہا آپ انصاف سے حکومت نہیں کرتے ،حضرت عمر ؓ اس گستاخی پر بہت غضبناک ہوئے،حربن قیس نے کہا امیر المومنین! قرآن مجید میں آیا ہے"خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِين (الاعراف:۱۹۹)" یہ شخص جاہل ہے اس کی بات کاخیال نہ کیجئے، اس گفتگو سے حضرت عمر ؓ کا غصہ بالکل ٹھنڈا پڑگیا۔ (کنز العمال ج۶ : ۳۵۴) رفاہِ عام حضرت عمر ؓ نے فریضۂ خلافت کی حیثیت سے رفاہ عام اور بنی نوع انسان کی بہبودی کے جو کام کئے اس کی تفصیل گزرچکی ہے،ذاتی حیثیت سے بھی ان کا ہرلمحہ خلق اللہ کی نفع رسانی کے لئے وقف تھا، ان کا معمول تھا کہ مجاہدین کے گھروں پر جاتے اور عورتوں سے پوچھ کر بازار سے سودا سلف لادیتے تھے،مقام جنگ سے قاصد آتا تو اہل فوج کے خطوط ان کے گھروں میں پہنچاآتے اور جس گھر میں کوئی لکھا پڑھا نہ ہوتا خود ہی چوکھٹ پر بیٹھ جاتے اور گھر والے جو کچھ لکھا تے لکھ دیتے،راتوں کو عموماً گشت کرتے کہ عام آبادی کا حال معلوم ہو، ایک دفعہ گشت کرتے ہوئے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام حرار پہنچے، دیکھا کہ ایک عورت پکاررہی ہے اور دوتین بچے رورہے ہیں ،پاس جاکر حقیقت حال دریافت کی،عورت نے کہا بچےبھوک سے تڑپ رہے ہیں،میں نے ان کے بہلانے کو خالی ہانڈی چڑھا دی ہے،حضرت عمر ؓ اسی وقت مدینہ آئے اور آٹا،گھی، گوشت اورکھجوریں لے چلے،حضرت عمر ؓ کے غلام اسلم نے کہا میں لئے چلتا ہوں،فرمایا،ہاں قیامت میں تم میرا بار نہیں اٹھاؤ گے اور خود ہی سب سامان لے کر عورت کے پاس گئے ، ا س نے پکانے کا انتظام کیا،حضرت عمرؓ دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ (کنزالعمال ج ۶ : ۳۵۲) ایک دفعہ کچھ لوگ شہر کے باہر اترے، حضرت عمر ؓ نے عبدالرحمن بن عوف ؓ کو ساتھ لیا اور کہا مجھ کو ان کے متعلق مدینہ کے چوروں کا ڈرلگاہوا ہے، چلو ہم دونوں چل کر پہرہ دیں؛چنانچہ دونوں آدمی رات بھر پہرہ دیتے رہے۔ (طبری : ۲۷۴۳) ایک دفعہ رات کو گشت کررہے تھے کہ ایک بدو کے خیمہ سے رونے کی آواز آئی ،دریافت سے معلو ہوا کہ بدو کی عورت دردزہ میں مبتلا ہے،حضرت عمرؓ گھر آئے اور اپنی بیوی ام کلثوم ؓ کو ساتھ لیکر بدو کے خیمہ گئے ،تھوڑی دیر کے بعد بچہ پیدا ہوا،ام کلثوم ؓ نے پکار کر کہا اے امیر المومنین !اپنے دوست کو مبارکباددیجئے، بدوامیر المومنین کا لفظ سن کو چونک پڑا،حضرت عمرؓ نے کہا کچھ خیال نہ کرو، کل میرے پاس آنا،بچہ کی تنخواہ مقرر کردوں گا۔ (کنزالعمال ج ۶ : ۳۴۳) حضرت عمر ؓ اپنی غیر معمولی مصروفیات میں سے بھی مجبور،بیکس اوراپاہج آدمیوں کی خدمت گزاری کے لئے وقت نکال لیتے تھے،مدینہ سے اکثر نابینا اورضعیف اشخاص فاروق اعظم ؓ کی خدمت گزاری کے ممنون تھے،خلوص کا یہ عالم تھا کہ خود ان لوگوں کو خبر بھی نہ تھی کہ یہ فرشتہ رحمت کون ہے؟ حضرت طلحہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک روز علی الصبح امیر المومنین کو ایک جھونپڑے میں جاتے دیکھا،خیال ہوا کہ فاروق اعظم کا کیا کام ؟دریافت سے معلوم ہوا کہ اس میں ایک نابینا ضعیفہ رہتی ہے اور وہ روز اس کی خبر گیری کے لئے جایا کرتے ہیں۔ خدا کی راہ میں دینا حضرت عمر ؓ بہت زیادہ دولتمند نہ تھے ،تاہم انہوں نے جو کچھ خدا کی راہ میں صرف کیا وہ ان کی حیثیت سے بہت زیادہ تھا،۹ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کی تیاری کی تواکثر صحابہ نے ضروریات جنگ کے لئے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں، حضرت عمر ؓ نے اس موقع پر اپنے مال واسباب میں سے آدھا لے کر پیش کیا۔ (ترمذی ،فضائل عمر ؓ) یہود بنی حارثہ سے آپ کو ایک زمین ملی تھی اس کوخداکی راہ میں وقف کردیا اسی طریقہ سے خیبر میں ایک بہترین سیر حاصل قطعۂ اراضی ملا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے ایک قطعہ زمین ملا ہے جس سے بہتر میرے پاس کوئی جائداد نہیں ہے، آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وقف کردو؛چنانچہ حسب ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فقراء اعزہ ،مسافر،غلام اورجہاد کے لئے وقف کردیا۔ (ابوداؤد کتاب الوصایاباب ماجاء فی الرجل یوقف وقف) ایک دفعہ ایک اعرابی نے نہایت رقت انگیز اشعار سنائے اور دست سوال دراز کیا،حضرت عمرؓ متاثر ہوکر بہت روئے اورکرتہ اتارکردے دیا۔ مساوات کا خیال عہد فاروقی میں شاہ گدا،امیروغریب،مفلس ومالدار سب ایک حال میں نظر آتے تھے،عمال کو تاکیدی حکم تھا کہ کسی طرح کا امتیاز ونموداختیار نہ کریں،حضرت عمر ؓ نے خود ذاتی حیثیت سے بھی مساوات اپنا خاص شعار بنایاتھا،یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی معاشرت نہایت سادہ رکھی تھی،تعظیم وتکریم کو دل سے ناپسند کرتے تھے،ایک دفعہ کسی نے کہا،میں آپ پر قربان فرمایا ایسا نہ کہو،اس سے تمہار نفس ذلیل ہوجائے گا، اسی طرح زید بن ثابت ؓ قاضی مدینہ کی عدالت میں مدعا علیہ کی حیثیت سے گئے تو انہوں نے تعظیم کے لئے جگہ خالی کردی،حضرت عمر ؓ نے کہا تم نے اس مقدمہ میں یہ پہلی ناانصافی کی،یہ کہہ کر اپنے فریق کے برابر بیٹھ گئے۔ ( کنزالعمال ج۳ : ۱۷۴) آپ کا مقولہ تھا کہ میں اگر عیش وتنعم کی زندگی بسر کروں اورلوگ مصیبت وافلاس میں رہیں تو مجھ سے براکوئی نہ ہوگا، سفر شام میں نفیس ولذیز کھانے پیش کئے گئے تو پوچھا کہ تمام مسلمانوں کو بھی یہ ایوان نعمت میسر ہیں؟ لوگوں نے کہا ہر شخص کے لئے کس طرح ممکن ہے؟فرمایا،توپھر مجھے بھی اس کی حاجت نہیں۔ خلافت کی حیثیت سے فاروق اعظم ؓ کے جاہ وجلال کا سکہ تمام دنیا پر بیٹھا ہوا تھا ؛لیکن مساوات کا یہ عالم تھا کہ قیصروکسریٰ کے سفراء آتے تھے تو انہیں یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ شاہ کون ہے؟درحقیقت حضرت عمرؓ نے خود نمونہ بن کر مسلمانوں کو مساوات کا ایسا درس دیا تھا کہ حاکم ومحکوم،اورآقا وغلام کے سارے امتیازات اُٹھ گئے تھے۔ غیرت حضرت عمرؓ بالطبع غیور واقع ہوئے تھے،یہاں تک کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی غیرت کا پاس ولحاظ کرتے تھے،صحیح مسلم، ترمذی اورصحاح کی تقریبا سب کتابوں میں باختلاف الفاظ مروی ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےجنت میں ایک عالیشان طلائی قصر ملاحظہ فرمایا جو فاروق اعظم ؓ کے لئے مخصوص تھا اس کے اندر صرف اس وجہ سے تشریف نہیں لے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی غیر ت کا حال معلوم تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ سے اس کا ذکر فرمایا تو وہ روکر کہنے لگے" أَعَلَيْكَ أَغَارُ يَا رَسُولَ اللَّهِ" (کیا میں آپ کے مقابلہ میں غیرت کروں گا یا رسول اللہﷺ۔ (بخاری مناقب عمر ؓ) آیت حجاب نازل ہونے سے پہلے عرب میں پردہ کا رواج نہ تھا یہاں تک کہ خود ازواج مطہرات ؓ پردہ نہیں کرتی تھیں،حضرت عمرؓ کی غیرت اس بے حجابی کو نہایت ناپسند کرتی تھی، باربار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتجی ہوئے کہ آپ ازواجِ مطہرات ؓ کو پردہ کا حکم دیں اس خواہش کے بعد ہی آیت حجاب نازل ہوئی۔ آپ کی غیرت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ جب آپ کو خبر ملی مسلمان عورتیں حماموں میں عیسائی عورتوں کے سامنے بے پردہ نہاتی ہیں تو تحریری حکم جاری کیا کہ مسلمان عورت کا غیر مذہب والی عورت کے سامنے بے پردہ ہونا جائز نہیں۔