انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آسمان سے متعلق معجزات چاند کےدو ٹکڑے(معجزۂ شق القمر) صحیحین اور دوسری معتبر کتب احادیث میں مشہور اور متواتر روایتوں سے یہ واقعہ ثابت ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں ابوجہل ،ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل وغیرہ کفار نے جمع ہوکر نبی کریمﷺ کی خدمت میں یہ سوال اٹھایا کہ اگر تم سچے ہو تو چاند کے دو ٹکڑے کر دکھاؤ،آنحضورﷺ نے فرمایا اگر میں ایسا کردوں تو کیا تم ایمان لاؤگے،سب نے کہا ہاں،چنانچہ آنحضورﷺ نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ یہ چاند دو ٹکڑے ہوجائے،آپﷺ کی دعا قبول ہوئی،آپ نے چاند کی طرف اشارہ فرمایااور چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے ،آپﷺ نے ہر کافر کو نام لے کر پکارا اور کہا اے فلاں گواہ رہنا اے فلاں گواہ رہنا، سب لوگوں نے چاند کے ٹکڑے اچھی طرح دیکھ لیے دو ٹکڑے ایک دوسرے سے اتنی دوری پر ہوگئے تھےبیچ میں ہرا پہاڑ نظر آرہا تھا،یہ کافروں نے اس پر کہاکہ یہ تو جادو ہے، ابوجہل نے کہا ہم اس معاملہ کی مزید تحقیق کریں گے اگر یہ جادو ہوگا تو صرف ہم لوگوں پر ہی ہوسکتا ہے جو لوگ یہاں موجود نہیں ہیں دوسرے شہروں اور ملکوں میں ہیں ان پر تو جادو نہیں ہوسکتا ،اس لیے باہر سے جولوگ آئیں ا ن سےمعاملہ کی تحقیق کرنی چاہیے؛چنانچہ دور دراز کےلوگ آیا کرتے تھے اور ان سے جب چاند کے دو ٹکرے ہونے کا حال پوچھا جاتا تو وہ سب اقرار کرتے کہ ہاں ہم نے بھی چاند کے دوٹکڑے ہوتے دیکھا ہے، یہ معجزہ آنحضورﷺ کا اتنا بڑا ہے کہ اس کے بارے میں قرآن کی یہ آت نازل ہوئی: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ، وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ (القمر۱،۲) قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا اور اگر یہ لوگ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو رو گردانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔ اب یہ چیز ممکن ہی نہیں ؛بلکہ ناممکن ہوگئی کہ آسمان اور سارے عالم کی حالت بدل سکتی ہے؛ لیکن کفار کا عجب حال ہے کہ بت پرستی وغیرہ جو عقل کے بالکل خلاف ہے اس کو تو مانتے ہیں؛ لیکن کوئی سچا معجزہ اور نشانی ظاہر ہوتو اس کو جادو وغیرہ کہہ کر رد کریتے ہیں۔ آنحضورﷺ کا یہ معجزہ صرف عرب میں ہی نہیں ؛بلکہ تمام دنیا میں دیکھاگیا ،تاریخ فرشتہ میں ہے کہ طیبار کے ایک راجہ نے مسلمانوں سے جب یہ قصہ سنا تو اپنے مذہب کے عالموں سے اس زمانے کے حالات کی تحقیق کی جس زمانے میں رسول ﷺمبعوث ہوئے تھے،برہمنوں اور عالموں نے اس زمانے کی تحقیق کی جس زمانے میں رسول اللہﷺ مبعوث ہوئے ،انہوں نے ان کتابوں میں تلاش کیا تو چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی تصدیق کردی یہ معلوم کرکے، وہ راجہ مسلمان ہوگیا۔ سوانح الحرمین میں لکھا ہے کہ صوبہ مالوہ میں دریائے چنبل کے پاس ایک شہر ہے وہاں کا راجہ اپنے محل کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اچانک اس نے دیکھا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے اور تھوڑی دیر کے بعد چاند پھر جڑ گیا اس نے اپنے یہاں کے پنڈتوں سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کے ہمارے مذہب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہوں گے ان کے ہاتھ سے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ ظاہر ہوگا ،یہ معلوم کرکے اس راجہ نے اپنا قاصد رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجا اور آپ پر ایمان لایا اس راجہ کا نام آنحضورﷺ نے عبداللہ رکھا اس راجہ کی قبر شہر دہار کے باہر اب بھی موجود ہے اور لوگ اس کی زیارت کرتے ہیں، اس واقعے کو مولانا رفیع الدین صاحب نے بھی اپنے رسالہ شق القمر میں تاریخ فضلی سےنقل کر رکھاہے، جس میں مالوہ کے اس راجہ کا نام راجہ بھوج بتایا چاند کے دوٹکڑے ہونے پر بےدینوں نے بہت سےا عتراضات کیے ہیں ان سب کا جواب مولانا رفیع الدین نے اپنے رسالہ دفع اعتراضات معجزہ شق القمر میں خوب تفصیل سے دیا ہے اور بتایا ہے کہ حکماء یورپ کو بھی یہ مسئلہ ماننا پڑا اور فلاسفہ کا بہت بڑا طبقہ فلکیات میں خرق والتیام کا قائل ہے ،سوائے مشائین کے وہ خرق والتیام کے منکر ہیں اگرچہ ان کے دلائل بہت کمزور ہیں اور علمائے کلام نے ان کا جواب دیا ہے۔