انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطان محمد خاں ثانی فاتح قسطنطنیہ سلطان مراد خان کی وفات کے وقت اُس کا بیٹا محمد خان ایشیائے کوچک میں تھا جس کی عمر اس وقت اکیس سال چند ماہ کی تھی،اس سے پیشتر محمد خان ثانی دو مرتبہ جب کہ اُس کی عمر صرف پندرہ سو لہ سال کی تھی باپ کی زندگی میں تخت نشین ہوچکا تھا،جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے مرادخان ثانی کی وفات کے بعد اراکین سلطنت نے ایشیائے کوچک میں محمد خان ثانی کے پاس خبر بھیجی اور وہ بلا توقف وہاں سے روانہ ہوکردردِانیال کو عبور کرکے ایڈریا نوپل پہنچا اوروہاں مراسمِ تخت نشینی ادا کئے گئے،شاہ سرویا کی بیٹی سے مراد ثانی کا ایک اوربیٹا تھا، جو ابھی صرف آٹھ مہینے کا بچہ تھا، جب محمد خان ثانی کی تخت نشینی کے مراسم ادا ہو رہے تھے اور اراکینِ سلطنت اطاعت و فرماں برداری کی بیعت کررہے تھے تو ینگ چری فوج کے سردار نے یہ حرکت کی کہ سلطان محمد خاں ثانی کی اطلاع کے بغیر اُس بچے کو حمام میں لے جاکر قتل کردیا، غالباً یہ کام اُس نو مسلم سردار نے محمد خاں ثانی کی حمایت میں کیا اوراپنے نزدیک اچھی خدمت بجالایا، کیونکہ یہ لڑکا جوان ہوکر اپنی ماں یعنی سروین شہزادی کے سبب سرویا والوں اور دوسرے عیسائیوں سے مدد پاکر سلطان محمد خاں ثانی کے لئے باعث تکلیف ہوسکتا تھا،لیکن سلطان محمد خاں ثانی نے ینگ چری سردار کے اس ظالمانہ وسفاکانہ فعل کو سخت ناپسند کیا اوراپنے اس سوتیلے بھائی کے قصاص میں اس کو قتل کیاچونکہ چھ سال پہلے محمد خاں ثانی اپنے باپ کے زمانے میں دو مرتبہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے لئے تخت نشین ہوکر کسی اولوعزمی اوربلند ہمتی کا اظہار نہ کرسکا تھا، اس لئے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ایک کمزور اورسست رائے سلطان ثابت ہوگا حالانکہ یہ قیاس کرنا ایک غلطی تھی اُس زمانے میں وہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا اوراب اکیس بائیس سال کا نوجوان تھا،یہ چھ سال اُس نے کھیل کود میں نہیں گذارے تھے ؛بلکہ وہ حکومت وسلطنت کی قابلیت بڑھانےمیں برابر ترقی کرتا رہا تھا عاملوں اورروھانی لوگوں کی صحبتوں نے اس کے اخلاق اور قوتِ ارادہ کو بہت کچھ پختہ کردیا تھا۔ یورپی مؤرخ عام طور پر اس کو اپنے صغیر سن سوتیلے بھائی کا قاتل بتا تے ہیں مگر وہ اپنی اس غلط بیان میں اس لئے معذور ہیں کہ محمد خاں ثانی قسطنطنیہ کا فاتح ہے اوراُس کو ملزم قرار دینا شاید عیسائی مؤرخ ثواب سمجھتے ہیں،حالانکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ینگ چری فوج کے سردار نے اُس بچے کو قتل کیا تھا، اس کابھی سب کو اقرار ہے کہ سلطان محمد خاں نے اُس سردار کو قصاص میں قتل کرایا مگر وہ کہتے ہیں کہ اپس سردار نےمحمد خاں ثانی کے حکم سے اُس کو قتل کیا تھا،لیکن سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سلطان محمد خاں کو سردست اس چھوٹے بچے سے کسی قسم کابھی کوئی اندیشہ نہ تھا،وہ اپنی تخت نشینی کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد بھی اس لڑکے کی جان لینے کی تدابیر عمل میں لاسکتا تھا،اس شیر خوار بچے کو تخت نشین کرنے کا کسی رکنِ سلطنت کو مطلق خیال تک بھی نہیں آیا تھا؛بلکہ سب ایڈریا نوپل میں محمد خان کا انتظار کررہے تھے،ینگ چری فوج کا سردار ایشیائے کوچک میں سلطان محمد خاں کے ساتھ نہیں آیا تھا؛بلکہ پہلے ہی سے ایڈریا نوپل میں موجود تھا،اگر یہ کام سلطان محمد خان کو کرانا تھا تو وہ اپنے اُن سرداروں میں سے کسی کو اس کام پر مامور کرتا جو اُس کے ساتھ ایشیائے کوچک سے آئے تھے اورجن پر اُس کو ہر طرح کا بھروسہ تھا، ایڈریا نوپل میں آتے ہی ایک ایسے سردار کو جو اُس کے لئے مانوس شخص نہ تھا یہ ظالمانہ حکم دینا معمولی احتیاط کے بھی خلاف تھا،پھر یہ کہ وہ سردار جب اپنے اس ناشدنی کام کی پاداش میں قتل کیا گیا تو اس نے اپنی جان بچانے کے لئے اس راز کو فاش نہ کیا، سروین شہزادی یعنی محمد خان کی سوتیلی ماں خود اُن لوگوں میں شامل تھی جو تخت نشینی کی مبارک باد دینے آئے،سلطان محمد خاں ثانی کی آئندہ زندگی میں اس قسم کی کوئی مثال نظر نہیں آتی اوراُس با حوصلہ، نیک دل اورباخدا سلطان سے ہرگز اس قسم کی احمقانہ حرکت کی توقع نہیں ہوسکتی،بات دراصل یہ ہے کہ ینگ چری فوج چونکہ سلطنتِ عثمانیہ کی بڑی لاڈلی فوج سمجھی جاتی تھی اس لئے اس فوج اوراس فوج کے سرداروں میں عام طور پر خود رائی و خود سری کے علامات پیدا ہونے لگے تھے،سلطان مراد خان ثانی کے زمانے میں بھی ان لوگوں سے اس قسم کے حرکات سرزد ہوچکے تھے،اس نوجوان سلطان کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے اُس سردار نے اسی قسم کا احسان اُس پر کرنا مناسب سمجھا،یہی دھوکا قسطنطنیہ کے قیصر قسطنطین کو ہوا جس کی وجہ سے اُس کو قسطنطنیہ اوراپنی جان دینی پڑی تفصیل اس اجمال کی آگے آتی ہے۔ ۸۵۲ھ میں سلطان مراد ثانی سے تین سال پیشتر قیصر جان پلیلو گس کے فوت ہونے پر قیصر قسطنطین دو ازدہم قسطنطنیہ میں تخت نشین ہوا، قسطنطین دو ازدہم بھی اپنے پیش رو کی مانند خوب چالاک وچوکس آدمی تھا، اُس نے سلطان مراد ثانی کی وفات اور سلطان محمد خاں ثانی کی تخت نشینی پر ایشیائے کوچک کے سرکش اورباغیانہ خیالات رکھنے والے امیروں کو سہارا دے کر فوراً ایک بغاوت برپا کرادی جس کے سبب سلطان محمد خاں کو ایشیائے کوچک میں جاکر باغیوں کو ٹھیک اوروہاں کے انتظام کو درست کرنا پڑا، ابھی سلطان محمد خاں ایشیائے کوچک کے انتظام سے فارغ نہ ہوا تھا کہ قیصر قسطنطین نے سلطان کے پاس پیغام بھیجا کہ سلطان مراد خان ثانی کے زمانے سے کاندان عثمانیہ کا ایک شہزادہ ارخان نامی ہمارے پاس نظر بند ہے اُس کے اخراجاتِ ضروریہ کے لئے جو رقم سلطانی خزانہ سے آتی ہے اُس میں اضافہ کرو ورنہ ہم اس شہزادہ کو آزاد کردیں گے اور وہ آزاد ہوکر تم سے ملک چھین لے گا، قیصر چونکہ سلطان محمد خان ثانی کو ایک کمزور طبیعت کا سلطان تصور کئے ہوئے تھا اس لئے اُس نے اس دھمکی کے ذریعہ سلطان سے روپیہ اینٹھنا اوراُس کو دبانا چاہا،اگر واقعی سلطان محمد خاں ایسا ہی کمزور اورپست ہمت ہوتا جیسا قیصر نے سمجھا تھا تو وہ ضرور ہی اس دھمکی سے ڈرجاتا اورقیصر قسطنطین کے نہ صرف اسی ؛بلکہ آئندہ مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا،لیکن سلطان محمد خاں ثانی سکندر یونانی اورنپولین فرانسیسی سے زیادہ قوی قلب وارادہ کا مالک تھا، وہ سمجھ گیا کہ اس طرح کام نہ چلے گا اورجب تک اس عیسائی سلطنت کا قصہ پاک نہ کردیا جائے گا،سلطنت عثمانیہ کا قیام واستحکام ہمیشہ معرضِ خطر ہی میں رہے گا، اُس وقت سلطان نے قیصر کے ایلیچیوں کو ٹال دیا اورکوئی صاف جواب نہ دیا۔ ایشیائے کوچک سے واپس آکر سلطان محمد خاں نے سب سے پہلا کام یہ کیا ہنی داس یا ہنی ڈیزبادشاہ ہنگری سے تین سال کے لئے صلح کا عہد نامہ کرلیا، اس عہد نامہ کے مکمل ہوجانے سے سلطان کو اپنی سلطنت کے شمالی حدود کی جانب سے اطمینان حاصل ہوگیا، اسی دوران میں نیگ چری فوج اوراُس کے سرداروں کی طرف سے بعدعنوانیاں ملاحظہ کرکے سلطان نے اُن کو قرار واقعی سزائیں دے کر اُن کی اصلاح کی،قیصر قسطنطنین نے دوبارہ اپنے ایلیچی ایڈریا نوپل میں سلطان کے پاس بھیجے اورپھر شہزادہ ارخان کے نفقہ کے اضافہ ورنہ اُس کے آزاد کردینے کی دھمکی دی اورنہایت سفیہانہ انداز سے اصرار کیا اس کا جواب بجز اس کے اورکیا ہوسکتا تھا کہ سلطان محمد خان ثانی نے ارخان کا نفقہ بالکل بند کردیا اور قیصر کے سفیروں کو نہایت ذلت کے ساتھ اپنے دربار سے نکلوا کر قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا، اب قیصر کی آنکھیں کُھلیں اور اُس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ میں نے جس کو روباہ سمجھا تھا وہ در حقیقت شیر ہے،چونکہ قیصر قسطنطین اپنی شجاعت اور ہوشیاری میں ممتاز اوربہت باہمت شخص تھا اُس نے یہ دیکھ کر کہ مجھ کو سلطان محمد خان سے ضرور دو دو ہاتھ کرنے پڑیں گے،بلا توقف جنگی تیاریاں شروع کردیں، قسطنطین کی روشن خیالی اور مآل اندیشی کی داد دینی پڑتی ہے کہ اُس نے عیسائیوں کے دو بڑے بڑے گروہوں میں اتفاق پیدا کرنا ضروری سمجھا اُس زمانے تک عیسائیوں کے دو بڑے بڑے گروہوں میں اتفاق پیدا کرنا ضرور سمجھا،اُس زمانے تک عیسائیوں کا فرقہ پر اٹسٹنٹ پیدا نہ ہوا تھا جس کو رومن کیتھولک عیسائیوں سے بہت سخت اوراہم اختلاف ہے ؛بلکہ اُ س زمانے میں تمام عالم عیسائیت عقیدہ کے اعتبار سے دو حصوں میں منقسم سمجھا جاتا تھا،ایک گروہ شہر روما کے پوپ کو اپنا پیشوا مانتا اوررومن چرچ کا ماتھت سمجھا جاتا تھا، دوسرا گروہ گریک چرچ یعنی یونانی گرجے کا پیرو