انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مسلم اورابن زیاد اس وصیت کے بعد مسلم دوباہ پھر ابن زیاد کے سامنے لائے گئے اوران دونوں میں یہ مکالمہ ہوا: ابن زیاد:لوگ آپس میں متحد و متفق تھے،تم ان میں تفرقہ اوراختلاف ڈلوانے اورآپس میں لڑانے کے لئے آئے؟ مسلم:یہ خلاف واقعہ ہے ،میں ہرگز اس مقصد کے لئے نہیں آیا؛بلکہ کوفہ والوں کا خیال تھا کہ تمہارے باپ نے ان کے بزرگوں اورنیک لوگوں کو قتل کیا، ان کا خون بہایا اور اسلامی خلافت کو چھوڑ کر قیصر وکسریٰ کا ساطرز عمل اختیار کیا، اس لئے ہم یہاں قیام عدل اورکتاب اللہ کے احکام کی دعوت دینے کے لئے آئے۔ ابن زیاد: یہ چوٹیں سن کر غضبناک ہوگیا تھا بولا فاسق تیرے منہ پر یہ دعویٰ زیب نہیں دیتا کیا تو جب مدینہ میں بادہ نوشی کرتا تھا، اس وقت ہم یہاں عدل وکتاب اللہ پر عمل کی دعوت نہیں دیتے تھے؟ مسلم: میں شراب پیتا تھا؟ خدا کی قسم وہ خوب جانتا ہے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے اور بغیر علم کے اتہام لگاتا ہے جیسا تو نے بیان کیا میں ویسا نہیں ہوں مجھ سے زیادہ شراب نوشی کا وہ مستحق ہے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہیں جو خدا کی حرام کی ہوئی جانوں کولیتا ہے اوربغیر قصاص کے لوگوں کو قتل کرتا ہے،حرام خون بہاتا ہے محض ذاتی عداوت ،غصہ اورسوئے ظن پر لوگوں کی جان لیتا ہے اورپھر ان ستم آرائیوں پر اس طرح لہو ولعب میں مشغول ہے گویا اس نے کچھ کیا ہی نہیں۔ ابن زیاد: فاسق تیرے نفس نے تجھے ایسی چیز کی تمنا دلائی جس کا خدانے تجھے اہل نہ سمجھا ،اسی لئے تیری آروزو پوری نہ ہونے دی۔ مسلم:پھر اس کا کون اہل تھا؟ ابن زیاد: امیر المومنین یزید! مسلم: ہر حال میں خدا کا شکر ہے ،وہ ہمارے اور تمہارے درمیان جو فیصلہ چاہے کردے ۔ ابن زیاد:معلوم ہوتا ہے تم خلافت کو اپنا حق سمجھتے ہو؟ مسلم:خیال ہی نہیں ؛بلکہ اس کا یقین ہے۔ ابن زیاد :اگر میں تم کو اس بری طرح قتل نہ کروں کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہ ملے تو خدا مجھے قتل کرے۔ مسلم:بیشک اسلام میں تم کو ایسی نئی مثالوں کے قائم کرنے اورنئی بدعات کے جاری کرنے کا حق ہے جو اس میں نہیں ہیں تم کوخدا کی قسم !تم برے طریقہ سے قتل کرنا، برے طریقہ سے مثل کرنا، اورخبث سیرت کسی ایک برائی کو بھی نہ چھوڑو ان برائیوں کا تم سے زیادہ کوئی مستحق نہیں ہے۔ یہ دندان شکن جواب سن کر ابن زیاد بالکل بے قابو ہوگیا اور مسلمؓ، حسینؓ، علیؓ اورعقیلؓ پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی، گالیاں برسانے کے بعد مسلمؓ کو پانی پلوا کر جلادوں کو حکم دیا کہ انہیں محل کی بالائی منزل پر لے جاکر قتل کردو اور قتل کرنے کے بعد ان کا دھڑ نیچے پھینک دو ،مسلم نے اس قتل بے گناہی کے خلاف پھر ایک بار احتجاج کیا؛ لیکن کون سننے والا تھا،آخر میں ابن زیاد نے یہ خدمت اس شخص کے سپرد کی جس کو مسلم نے زخمی کیا تھا تاکہ وہ انتقامی جذبہ کے ساتھ انہیں قتل کرے؛چنانچہ یہ شخص مسلم کو مقتل کی طرف لے چلا، اس وقت مسلمؓ کی زبان پر تکبیر ،استغفار اورملائکہ اوررُسل پردرود سلام جاری تھا اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدایا میرے اوران لوگوں کے درمیان تو ہی فیصلہ کر جنہوں نے ہم کو دھوکا دیا جھٹلایا اورذلیل کیا ،جلاد نے مقامِ قتل پر لیجا کر گردن ماردی اورسرکے ساتھ دھڑ بھی نیچے پھینک دیا، اس درد ناک طریقہ پر حضرت حسینؓ کا ایک نہایت قوی بازو ٹوٹ گیا۔ (طبری:۷/۲۶۵،۲۶۷)