انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اقتداء صحیح ہونے کی شرطیں مندرجہ ذیل شرطوں کی وجہ سے اقتداء صحیح ہوتی ہے (۱) تکبیر تحریمہ کے وقت مقتدی کا امام کی متابعت کی نیت کرنا۔حوالہ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ … قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا(بخاري بَاب وُجُوبِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ ۶۴۷) عن أَبي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ أَوْ لَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ (بخاري بَاب إِثْمِ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ: ۶۵۰) عَنْ أَنَسٍ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي إِمَامُكُمْ فَلَا تَسْبِقُونِي بِالرُّكُوعِ وَلَا بِالسُّجُودِ وَلَا بِالْقِيَامِ وَلَا بِالِانْصِرَافِ فَإِنِّي أَرَاكُمْ أَمَامِي وَمِنْ خَلْفِي (مسلم بَاب تَحْرِيمِ سَبْقِ الْإِمَامِ بِرُكُوعٍ أَوْ سُجُودٍ وَنَحْوَهُمَا: ۶۴۶) بند (۲) امام کا مقتدی سے کم از کم اپنی ایڑیوں سے آگے بڑھاہوا ہونا۔حوالہ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ شَاكٍ فَصَلَّى جَالِسًا وَصَلَّى وَرَاءَهُ قَوْمٌ قِيَامًا فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ اجْلِسُوا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا (بخاري بَاب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ الخ: ۶۴۷) مذکورہ روایت میں انما جعل الامام لیؤتم بہ کے ذریعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ امام کی پیروی ضروری ہے، امام ہے ہی اس لیے کہ اس کی اتباع (پیروی) کی جائے اوراتباع اسی وقت ہوسکے گی جب کہ وہ مقتدی سے آگے ہو؛ اگروہ پیچھے چلاجائے تومقتدی پرامام کی حالت مشتبہ ہوجائے گی؛ پھروہ اتباع نہیں کرسکےگا،نيز وہ آگے بڑھ کر امام کی حیثیت کوگھٹادیگا؛ اس لیے فقہاء کرام نے مذکورہ حدیث کے علاوہ بہت ساری احادیث کے پیشِ نظر بطورِ احتیاط اقتداء کے لیے یہ شرط لگادی کہ امام مقتدی سے کم از کم اس كی ایڑیوں سے آگے بڑھا ہوا ہونا چاہیے؛ اگرایسا نہ ہوتومقتدی کے آگے بڑھ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ بند (۳)امام مقتدی سے کمتر حالت میں نہ ہو، اگر امام نفل پڑھ رہا ہو اور مقتدی فرض پڑھ رہا ہو تو اقتداء صحیح نہیں ہوگی ،لیکن اگر امام فرض نماز پڑھ رہا ہو اور مقتدی نفل نماز پڑھ رہا ہوتو اقتداء صحیح ہوگی۔حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللَّهُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ ۱۹۱)وفيه دلالة علي فساد صلاة المفترض خلف المتنفل وتقرير الدلالة ماذكره العزيزي عن العلقمي ان حقيقة الضمان في اللغة والشرعية هو الالتزام وياتي بمعني الوعاء لان كل شئ جعلته في شئ فقد ضمنته اياه فاذا عرف معني الضمان فان الضمان الامام لصلاة الماموم هو التزام شروطها وحفظ صلاته في نفسه لان صلاة الماموم تبني عليها فان افسد صلاته فسدت صلاة من ائتم به فكان غارما لها وان قلنا بمعني الوعاء فقد دخلت صلاة الماموم في صلاة الامام لتحمل القراءة عنه والقيام الي حين الركوع اي في حق المسبوق والسهو ولذلك لم تجز صلاة المفترض خلف المتنفل لان ضمان الواجب بما ليس واجبا محال (اعلاء السنن جواز النافلة خلف المفترض وعدم جواز عكسه ۲۸۸/۴) بند (۴) امام اور مقتدی ایک ہی وقت کی فرض پڑھ رہے ہوں، لہذا اگر امام مثلا ظہر پڑھ رہا ہو اور مقتدی عصر پڑھ رہا ہو یا اس کے بر عکس ہو تو اقتداء صحیح نہیں ہوگی ۔حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ(بخاري بَاب إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ۶۸۰) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللَّهُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ ۱۹۱) بند (۵) امام اور مقتدی کے درمیان عورتوں کی صف نہ ہو۔حوالہ عن إبراهيم ، أنه قال :« من كان بينه وبين الإمام طريق أو امرأة أو نهر أو بناء أو امرأة ، فليس معه »(الاثار لابي يوسف باب صلاة العيدين في الأضحى ۳۲۹/۱) بند (۶) امام اور مقتدی کے درمیان ان کو الگ کرنے والی ایسی نہر نہ ہو جس میں کشتیاں ہوں۔