انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام ابوحنیفہؒ کے مولد ومسکن کوفہ کے علمی حالات اسلامی عہد میں سب سے پہلے جوشہر بسایا گیا وہ بصرہ وکوفہ ہے، صحابیٔ رسولﷺ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی خواہش پر خلیفۂ وقت حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس بابت فرمان جاری کیا، یہ وہ وقت تھا کہ فارس کا علاقہ مسلمانوں کے زیرِنگیں آچکا تھا اور قادسیہ کی تاریخی جنگ نے پورے مشرق پر اسلام کی سربلندی اور حقانیت اور اہلِ اسلام کی عالی ہمتی اور بلند حوصلگی کا نقش لایزال ثبت کردیا تھا اور اہلِ اسلام کے ابدان سے اخلاق کی بھینی بھینی خوشبوئیں پھوٹ پھوٹ کر ہرکسی کواپنا گرویدہ بنائے جارہی تھیں، مسلمان اولاً مدائن میں فروکش ہوئے؛ مگران کویہاں کی آب وہوا راس نہیں آئی اور بہ قول طبری اس ناموافق آب وہوا سے متاثرین میں ۴۰/ہزار کی تعداد صرف ان نفوس قدسیہ کی تھی جوپیغمبرِاسلامﷺ کی صحابیت سے مشرف تھے۔ (طبری:۲/۱۴۱) اس بناء پرایک نئے شہر کی تعمیر وآبادکاری کا منصوبہ بنا اور "کوفہ" کے نام سے دریائے فرات کے ساحل پر سنہ۱۷ھ میں یہ نیا شہر حضرت عمرؓ کے حکم سے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے آباد کیا، اس کے اطراف وجوانب فصحائے عرب آباد کئے گئے، اس شہر کے آباد ہونے کے بعد بڑی تعداد میں جلیل القدر رفیع المرتبت صحابہ کرامؓ یہاں تشریف لائے، علامہ ابن سعد (۲۳۰ھ) فرماتے ہیں ۷۰/بدری اور ۳۰۰/بیعت رضوان میں شریک ہونے والے صحابہ کرامؓ کوفہ میں قدم رنجہ فرمائے تھے۔ (طبقات ابنِ سعد:۶/۹) حافظ ابوبشر دولابی (۳۱۰ھ) حضرت قتادہؓ سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے صحابہ میں سے ایک ہزار پچاس افراد اور چوبیس وہ بزرگ جوغزوۂ بدر میں آپﷺ کے ہمرکاب رہے تھے، کوفہ میں آکرفروکش ہوئے۔ (کتاب الکنی والاسماء:۱/ء۷۲) امام ابوالحسن احمد بن عبداللہ عجلیؒ (۲۶۱ھ) جو فن رجال میں امام احمد بن حنبلؒ اور یحییٰ بن معینؒ کے ہمسرشمار کئے جاتے ہیں، فرماتے ہیں: کوفہ میں دیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ نے بود وباش اختیار کی۔ (فتح القدیر:۱/۴۲) طبقات بن سعد میں کوفہ کے بارے میں حضرت عمرؓ کا یہ تاثر ہے: "بِالْکُوْفَۃِ وُجُوْہ النَّاس"۔ کوفہ میں بڑے بڑے لوگ ہیں۔ یہاں وجاہت سے مراد دینی وعلمی وجاہت ہے، اس کی تائید علامہ ذہبیؒ کی "تذکرۃ الحفاظ" سے بھی ہوتی ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۴) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بناء کوفہ سے لیکر حضرت عثمانؓ کی خلافت کے اخیردور تک اہلِ کوفہ کوقرآن پاک واحادیث طیبہ اورمسائل فقہ کی تعلیم دینے میں مشغول رہے، اس کارِخیر میں متعدد جلیل القدر، عظیم المرتبت اور رفیع الشان صحابہؓ مثلاً: سعد بن ابی وقاصؓ، حذیفہؓ، عمار بن یاسرؓ، سلمان فارسیؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ بھی شریک تھے اور اِن اکابر صحابہؓ نے دین کی اشاعت اور تبلیغ میں جوجانفشانیاں اور عرق ریزیاں کیں، اس کی بدولت رشدوہادیت اور علم وفکر کی صبح درخشاں اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمک اٹھیں (مناقب موفق:۱/۵۶) اور بقول ثقہ علماء کے اس معدن العلم والفقہ شہر میں چار ہزار علماء پیدا ہوگئے، اِس انقلاب کے پیچھے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی محنت وکاوش کا بڑا گہرا دخل تھا؛ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بارے میں بیان ہے: "کَنیف ملیٔ عِلْمًا"۔ (درسِ ترمذی:۱/۸۹) وہ مجسمِ علم تھے۔ حضڑت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا جوعلمی مقام تھا اس کا اندازہ اس فقرہ سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے اِس موقع سے اہلِ کوفہ کو لکھا تھا: "قَدْ أَثَرْتُکُمْ بِعَبْدِ اللہِ بْن مَسْعُوْدٍ عَلَی نَفْسِیْ"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶) ترجمہ:ابنِ مسعودرضی اللہ عنہ کوبھیج کر میں ایثار سے کام لے رہا ہوں۔ نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن کوچار اشخاص سے سمجھو اور چار میں سب سے پہلے افقہ الامۃ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا (طبقات ابنِ سعد:۶/۷) پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کوفہ میں ورود مسعود ہوا تواس شہر کے علماء وفقہاء کی کثرت کودیکھ کربہت خوش ہوئے اور فرمایا: "رَحِمَ اللّهُ ابْن أم عَبْدِ، قَدْ مَلأِ هَذِهِ الْقرْيَةَ عِلْمًا"۔ (المحدث الفاضل:۵۶۰) اللہ رحم کا معاملہ فرمائے ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعودؓ) پر اس نے تواس شہرکو علم سے بھردیا ہے۔ نیزفرمایا: "أَصْحَاب ابْن مَسْعُودٍ، سُرُجَ هَذِهِ الْقرْيَةَ"۔ (درسِ ترمذی:۱/۸۹) ابنِ مسعودرضی اللہ عنہ کے تلامذہ اس امت کے چراغ ہیں۔ حضرت علیؓ کے قدم رنجہ فرمانے سے توکوفہ کی علمی افق پر اور چار چاند لگ گئے اور شہرت آسمانوں کوچھونے لگی، آپؓ کے بیشتر فیصلے کوفہ ہی میں صادر ہوئے (امام ابن ماجہ اور علمِ حدیث:۳۶) قابلِ فخر اور لائقِ صد تحسین بات یہ ہے کہ افقہ الامۃ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما تمام حضراتِ صحابہؓ کے علوم کا خلاصہ تھے؛ چنانچہ حضرت مسروق بن اجدع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "درت فِی الصَّحَابَۃِ فَوَجَدَتْ عِلْمُہُمْ ینتھی إِلَی سِتَّۃَ ثُمَّ نظرت فَوَجَدَتْ عِلْمُھُمْ ینتھی الی اثنین عَلیٰ وَعَبْدِ اللہِ"۔ (درس ترمذی:۱/۹۰) میں نے دیکھا کہ تمام صحابہ کے علوم کی نہایت چھ اشخاص تھے اور پھر ان چھ کے علوم دوصحابہ میں جمع ہوگئے تھے، حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما۔ اور یہ دونوں حضرات کوفہ میں رہے؛ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ کوفہ میں علوم صحابہ کا خلاصہ جمع تھا؛ اس طرح کوفہ گویا ایک علمی مرکز تھا، جہاں سے علوم اسلامی کے چشمےپھوٹتے تھے، خاص طور پر ان دوصحابہ کرامؓ کی بدولت کوفہ کے چمنستان علوم میں بڑی فرحت انگیز ہوائیں چلیں، پُربہار سرسبزی وشادابی اس کا مقدر بن گئی اور علمِ حدیث وفقہ کے پھول خوب کھل کھل کر لہرانے لگے اور پورا ماحول ان کیف زافضاؤں سے مست ہوگیا، ہرسوحدیث وفقہ کی خوشبوئیں ہرکسی کوفرحت کن احساس بخش رہی تھیں اور نفس نفس بوئے حدیث وفقہ سے مشکبار ہوگیا، علمِ حدیث کی گرم بازاری کا یہ نتیجہ تھا کہ وہاں گھرگھر میں علمِ حدیث کے چرچے، خلوت وجلوت میں اسی کے تذکرے، عام خاص مجلسوں میں اسی پر تبصرے؛ الغرض محلہ محلہ، گلی گلی اور کوچہ کوچہ حدیث وفقہ کی درسگاہیں بن گئیں؛ چنانچہ علامہ ابومحمدالرامہرمزی نے "المحدث الفاضل" میں حضرت انس بن سیرین کا یہ مقولہ نقل کیا ہے: "أَتَیْتَ الْکُوْفَۃَ فَوَجَدَتْ بِہَا أَرْبَعَۃَ الْاف یَطْلُبُوْنَ الْحَدِیْثَ وَأَرْبَعَ مِائَۃَ قَدْفَقَہُوْا"۔ (درس ترمذی:۱/۹۰) میں کوگہ گیا تومیں نے وہاں چار ہزار طالبینِ حدیث کوپایا اور چار سوفقیہ ہوگئے تھے۔ طبقات ابن سعد کی پوری ایک چھٹی جلد میں علماء کوفہ کا تذکرہ ہے، اس کتاب میں کوفہ کے علماء کی تعداد تقریباً ایک ہزار کے قریب سپرد قلم کی گئی، جب کہ دوسرے شہر کے علماء کی تعداد اس کے عُشرعشیر بھی نہیں ہے۔ (معجم البلدان:۴/۴۹۳) امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ (۵۰۴ھ) نے اپنی کتاب "معرفۃ علوم الحدیث" میں اسلامی شہروں کے نامور محدثین کا تذکرہ کیا ہے، اس کتاب میں پورے ساڑھے تین صفحات پر صرف کوفہ کے ائمہ حدیث کا ذکر کیا ہے؛ جب کہ دوسرے شہروں میں سے کسی بھی شہر کے محدثین کا تذکرہ اس کتاب میں ایک صفحہ سے زائد نہیں ہے (معرفۃ علوم الحدیث:۲۴۳) امام احمد بن حنبل اور امام عفان بن مسلم استاذ امام بخاریؒ (۲۲۰ھ) فرماتے ہیں: جب ہم کوفہ آئے توہم نے وہاں چار ماہ قیام کیا؛ اگرہم چاہتے کہ ایک لاکھ حدیثیں لکھ لیں تولکھ سکتے تھے؛ مگرہم نے صرف پچاس ہزار حدیثیں لکھیں، ہم کسی سے املاء کے بغیر راضی نہیں ہوئے؛ سوائے شریکؒ کے، کہ انھوں نے اس کا انکار کردیا اور ہم نے کوفہ میں کسی ایک شخص کونہیں دیکھا جوعربی بولنے میں غلطی کرے اور اس کوروا رکھے۔ (المحدث الفاضل:۵۵۹) حافظ ابوبکرعبداللہ بن ابی داؤد (۳۱۶ھ) فرماتے ہیں: جب میں کوفہ آیا تومیرے پاس فقط ایک درھم تھا میں نے اس ایک درھم سے تیس مدبا قلا خریدا، روزانہ ایک مدباقلا کھاتا اور ابوسعید الاشج سے ایک ہزار حدیثیں لکھتا؛ اس طرح میں نے ایک ماہ میں تیس ہزار حدیثیں لکھ لیں، جن میں مقطوع اور مرسل بھی شامل ہیں۔ (طبقات شافعیہ:۳/۳۰۸، لتاج الدین سبکی۔ تدریب الراوی:۲/۸۵، کراچی) امام احمد بن حنبل سے جب ان کے صاحبزادے نے دریافت کیا کہ علم حدیث کسی ایک استاذ کی خدمت میں رہ کر حاصل کرنا چاہئے یاسفر کرکے مختلف اساتذہ سے یہ علم حاصل کرنا چاہئے؟ توآپ نے سفر کرنے کا حکم فرمایا اور اس عظیم مقصد کی خاطر سفر کی صعوبتیں جھیلنے کے لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زبانِ مبارک جس شہر کا سب سے پہلے انتخاب کیا وہ کوفہ ہی تھا، فرمایا: "یرحل ویکتب مِنَ الْکُوْفِیین وَالْبَصْرِیین واھل الْمدینۃ وَمَکَّۃ"۔ (طبقات ابن سعد:۶/۱۱) سفر کرے اور کوفہ، بصرہ، مدینہ اور مکہ کے محدثین سے اکتساب علم کرے۔ عبدالجبار کے والد عباس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ جومکہ مکرمہ کے محدث عظیم ہیں، ان کی خدمت میں بیٹھا توانھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ تومیں نے کہا کہ میرا مکان کوفہ ہے توفرمایا: "مَایَاتِیْنَا الْعِلْم الا مِنْ عِنْدِکُمْ"۔ (غیرمقلدین امام بخاری کی عدالت میں:۳۷) علم حدیث تمہارے یہاں سے ہی ہمارے پاس آیا ہے۔ امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر رفیع المرتبت، محدث، مفسر اور فقیہ کا یہ قول اس زمانہ میں کوفہ کی علمی برتری کی بڑی بین اور وزنی دلیل ہے، امام ذہبی (۷۲۸ھ) نے تذکرۃ الحفاظ میں حافظین حدیث کا تذکرہ کیا ہے اس کتاب میں صرف سنہ ۲۵۶ھ تک کے محدثین کا تذکرہ پڑھئے جن کوعلامہ ذہبیؒ نے کوفی کہا ہے اور اس سلسلہ میں مستقل عنوان قائم کیا ہے، ایک شمار کے مطابق ۱۱۰/کوفی حفاظ حدیث ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ بخاری شریف کے رواۃ میں ایک قابل لحاظ تعدد کوفہ کے راویوں کی ہے، شمار کرنے سے اس کی تعداد تین سوسے زیادہ نکلی (غیرمقلدین امام بخاری کی عدالت