انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت شریک بن عبداللہ النخعیؒ نام ونسب شریک نام اور ابو عبداللہ کنیت تھی،نسب نامہ یہ ہے،شریک بن عبداللہ بن ابی شریک حارث بن اوس بن الحارث بن الاذہل بن وہیل بن سعدبن مالک بن النخع بن جسر بن عمرو بن علہ بن خالد بن مالک اود بن زید بن یشجب بن عریب بن زید بن کہلان (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۳،وابن خلکان :۱/۴و ۴۰۲ والباب:۳/۱۱۶)یمن کے قبیلہ بنو مدح کی ایک بڑی شاخ بنو النخع سے نسبی تعلق رکھنے کے باعث نخعی کہلاتے ہیں۔ ولادت وطن اورخاندان ان کی ولادت خراسان کے مشہور مردم خیز شہر بخارا میں ۹۵ھ میں ہوئی،بنو النخع طلوع اسلام کے بعد یمن سے نقل مکانی کرکے کوفہ میں آباد ہوگئے تھے،اس لیے قاضی شریک بھی تاحیات کوفہ ہی میں سکونت اختیار کیے رہے،یہاں تک کہ نسبانخعی کے ساتھ،وطناً وہ کوفی ہی کی نسبت سے مشہور ہوئے،ان کا خاندان علم وفضل کے اعتبار سے نہایت بلند وممتاز مقام رکھتا ہے،امام ابراہیم نخعی جیسے جلیل القدر تابعی اسی گلستان فضل ودانش کے ایک گل سر سبد تھے،قاضی شریک کےجدا مجد حارث بن اوس نے جنگ قادسیہ میں شریک ہوکر دادِ شجاعت دی تھی۔ (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۳) علوئے مرتبت قاضی شریک کو فضل وکمال خاندانی ورثہ میں ملا تھا، فقہ وحدیث میں ان کی مہارت مسلم تھی،علاوہ فہم و دانش ،ذہانت وفطانت سے بھی بہر ہ وافر پایا تھا،سلاطین وقت ان کے اکرام وتعظیم میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتے تھے ، علمائے حدیث کی مرویات کا ان سے بڑا واقف کار اس وقت کوئی نہ تھا۔ (میزان الاعتدال:۱/۴۴۶) امام احمد کا بیان ہے: کان عاقلا صدوقامحدثا کان شدیداً علیٰ اھل الریب والبدع (ایضاً) وہ عاقل،صدوق اورمحدث تھے ،اہل ریب وبدعت کے بارے میں بہت سخت تھے۔ ابن خلکان نے لکھا ہے وہ عالم،فقیہ،ذی فہم،ذہین اورفطین تھے(ابن خلکان:۱/۴۰۲)علامہ ذہبی نے بھی انہیں کثیر الروایت اوربلند پایہ محدث قرار دیا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۰) عیسیٰ بن یونس بیان کرتے ہیں: مارایت احداً قط اورع فی عملہ من شریک (تہذیب التہذیب:۴/۳۳۵) میں نے علم میں شریک سے زیادہ محتاط کسی کو نہیں دیکھا۔ حدیث حدیث میں ان کی بلندی شان کا اندازہ صرف اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ اسحاق ازرق نے ان سے نو ہزار حدیثوں کا سماع حاصل کیا تھا، ابن مبارک کا یہ قول گذرچکا ہے کہ وہ شیوخ کوفہ کی حدیثوں کے سفیان ثوری سے بھی بڑے عالم تھے۔ (العبر فی خبر من غبر :۱/۲۷۰) فقہ فقہ میں بھی غیر معمولی کمال حاصل تھا اور اسی باعث وہ ایک طویل زمانہ تک واسطہ،اہواز اور کوفہ میں مسندِ عدل وانصاف کی زینت بنے رہے ،علماء نے ان کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے کمال تفقہ کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔ شیوخ قاضی شریک کے اساتذہ وشیوخ کی طویل فہرست میں بلند پایہ تابعین کافی تعداد میں شامل ہیں،جن میں کچھ نمایاں اسمائے گرامی یہ ہیں،ابو اسحاق سبیعی، ہشام بن عروہ،سلیمان بن مہران الاعمش ،عطاء بن السائب،منصور بن ذازان،ابراہیم بن جریر العجلی،اسماعیل بن ابی خالد،راشد بن کیسان،عاصم بن سلیمان الاحول،سماک بن حرب ،عاصم بن بہدلہ، عاصم بن کلیب،عبدالعزیز بن رفیع،مقدام بن شریح۔ تلامذہ ان کے آفتابِ فیض کی شعاؤں سے کسب نور کرنے والوں کا حلقہ بھی اسی نسبت سے بہت وسیع ہے،فن جرح وتعدیل کے مسلم الثبوت امام عبدالرحمن بن مہدی ،حافظ وکیع اورامام یحییٰ بن آدم جیسے فخر زمانہ علماء انہیں کے خرمنِ علم کے خوشہ چین ہیں، ان کے علاوہ مشاہیر امۃ میں فضل بن موسیٰ السینانی،زید بن ہارون،ابو نعیم علی بن حجر،ہشیم بن بشیر اسحاق الازرق،اسود بن عامر شاذان،حسین بن محمد المروزی،اسحاق بن عیسیٰ،حاتم بن اسماعیل،یعقوب بن ابراہیم،قتیبہ بن سعید،عبدالرحمن بن شریک کے نام ان کے تلامذہ میں ملتے ہیں ،سب سے آخری شاگرد عباد بن یعقوب کو بتایا جاتا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۴/۳۳۳،۳۴۰) پایہ ثقاہت ماہرینِ فن کی ایک کثیر تعداد ان کی عدالت وثقاہت کی معترف ہے علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں۔ کان ثقۃ مامون کثیر الحدیث (طبقات بن سعد:۶/۲۶۴) وہ ثقہ،مامون اورکثیر الحدیث ہیں۔ عجلی اعتراف کرتے ہیں: کوفی ثقۃ وکان حسن الحدیث وکان اودی الناس عنہ اسحاق الازرق (تہذیب التہذیب:۴/۳۳۵) وہ کوفی،ثقہ اورحسن الحدیث تھے ان سے سب سے زیادہ روایتیں اسحاق الازرق نے کی ہیں۔ ابو حاتم اورامام نسائی نے بھی ان کی روایات کو قابلِ قبول قراردیا ہے (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۷۰ ،ومیزان الاعتدال:۱/۴۴۵) ابن حبان نے بھی کتاب الثقات میں ان کا ذکر کیا ہے،مزید برآں ان کی ثقاہت کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ امام بخاریؒ نے انہیں لائق حجت قرار دیا اورامام مسلم نے ان کی روایات کی تخریج کی ہے۔ (شذرات الذہب :۱/۲۸۷) تثبت واتقان اسی طرح وہ تثبت واتقان میں بھی بلند پایہ تھے،امام احمد فرماتے ہیں:کہ شریک نے ابو اسحاق سبیعی سے "قدیم"سماع حاصل کیا تھا،جس کا مستند ہونا شک وشبہ سے بالا تر ہے،اسی وجہ سے شریک کا مرتبہ مرویات سبیعی کے باب میں زہیر بن معاویہ،اسرائیل بن یونس اورزکریا بن ابی زائدہ سے بھی بلند تر ہے (تہذیب التہذیب :۴/۳۲۴)علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ قاضی شریک اتقان وتثبت میں حماد بن زید کے ہم پلہ تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۰) عہدہ قضا فقہ وافتا میں ان کے کمال وتبحر