حوالہ عن إبراهيم ، أنه قال :« من كان بينه وبين الإمام طريق أو امرأة أو نهر أو بناء أو امرأة ، فليس معه »(الاثار لابي يوسف باب صلاة العيدين في الأضحى ۳۲۹/۱) بند (۷)امام اور مقتدی کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہوں جس کی وجہ سے امام کا ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونا مخفی ہو جائے ۔حوالہ عَنْ نُعَيْمٍ ، قَالَ :قَالَ عُمَرُ :إِذَا كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الإِمَام طَرِيقٌ ، أَوْ نَهْرٌ ، أَوْ حَائِطٌ فَلَيْسَ مَعَهُ(مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ يُصَلِّي ، وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ الإِمَام حَائِطٌ۲۲۳/۲)۔ بند مسئلہ:اگر سننے یا دیکھنے کی وجہ سے امام کا ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونا مخفی نہ رہتا ہو تو اقتداء صحیح ہوگی۔حوالہ عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ؛ فِي الْمَرْأَةِ تُصَلِّي وَبَيْنَهَا وَبَيْنَ الإِمَام حَائِطٌ ، قَالَ :إِذَا كَانَتْ تَسْمَعُ التَّكْبِيرَ أَجْزَأَهَا ذَلِكَ(مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ يُصَلِّي ، وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ الإِمَام حَائِطٌ۲۲۳/۲) بند مسئلہ:وضو کئے ہوئے مقتدی کی نماز تیمم کرنے والے امام کے پیچھے صحیح ہے، پیروں کو دھونے والے کا موزوں پر مسح کرنے والے امام کے ساتھ اقتداء کرنا صحیح ہے ، کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرنا صحیح ہے، تندرست شخص کا کبڑ ے کی اقتداء کرنا صحیح ہے ۔حوالہ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ…وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ لَا يَتَأَخَّرَ قَالَ أَجْلِسَانِي إِلَى جَنْبِهِ فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهُوَ يَأْتَمُّ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ(بخاري بَاب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ۶۴۶) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ (بخاري بَاب إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلَاةِ: ۶۹۲) بند مسئلہ: اشارے سے نماز پڑھنے والے کے لئے اشارہ سے نماز پڑھانے والے امام کی اقتداء کرنا صحیح ہے۔ مسئلہ: اگر کسی وجہ سے امام کی نماز فاسد ہو جائے تو مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی امام کے لئے نماز کا لوٹانا ضروری ہے ، وہ اپنی نماز کے فاسد ہونے کا اعلان کرے ، تاکہ مقتدی بھی اپنی نماز لوٹالیں۔ حوالہ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُصَلِّي إِذْ انْصَرَفَ وَنَحْنُ قِيَامٌ ثُمَّ أَقْبَلَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ فَصَلَّى لَنَا الصَّلَاةَ ثُمَّ قَالَ إِنِّي ذَكَرْتُ أَنِّي كُنْتُ جُنُبًا حِينَ قُمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ لَمْ أَغْتَسِلْ فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ فِي بَطْنِهِ رِزًّا أَوْ كَانَ عَلَى مِثْلِ مَا كُنْتُ عَلَيْهِ فَلْيَنْصَرِفْ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ حَاجَتِهِ أَوْ غُسْلِهِ ثُمَّ يَعُودُ إِلَى صَلَاتِهِ (مسند احمد مسند علي بن أبي طالب رضي الله عنه: ۶۶۸) عَنْ إبْرَاهِيمَ ؛ أَنَّ عُمَرَ صَلَّى بِالنَّاسِ وَهُوَ جُنُبٌ فَأَعَادَ ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ لاَ يُعِيدُوا… عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : يُعِيدُ وَيُعِيدُونَ. (مصنف ابن ابي شيبة الرجل يصلي بِالْقَوْمِ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ: ۴۴/۲) عن أبي جعفر أن عليا صلى بالناس وهو جنب ، أو على غير وضوء ، فأعادوا وأمرهم أن يعيدوا (مصنف عبد الرزاق باب الرجل يؤم القوم وهو جنب أو على غير وضوء: ۳۵۱/۲) مذکورہ نصوص وااثار سے واضح ہوتا ہے کہ امام کی نماز فاسد ہوجائے تومقتدی کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔ بند