انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عروہ بن مسعود ثقفی کی سفارت عروہ بن مسعود ثقفی (قبیلہ بنو ثقیف کے سردار)نے اُٹھ کر کہا : میری نسبت تم کو بد گمانی تو نہیں ، سب نے کہا : نہیں، عروہ نے کہا : اچھا تو مجھ کو اجازت دو کہ میں خود جاکر معاملہ طئے کروں، محمد ﷺ نے معقول شرطیں پیش کی ہیں، غرض وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے، قریش کا پیغام سنایا اور کہا : محمدﷺ:فرض کرو کہ تم نے قریش کا استیصال کردیا تو کیا اس کی اور بھی کوئی مثال ہے کہ کسی نے اپنی قوم کو خود برباد کردیا ہو، اس کے سوا اگر لڑائی کا رخ بدلا تو تمہارے ساتھ یہ جو بھیڑ ہے گرد کی طرح اُڑ جائے گی، حضرت ابو بکر ؓ کو اس بدگمان پر اس قدر غصہ آیا کہ گالی دے کر کہا کہ کیا ہم محمد( ﷺ) کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، عروہ نے آنحضرت ﷺسے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ابو بکرؓ … عروہ نے کہا، میں ان کی سخت کلامی کا جواب دیتا؛ لیکن ان کا ایک احسان میری گردن پر ہے، جس کا بدلہ ابھی تک ادا نہیں کرسکا، عروہ آنحضرت ﷺ سے بے تکلفانہ گفتگو کررہا تھا اور جیسا کہ عرب کا قاعدہ ہے کہ بات کرتے کرتے مخاطب کی داڑھی پکڑ لیتے ہیں وہ ریش مبارک پر بار بار ہاتھ ڈالتا تھا، حضرت مغیرہ ؓ بن شعبہ جو ہتھیار لگائے آنحضرت ﷺ کی پشت پر کھڑے تھے اس جرأت کو گوارہ نہ کر سکے ، عروہ سے کہا: اپنا ہاتھ ہٹا لے ورنہ یہ ہاتھ بڑھ کر واپس نہ جا سکے گا ، پوچھا یہ کون شخص ہے جس نے محفل میں میری بے عزتی کی ، حضور ر ﷺ نے مسکرا کر ارشاد فرمایا : یہ مغیرہ ہے ، پوچھا کون مغیرہ ؟ فرمایا تیرا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ، یہ سن کر سٹپٹایا اور کہنے لگا ! ائے دغا باز اپنے محسن کو بھول گیا، میں نے تیرے جرم کو عکاظ میں دھویا ہے، یہ اشارہ تھا مغیرہ کے ہاتھوں ایک قتل کے خوں بہا ادا کرنے کی طرف ، غصہ میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا، عروہ نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ صحابہ ؓ کی حیرت انگیز عقیدت کا جو منظر دیکھا اس نے اس کے دل پر عجیب اثر کیا، قریش سے جا کر کہا کہ میں نے قیصرو کسریٰ و نجاشی کے دربار دیکھے ہیں مگر یہ عقیدت اور وارفتگی کہیں نہیں دیکھی، حضرت محمد( ﷺ) بات کرتے ہیں تو سناٹا چھا جاتا ہے ، کوئی شخص ان کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھ سکتا، وہ وضو کرتے ہیں تو جو پانی گرتا ہے اس پر خلقت ٹوٹ پڑتی ہے، بلغم یا تھوک گرتا ہے تو عقیدت کیش ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور چہرہ اور ہاتھوں پر مل لیتے ہیں ،