کے باعث مختلف سلاطین نے انہیں قضا کے عہدہ جلیلہ پر فائز کیا، سب سے پہلے منصور نے ۱۵۳ھ میں انہیں کوفہ کا قاضی مقرر کیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعدمعزول کردیا،اس کے بعد جب مہدی اورنگ خلافت پر رونق افروز ہوا تو اس نے قاضی شریک کو دوبارہ اس منصب پر مامور کیا (الاعلام:۲/۲۱۱)لیکن حافظ ابن حجرؒ نے ابن حبان کی روایت سے نقل کیا ہے کہ شریک ۱۵۵ھ میں واسط کے قاضی مقرر ہوئے اوراس کے بعد کوفہ کے مسندِ قضا پر رونق افروز ہوئے۔(تہذیب التہذیب:۴/۳۳۶)اول الذکر ہی بیان اصح معلوم ہوتا ہے،کیونکہ اس کی تائید دوسرے مآخذوں سے بھی ہوتی ہے،مؤرخ ابن خلکان نے اہواز کے قاضی ہونے کا بھی ذکر کیا ہے۔ (ابن خلکان:۱/۴۰۳) قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ قاضی شریک نے اس آزمائش سے محفوظ رہنے کی حتی الامکان پوری جدوجہد کی،جب بھی حاکمِ وقت نے ان کو بلا کر اس عہدہ کی پیشکش کی، انہوں نے بَر مَلا اس سے اپنے کو نااہل بتا کر معذوری ظاہر کردی؛چنانچہ منصور عباسی نے ان سے کہا "قد ولیتک قضاء الکوفۃ"یعنی میں نے آپ کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا تو فوراً عاجزی سے فرمایا: یا امیر المؤمنین انی انما انظر فی الصلوۃ والصوم فاما القضاء فلا احسنہ اے امیر المومنین میں تو صرف نماز روزہ ہی کے امور سے واقفیت رکھتا ہوں، قضا کی ذمہ داریوں سے بحسن عہدہ برآنہ ہوسکوں گا۔ اسی طرح جب مہدی نے انہیں یہ منصب تفویض کرنے کے لیے بلایا تو فرمایا: لا اصلح لذالک یعنی مجھ میں اس کی صلاحیت نہیں؛ لیکن بالآخر جب حکمرانوں نے جبر وزبردستی کی حد تک اصرار کیا تو وہ بادلِ نخواستہ اس کو قبول کرنے پر تیار ہوئے۔ (اخبار القضاۃ:۳/۱۵۰،۱۸۴،ابن سعد:۶/۲۶۳) عدل پروری قاضی شریک کی کتاب زندگی کا سب سے درخشاں باب ان کا زمانہ قضا کا کردار وعمل ہے وہ اس عظیم آزمائش سے بڑی حسن وخوبی کے ساتھ عہدہ برآہوئے،اس پوری مدت میں عدل پروری،انصاف پسندی اورغیر جانبداری ان کا خاص شیوہ رہا،حافظ ابن کثیر رقمطراز ہیں:‘کان مشکور افی حکمہ وتنفیذ الاحکام’(البدایہ والنہایہ:۱۰/۱۷۱) علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں:"کان عادلا ًفی قضاءِہ" (میزان الاعتدال :۱/۴۲۵) محمد بن خلف وکیع نے عدالتی فیصلے نافذ کرنے میں قاضی شریک کی زیرکی وہوشمندی کے متعدد واقعات نقل کیے ہیں، یہاں خود قاضی صاحب کے بیان کردہ صرف ایک واقعہ کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں جب منصور نے مجھے کوفہ کا قاضی مقرر کیا تو میں وہاں گیا ،والی کوفہ محمد بن سلیمان کا کاتب حماد بن موسیٰ کسی قضیہ میں ماخوذ ہوکر میرے سامنے پیش ہوا، میں نے دلائل وشواہد کی بنیاد پر فیصلہ صادر کرکے جیل بھیج دیا،ایک دن ناگاہ مجھے خبر ملی کہ حاکم نے اسے رہا کردیا ہے میں نے