انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
امام پر متعین وقت کا اہتمام لازم ہے یا نہیں؟ حضور اکرم ﷺ کے عہد مبارک اور قرونِ اولیٰ میں نیز حضرات فقہاء رحمہم اللہ کے دور میں نہ دنیوی مشاغل زیادہ تھے اور نہ ہی گھڑیاں تھیں، اس لئے جماعت کا اصول یہ رہا کہ وقت داخل ہونے کے بعد اذان ہوئی اور اس کے بعد جب نمازیوں کا اجتماع ہوگیا تو جماعت قائم ہوگئی، آج کے زمانہ میں ایک طرف دنیوی مشاغل میں مصروفیت بدرجۂ انہماک اور دوسری جانب دین میں غفلت و بے اعتنائی کے پیشِ نظر گھڑیوں کی سہولت سے استفادہ ناگزیر ہوگیا ہے، لہٰذا آج کل حالات کے پیش نظر گھڑی سے وقت کی تعیین اور امام کے لئے وقتِ معیّن کی پابندی ضروری ہے، حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں لوگوں کے اجتماع کو ملحوظ رکھا جاتا تھا، اب چونکہ گھڑی کے معیّن وقت پر ہی نمازی جمع ہوتے ہیں ، لہٰذا یہ امر بھی اس کو مقتضٰی ہے کہ معیّن وقت سے تاخیر نہ کی جائے، علاوہ ازیں قرونِ اولیٰ کے ائمہ تنخواہ نہیں لیتے تھے اور اس زمانہ کا امام تنخواہ دار ملازم ہے، ا س لئے بھی اس پر معیّن وقت کی پابندی لازم ہے، البتہ نمازیوں پر امور ذیل کا خیال رکھنا ضروری ہے: (۱) اگر کبھی بتقاضائے بشریّت امام کو چار پانچ منٹ تاخیر ہوجائے تو بے صبری اور چیخ و پکار کے بجائے صبر و تحمّل سے کام لیں اور اس تاخیر کو کسی عذر پر محمول کرکے امام پر زبان درازی اور طعن سے احتراز کریں۔ (۲) اگر امام ہمیشہ تاخیر سے آنے کا عادی ہو تو اسے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ (۳) اگر تفہیم کے باوجود امام کی روش نہیں بدلتی تو منتظمہ اسے معزول کرسکتی ہے، مگر اس صورت میں بھی امام سے متعلق بدزبانی اور اس کی غیبت ہرگز جائز نہیں۔ (احسن الفتاویٰ:۳/۳۰۱، زکریا بکڈپو، دیوبند)