انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حجاج بن یوسف ثقفی حجاج کے حالات اوپر برابرذکر ہوتے چلے آتے ہیں، ولید بن عبدالملک کے تخت نشین ہوتے ہی حجاج نے یزید بن مہلب کوخراسان کی گورنری سے حبیب بن مہلب کوکرمان کی حکومت سے معزول کرکے قید رکردیا تھا؛ پھرمہلب کے تمام بیٹوں کوقید کردیا، یزید بن مہلب کے تمام بیٹوں کوقید کردیا، یزید مع اپنے بھائیوں کے قید خانے سے فرار ہوکر فلسطین میں ولید بن عبدالملک کے بھائی سلیمان بن عبدالملک کے پاس پہنچا جووہاں کا عامل تھا، حجاج نے ولید کویزید بن مہلب کی شکایتیں لکھیں لیکن سلیمان کی سفارش سے یزید بن مہلب او راس کے بھائیوں سے ولید نے کوئی مواخذہ نہ کیا، حجاج کے مزاج کی سختی نے اہلِ عراق کوپریشان کیا اور اکثر لوگ حجاج سے تنگ آکر عراق سے فرار ہوئے اور مکہ معظمہ ومدینہ منورہ میں جاجاکر مقیم ہوئے، وہاں حضرت عمر بن العزیز حجاز کے گورنر تھے؛ انھوں نے عراق سے آئے ہوئے ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کیا۔ سنہ۹۳ھ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عبدالملک کوایک خط حجاج کی شکایت میں لکھا کہ اس نے اہلِ عراق کوبہت ستا رکھا ہے اور اپنے ظلم وزیادتی میں حد سے بڑھ گیا ہے، حجاج کوجب اس کا حال معلوم ہوا تواس نے بھی ایک خط حضرت عمر بن عبدالعزیز کی شکایت میں ولید کولکھا کہ اکثر فتنہ پرداز اور منافق لوگ عراق سے جلاوطن ہوکر عمر بن عبدالعزیز کے پاس چلے جاتے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز ان کی گرفتاری سے مانع ہوتے ہیں، یہ بات حکومت وسلطنت کے لیے موجب نقصان ثابت ہوگی مناسب یہ ہے کہ آپ عمربن عبدالعزیز کوحجاز کی حکومت سے معزول کردیں۔ ولید نے ماہِ شعبان سنہ۹۳ھ میں عمربن عبدالعزیز کوحجاز کی حکومت سے معزول کرکے ان کی جگہ خالد بن عبداللہ کومکہ معظمہ کا اور عثمان بن حبان کومدینہ کا حاکم مقرر کردیا، خالد نے مکہ میں جاتے ہی کل اہلِ عراق کونکال باہر کیا اور ان لوگوں کوبھی دھمکایا جنھوں نے اپنے مکانات اہلِ عراق کوکرایہ پردے رکھے تھے، جولوگ حجاج کے ظلم وستم سے بچنے کے لے مکہ معظمہ میں آئے تھے انھیں میں سعید بن جبیر بھی تھے، سعید بن جبیر کی خطا یہ تھی کہ وہ عبدالرحمن بن اشعث کے ہم آہنگ ہوگئے تھے اور حجاج کی نگاہ میں یہ خطا کوئی معمولی خطا نہ تھی، خالد نے ان کوگرفتار کرکے حجاج کے پاس بھیج دیا، حجاج ن ےان کوقتل کردیا، سعید بن جبیر بالکل بے گناہ مقتول ہوئے اور اس قسم کے یہی ایک مقتول نہ تھے؛ بلکہ سے طنجہ (واقع مراکو) کا حاکم تھا وہ اپنے ساتھ ہزار ہمراہیوں کے ساتھ کشتیوں پرسوار ہوکر اور بارہ میل کی چوڑی آبنائے جبل الطارق کوعبور کرکے ساحلِ اندلس پراترا اور شمال کی جانب متوجہ ہوا، علاقہ شذونہ میں اسپین کا بادشاہ لذریق ایک لاکھ جرار فوج کے ساتھ طارق کے مقابلہ پرآیا ا،ٓٹھ روز تک بڑے زور شور کے ساتھ لڑائی رہی آخر آٹھویں روز ۲۸/رمضان المبارک سنہ۹۲ھ کوشاہ لذریق طارق کے مقابلہ میں مارا گیا اور عیسائی لشکر نے راہ فرار اختیار کی۔ اسی سال سندھ کا راجہ داہر محمد بن قاسم کے مقابلہ میں مارا گیا تھا، اس کے بعد بڑی آسانی سے طارق اندلس کے شہروں کوفتح کرتا ہوا آگے بڑھا، اس فتح عظیم کا حال جب موسیٰ بن نصیر کومعلوم ہوا تواس نے طارق کوآئندہ پیش قدمی سے روکنے اور اپنے پہنچے تک انتظار کرنے کے لیے لکھا؛ مگرطارق او راس کے بہادر سپاہی اب رُک نہیں سکتے تھے، آخر رمضان ۹۳ھ میں موسیٰ بن نصیر بھی اٹھارہ ہزار فوج لیکر اندلس پہنچ گیا اور تمام جزیرہ نمائے اندلس کوکوہ پیری نیز تک فتح کرلیا، مشرقی اندلس میں علاقہ پرشلونہ کوفتح کرنے کے بعد موسیٰ نے ولید بن عبدالملک کولکھا کہ میں نے تمام ملک اسپین کوفتح کرلیا ہے اب اجازت دیجئے کہ میں یورپ کے اندر ہوتا اور فتوحات حاصل کرتا ہوا قسطنطنیہ تک پہنچوں اور فتح قسطنطنیہ کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوں؛ لیکن ولید بن عبدالملک نے موسیٰ کولکھا کہ تم اسپین میں کسی کوحاکم مقرر کرکے معہ طارق بن زیاد میرے پاس براہِ افریقہ واپس آؤ اگراس وقت موسیٰ بن نصیر کواجازت مل جاتی تویہ کچھ بھی دشوار نہ تھا کہ تمام براعظم یورپ فتح ہوجاتا؛ بہرحال خلیفہ کے حکم کی تعمیل میں موسیٰ نے اندلس میں اپنے بیٹے عبدالعزیز کوگونرمقرر کیا اور مراکواپنے دوسرے بیٹے عبدالملک کوسپرد کیا اور قیروان میں اپنے تیسرے بیٹے عبداللہ کواپنا جانشین بنایا اور اس انتظام سے فارغ ہوکرخود مع تحفہ وہدایا دمشق کی جانب روانہ ہوا؛ لیکن یہ جس روز دمشق پہنچا ہے خلیفہ ولید بن عبدالملک کا انتقال ہوچکا تھا، بہت سے بزرگ اور نیک آدمیوں کوحجاج نے ظالمانہ قتل کیا۔ ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک تختِ خلافت کا آرزومند تھا؛ کیونکہ عبدالملک نے ولید کے بعد سلیمان کوولی عہد بنایا تھا او راسی پرلوگوں سے بیعت لی گئی تھی، ولید نے یہ چاہا کہ میں سلیمان اپنے بھائی کومحروم کرکے اپنے بیٹے عبدالعزیز کوولی عہد بناؤں، اس خواہش اور ارادے کا حال ولید نے جدا جدا اپنے سرداروں کے سامنے بیان کیا توحجاج اور قتیبہ نے توپسند کیا لیکن اوروں نے ولید کوڈرایا اور کہا کہ مسلمانوں میں فتنہ برپاہوجانے کا سخت اندیشہ ہے؛ اسی سال سنہ۹۵ھ میں بہ ماہِ شوال بیس برس عراق کی حکومت کرنے کے بعد حجاج نے وفات پائی اور مرتے وقت اپنے بیٹے عبداللہ بن حجاج کوعراق کا گورنر کیا، ولید بن عبدالملک نے حجاج کے تمام عاملوں کوان کے عہدوں پربدستور قائم رکھا۔