سوچا کہ یہ پہلا موقع ہے،اگر اس بار ہی میں نے کمزوری کا ثبوت دیا تو پھر حالات پر قابو حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ چنانچہ میں فوراً محمد بن سلیمان کے پاس پہنچا اورنہایت درشت لب ولہجہ میں کہا کہ تمہیں تو میرے فیصلوں کے نفاذ میں ممدومعادن بننا چاہئے تھا نہ کہ مخالفت، تم نے قید سے ایک مجرم کو رہا کرکے توہین عدالت کا ارتکاب کیا ہے،بخدا اگر تم نے اسے دوبارہ قید میں نہ پہنچایا تو میں امیر المؤ منین کے سامنے تمہاری حقیقت کی پول کھول کر رکھ دُوں گا،یہ رنگ دیکھ کر حاکم مذکور نے فوراً اپنے کاتب کو قید خانہ میں واپس کردیا۔ (اخبار القضاۃ:۲/۱۵۱) ایک لائق ذکر معمول پورے زمانہ قضا میں ان کا یہ مستقل معمول رہا کہ مجلس عدل منعقد کرنے سے قبل دوپہر کا کھانا تناول فرماتے،پھر ایک کاغذ نکال کر اسے بغور دیکھتے، اس کے بعد مقدمات کی پیشی کا حکم دیتے ان کے بعض احباب کو تجسس پیدا ہوا کہ آخر اس کاغذ میں کیا لکھا ہے، جسے روزانہ اتنی پابندی سے دیکھنے کا معمول ہے؛چنانچہ انہوں نے دیکھا تو اس میں تحریر تھا۔ یا شریک بن عبداللہ اذکر الصراط وحدتہ یاشریک بن عبداللہ اذکرالموقف بین یدی اللہ اذکر الموقف بین یدی اللہ عزوجل (البدایہ والنہایہ:۱۰/۱۵۱) اے شریک بن عبداللہ !پل صراط اوراس کی باریکی کو یاد رکھو،اے شریک اس دن کو یادرکھو،جب تم خداوند قدوس کے روبروکھڑے ہونگے۔ یہ درحقیقت اللہ جل شانہ کے سامنے ایک حلف نامہ تھا تاکہ عدالت کی کاروائی کے ہر ہر موڑ پر اس ذات کبریا کے حاضر وناظر ہونے کا یقین دل کی گہرائی میں جاگزیں رہے اورکہیں لغزش وزیادتی نہ ہونے پائے۔ عبادت نہایت عبادت گزار تھے،محمد بن عیسیٰ عینی شاہد ہیں کہ میں نے قاضی شریک کی پیشانی پر سجدہ کے واضح نشانات دیکھے۔ (تہذیب التہذیب:۴/۳۳۶) عقل وفطانت ان کی فہم ودانش اورذہانت وفطانت کا ایک ثبوت اُوپر مذکور ہوا ،عمار بن زریق کہتے ہیں کہ ایک بار میں امام مغیرہ کی خدمت میں حاضر تھا، اسی اثنا میں سامنے سے قاضی شریک ،سفیان ثوری،حسن بن صالح اورقیس بن الرزیع ساتھ ساتھ آتے نظر آئے، امام مغیرہ نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا: مامن ھولاء احدأ عقل من شریک (اخبار القضاۃ:۳/۱۵۰) ان سب میں شریک سے زیادہ فرزانہ کوئی نہیں ہے۔ بدیہہ گوئی اسی عقل وذہانت کا ثمرہ تھا کہ وہ حاضر جوابی اوربدیہہ گوئی میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے،سفیان بن عیینہ کا بیان ہے کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ حاضر جواب تھے "کان احضر الناس جواباً" منصور بن ابی مزاحم کہتے ہیں کہ میں نے قاضی شریک کی زبان شیوا بیان سے خود فرماتے سُنا "ترک الجواب فی موضعہ اذابۃ القلب" یعنی موقع پر جواب سے چوک جانا دل کی پژ مروگی کی دلیل ہے۔ (تہذیب التہذیب:۴/۳۳۶) بعض اعتراضات اوران کے جوابات ان کے فضل وکمال اورعلم ودانش کا اعتراف کرنے کے ساتھ بعض علماء نے ان پر جرح بھی کی ہے،عام طور سے ان پر دو اعتراضات کئے جاتے ہیں،اول یہ کہ وہ سوئے حافظہ میں مبتلا تھے،جس کے نتیجہ میں روایات میں کبھی تخلیط اورتدلیس واقع ہوجایا کرتی تھی،ابراہیم بن سعید کابیان ہے کہ شریک نے چار سو حدیثوں میں غلطی کی ہے،دارقطنی کہتے ہیں کہ ان کی متفرد روایات قابل قبول نہیں ہیں۔ (میزان الاعتدال:۱/۴۴۵) دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ان میں تشیع تھا اور حضرت علیؓ کو دوسرے خلفائے راشدین وانبیائے کرام سے افضل اورخیرالبشر قرار دیتے تھے؛چنانچہ ابوداؤد الرہاوی روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے قاضی شریک کو خود کہتے سنا کہ: علی خیرالبشر فمن ابی فقدکفر (ایضاً) حضرت علیؓ خیرالبشرتھے،پس جو اس کا انکار کرے،وہ کافرہے۔ لیکن تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ہی اعتراضات یکسر بے بنیاد ہیں،ائمہ سلف کی ایک خاصی تعداد کو اس الزام سے متہم کیا گیا ہے،جس کی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس عہد میں اہل بیت کرام سے عقیدت ومحبت کے غلو کو تشیع کی طرف رجحان سمجھا جاتا تھا۔ مذکورہ بالا الزامات میں سے پہلے کا جواب یہ ہے کہ آخر عمر میں قاضی شریک کاحافظہ کمزور ضرور ہوگیا تھا،اس لیے اس زمانہ کی مرویات کا پایہ اتنا بلند نہیں رہا جتنا اس سے قبل کی روایات کا تھا؛ لیکن یہ ضعف ان کی ساری عمر کی روایات پر اثر انداز نہ ہوگا؛چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اس حقیقت کو بہت واضح طور پر ذکر کیا ہے کہ متقدمین کا سماع بالکل بے داغ ہے، جن متاخرین نے کوفہ کا قاضی ہونے کے بعد ان سے حدیثیں روایت کی ہیں، ان میں وہم واضطراب کا شبہ ہے،اس لیے کہ اس زمانہ میں قاضی شریک کا حافظہ کبر سنی کے باعث درست نہیں رہا تھا،عجلی کا بیان ہے کہ: من سمع منہ قدیما فحدیثہ صحیح ومن سمع منہ بعد ماولی القضاء ففی سماعہ بعض الاختلاط (تہذیب التہذیب:۴/۳۳۶) جس نے ان سے قدیم سماع حاصل کیا اس کی روایات درست ہیں اور جس نے ان کے قاضی ہونے کے بعد سماعت کی اس کی مرویات میں کچھ اختلاط ہے۔ صالح جزرہ کہتے ہیں کہ: صدوق ولما ولی القضا اضطرب حفظہ (ایضاً) یوں تو وہ صدوق ہیں ؛لیکن منصب قضاء پر فائز ہونے کے بعد ان کا حافظہ ٹھیک نہیں رہا۔ اسی طرح ثانی الذکر الزام کی تردید تو ایک سے زائد بار خود قاضی شریک نے کردی تھی، ایک مرتبہ کسی مفسد نے خلیفہ مہدی سے شکایت کردی کہ شریک بن عبداللہ رافضی ہیں،مہدی نے انہیں بلا بھیجا،انہوں نے آکر خلیفہ کو سلام کیا اس نے اپنی ناراضگی کے اظہار کے طور پر جواب سے اعراض کیا،قاضی صاحب نے اس کا سبب دریافت فرمایا تو وہ نہایت خشمگیں لب و لہجہ میں گویا ہوا کہ "تم ملعون رافضی ہو" قاضی صاحب نے نہایت سکون سے جواب دیا کہ اگر رسول اللہ ﷺ ،حضرت فاطمہؓ،حضرت علیؓ،حسنؓ،حسینؓ سے محبت ہی کانام رفض ہے تو میں خدا اورتم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں رافضی ہوں، علاوہ ازیں خلفائے راشدین پر حضرت علیؓ کی تفضیل کا الزام بھی صرف ایک بہتان ہے،قاضی شریک کی زندگی میں ان کے سامنے جب تفضیلیت کا مسئلہ اُٹھایا گیا،ہمیشہ یہی فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓوعمرؓسے حضرت علیؓ کو وہی شخص افضل قرار دے سکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو،یہ دونوں شیوخ (ابوبکرؓ وعمرؓ)تو نبی اکرمﷺ کے بعد خیرامت تھے۔ (ایضاً:۳/۱۶۰) قاضی شریک کی حضرت علیؓ کو خیرالبشر قرار دینے کی مذکورہ بالاروایت کو لے کر جن لوگوں نے انہیں اتہام کا نشانہ بنایا ہے،ان پر علامہ ذہبیؒ نے شدید ترین نقد کیا ہے رقمطراز ہیں: ان شریکا لایعتقدقطعا ان علیا خیر من الانبیاء مابقی الا امنہ اراد خیرالبشر فی وقتہ وبلاشک ھو خیر البشر فی ایام خلافتہ (میزان الاعتدال:۱/۴۴۵) قاضی شریک حضرت علیؓ کو قطعاً انبیائے کرام سے افضل نہیں سمجھتے تھےدرحقیقت ان کی مرادیہ تھی کہ علی اپنے وقت میں خیر البشر تھے اور بلاشبہ وہ اپنے دورِ خلافت کے بہترین انسان تھے۔ احترامِ علم علم وعلماء کی بے حرمتی وبے توقیری برداشت نہ کرتے تھے،اس سلسلہ کاایک واقعہ لائق ذکر ہے،ہمدان بن الاصبہانی کہتے ہیں کہ ایک دن میں قاضی شریک کی خدمت میں حاضر تھا کہ خلیفہ مہدی کا کوئی لڑکا ان کے پاس آیا اوردیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا،پھر قاضی صاحب سے کسی حدیث کے بارے میں سوال کیا،انہوں نے کوئی التفات نہ کیا، کئی بار کے بعد اس لڑکے نے شاہانہ نخوت سے کہا کہ آپ خلیفہ وقت کی اولاد کی تذلیل کرتے ہیں فرمایا نہیں "لکن العلم ازین عنداھلہ من ان یضیعوہ"راوی کا بیان ہے کہ یہ سُن کر فوراً وہ لڑکا دوزانو بیٹھ گیا اور پھر سوال کیا،قاضی صاحب نے فرمایا:"ھٰکذا یطلب العلم" (اخبار القضاۃ:۳/۱۶۱) بھوک کا فائدہ قاضی شریک کا یہ گرانقدر مقولہ بہت مشہور ہے کہ بھوک بیماری کو چوس لیتی ہے۔ (اخبارالقضاۃ:۳/۱۶۵) وفات یکم ذی القعدہ ۱۷۷ھ کو بمقام کوفہ علم وفضل کا یہ خورشید تاباں غروب ہو گیا (طبقات ابن سعد:۶/۱۶۳)حسن بن حماد کہتے ہیں کہ ۱۷۷ھ میں جب قاضی شریک کا انتقال ہوا تو میں کوفہ میں موجود تھا (اخبار القضاۃ:۳/۱۶۸)موسیٰ بن عیسیٰ والی کوفہ نے نماز جنازہ پڑھائی،خلیفہ وقت ہارون الرشید اس وقت حیرہ میں تھا، خبر ملتے ہی بعجلت تمام نماز میں شرکت کے لیے کوفہ آیا لیکن راستہ ہی سے واپس ہوگیا؛کیونکہ اسے تدفین سے فراغت کی اطلاع مل گئی تھی (ابن خلکان:۱/۴۰۳) وفات کے وقت قاضی صاحب ۸۲ سال کے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۰)