میں:۳۷) اور جوصحابہ کرامؓ کوفہ میں آکر اقامت پذیر ہوئے اور ان سے بخاری شریف میں روایت لی گئی ہے، ان کی تعداد ۲۹/ہے (غیرمقلدین امام بخاری کی عدالت میں:۳۷) امام بخاریؒ ان سب کے حوالہ سے بخاری شریف میں ارشادات نبوی نقل کئے ہیں (غیرمقلدین امام بخاری کی عدالت میں:۳۷) اسی کے ساتھ بخاری شریف میں پچاسیوں سندیں ایسی ہیں جن کے کل کے کل راوی کوفی ہیں، مثلاً: "الف: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقُرَشِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا أَبُوبُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ"۔ (بخاری، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ،حدیث نمبر:۱۰، شاملہ، موقع الإسلام) علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "إِسْنَادُہٗ کُلُّھُمْ کُوْفِیِّوْنَ"۔ (عمدۃ القاری:۱/۱۵۹) اس سند کے سارے راوی کوفہ کے رہنے والے ہیں۔ "ب: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ"۔ (بخاری، كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب مَنْ جَعَلَ لِأَهْلِ الْعِلْمِ أَيَّامًا مَعْلُومَةً،حدیث نمبر:۶۸، شاملہ، موقع الإسلام) اس سند کے متعلق بھی علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "رَوَاتُہٗ کُوْفِیُّوْنَ"۔ (عمدۃ القاری:۱/۱۵۹) اس سند کے سارے راوی کوفہ کے رہنے والے ہیں۔ "ج: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔ (بخاری، كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب فَضْلِ مَنْ عَلِمَ وَعَلَّمَ،حدیث نمبر:۷۷، شاملہ، موقع الإسلام) علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: "رَوَاتُہٗ کُوْفِیُّوْنَ"۔ (عمدۃ القاری:۱/۴۶۶) اس سند کے سارے راوی کوفہ کے رہنے والے ہیں۔ "د: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ قَالَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ أَبِي مُوسَى"۔ (بخاری، كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب مَنْ سَأَلَ وَهُوَ قَائِمٌ عَالِمًا جَالِسًا،حدیث نمبر:۱۲۰، شاملہ، موقع الإسلام) علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ سپردِ قرطاس فرماتے ہیں: "رَوَاتُہٗ کُلُّھُمْ کُوْفِیُّوْنَ"۔ (عمدۃ القاری:۱/۶۰۶) اس سند کے سارے راوی کوفہ کے رہنے والے ہیں۔ "ھــ: حَدَّثَنَا أَبُونُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ لَيْسَ أَبُوعُبَيْدَةَ ذَكَرَهُ وَلَكِنْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُ"۔ (بخاری، كِتَاب الْوُضُوءِ،بَاب لَايُسْتَنْجَى بِرَوْثٍ،حدیث نمبر:۱۵۲، شاملہ، موقع الإسلام) علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "رَوَاتُہٗ کُلُّھُمْ کُوْفِیُّوْنَ"۔ (عمدۃ القاری:۱/۷۳۴) اس سند کے سارے راوی کوفہ کے رہنے والے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ پانچ سندیں پیش کی گئی ہیں؛ ورنہ تلاش وجستجو سے سینکڑوں سندیں ایسی مل سکتی ہیں، جن میں شروع سے آخر تک کوفی ہی راوی ہیں۔ بہرحال سطورِ بالا سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کوفہ شہر ابتداءِ قیام سے کم از کم صحاحِ ستہ کے مصنفین کے زمانہ تک علمی لحاظ سے اوجِ کمال کو پہنچا ہوا تھا اور محدثین کی ایک بڑی تعداد وہاں قیام پذیر تھی اور گھر گھر علمِ حدیث سے روشن تھا، یہ تھا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسکن ومولد۔