انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرات اولیاء حضرت سیّدنا عبدالقادر جیلانیؒ (۱)آپ سے دنیاکے بارے میں پوچھا گیا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ دل سے نکال کر ہاتھ میں لاؤ تو تمہارے لئے ضرر رساں نہیں ہے ( معلوم ہوا کہ ہر شئ کا ایک محل و موضع ہے اسی میں اس کو رکھنا صلاح و اصلاح ہے اور غیر محل میں اس کی وضع فساد و افساد ہے )۔ (۲)مخلوق تمہارے نفس کے درمیان حجاب ہے ، اور تمہارا نفس تمہارے رب کے درمیان حجاب ہے جب تک مخلوق پر نظر رہے گی اپنے نفس کی معرفت تمہیں حاصل نہ ہوگی ، اور جب تک تمہیں اپنے نفس کی معرفت حاصل نہ ہوگی اپنے رب کی معرفت نصیب نہ ہوگی ۔ (۳)اپنے اصحاب سے فرماتے تھے کہ قرآن و سنت کی اتباع کرو بدعت سے اجتناب کرو ، اطاعت کرو مخالفت نہ کرو ، صبر کرو جزع فزع نہ کرو ، ثابت قدم رہو متزلزل نہ رہو ، امید وار رہو نا امید نہ ہو، ذکر پر جمے رہو اس سے علٰحدگی اختیار نہ کرو ، گناہوں سے پاک و صاف رہو اس میں ملوث نہ ہو ، اور اپنے مولیٰ کے در سے جدا اور الگ نہ رہو ۔ (۴)اپنے نفس سے نکلو اور اس سے جدائی اختیار کرو ، اپنی مِلک سے الگ ہوجاؤ اور اپنی جملہ ملکیت کو اپنے مولیٰ کے سپرد کردو ، اپنے قلب کے در کے دربان بن جاؤ پس جس چیز کے داخل کرنے کا حکم دیں اس کو داخل کرو اور جس کو نکال دینے کا حکم فرمائیں اس کو نکال دو ، اور اپنے قلب میں ہوائے نفسانی کو گھسنے نہ دو ، ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ (۵)اللہ تعالیٰ کی شکایت سے اپنے آپ کو بچاؤ جب کہ تم صاحبِ عافیت ہو ، اس لئے کہ اولاد ِ آدم پر اکثر بلائیں اسی شکایت کی بناء پر نازل ہوتی ہیں ۔ (۶)امراض و شدائد کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مطہِّر بنایا ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے قرب و ہمنشینی کے لائق ہوجاؤ ۔ (۷)دوامِ بلاء ولایت ِ کبریٰ والوں کی خاص علامت ہے اور یہ اس لئے تاکہ ان کو ہمیشہ جنابِ باری میں حضوری کا شرف حاصل رہے اور غیر اللہ کی طرف قطعاً میلان باقی نہ رہے ، چنانچہ جب بندے پر بلاء و مصیبت دائم ہوجاتی ہے تو اس کا قلب قوی ہوجاتا ہے اور اس کی ہوائے نفسانی کمزور پڑجاتی ہے ۔ (۸)سزا کے طور پر ابتلاء کی علامت یہ ہے کہ مبتلاء جزع فزع اور مخلوق سے شکوہ شکایت کرتا ہے ، اور گناہوں کے کفارہ کے لئے جو آزمائش ہوتی ہے اس کی علامت یہ ہے کہ صاحبِ ابتلاء جزع فزع نہیں کرتا اور امتثالِ اوامر اور طاعات کی بجا آوری میں بار محسوس نہیں کرتا ، اور ارتفاعِ درجات کے لئے آزمائش میں رضا ، موافقت ، نفس کی طمانینت ، اور قضا و قدر سے سکون و اطمینان والی حالت سے بہرہ ور ہوتا ہے ۔ (۹)میں نے تمام اعمال کا جائزہ لیا تو مجھ کو کھانا کھلانا سب سے افضل معلوم ہوا ، اس لئے میں تمنا کرتا ہوں کہ پوری دنیامیرے قبضہ میں آجائے اور میں اسے بھوکوں کو کھلادوں ۔