اورقسطنطنیہ کے بشپ اعظم کو اپنا مذہبی پیشوا سمجھتا تھا جس کی سرپرستی کا فخر قیصر قسطنطنیہ کو حاصل تھا، ان دونوں گروہوں میں عقیدہ کا کچھ بہت بڑا فرق نہ تھا،عشائے ربانی میں رومن طریقے کے پیر وشراب کے ساتھ فطیری روٹی استعمال کرتے تھے اور قسطنطنیہ کے پیر وخمیری روٹی ضروری سمجھتے تھے،اس خمیری اورفطیری کے اختلاف سے دونوں گروہوں کے پادریوں کی وہی حالت ھی جو اس جہالت و تاریکی کے زمانہ میں ہم اپنے پیش ور مولویوں کو دیکھ رہے ہیں کہ ذرا ذرا سی باتوں مثلاً آ مین و رفع یدین پر بلا تامل کفر کے فتوے قلعہ شکن توپوں کی طرح داغتے اوراپنی بہادری پر مسرور ہوتے ہیں، قیصر قسطنطنین نے روما کے پوپ کو لکھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مذہبی اختلاف کو مٹادیں اور سب متحد و متفق ہوکر مسلمانوں کا مقابلہ کریں، میں بخوشی آپ کے عقائد کو تسلیم کرتا ہوں اورآئندہ قسطنطنیہ کا گرجا بھی آپ کے ہی ماتحت ہوگا، لہذا جس طرح بیت المقدس اورشام کی فتح کے لئے تمام برا عظم یورپ میں جہاد کا اعلان کیا گیا تھا اورعیسائی مجاہدین جوق در جوق جمع ہوکر مسلمانوں کے مقابلے کو پہنچ گئے تھے اسی اہتمام کے ساتھ اب قسطنطنیہ کے بچانے اور عثمانیہ سلطنت کو نیچا دکھانے کے لئے آپ کی طرف سے اعلان اور ترغیب ہونی چاہئے قیصر قسطنطنین کی یہ تجویز بہت کار گر اورمفید ثابت ہوئی،پوپ نے جس کا نام نکلسن پنجم تھا،پوری سرگرمی کے ساتھ عیسائیوں کو جہاد پر آمادہ ہونے کی ترغیب دی؛چنانچہ ہسپانیہ (اندلس) کے شمالی صوبوں اراگون وقسطلہ سے عیسائی مجاہدین کی زربدست اورکار آزمودہ فوجیں قسطنطنیہ پہنچیں، اسی طرح پوپ نے خود ایک زبردست فوج اپنے ایک نائب کارڈنبل کی ماتحتی میں جہازوں پر روانہ کی،وینس اورجنیوا کی بحری طاقتیں اوربری فوجیں بھی قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوگئیں، ادھر قسطنطین نے شہر قسطنطنیہ کی فصیل کو مضبوط اوربندرگاہ کو حفاظتی سامانوں سے محفوظ کرنا شروع کردیا، خاص شہر قسطنطنیہ کی آبادی میں ایک لاکھ سے زیادہ آدمی موجود تھے،باشندوں سے چندے وصول کئے گئے اور عام طور پر عیسائیوں کو ترغیب دی گئی کہ اب وہ آرام طلبی کو چھوڑ کر شہر کی حفاظت اوردشمن کے حملہ کی مدافعت میں اپنی تمام طاقتیں صرف کردیں،یورپ کے عیسائی مورخ حتی کہ اڈمنڈ اولیور اورای ایس کریسی بھی جو اپنی بے تعصبی اورراست گفتاری کے لئے شہرت رکھتے ہیں فتح قسطنطنیہ کے حالات بیان کرتے ہوئے اپنے یورپی اورعیسائی تعصب سے مغلوب ہوجاتے ہیں یہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح سلطان محمد خان ثانی کی ذات پر کوئی نہ کوئی الزام لگائیں ؛چنانچہ یہ لوگ قسطنطین کی فوج اوراس کی جنگی تیاریوں کو بیان کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کیونکہ اس طرح اُن کو سلطان محمد خان ثانی کی غیر معمولی شجاعت اورحیرت انگیز استقلال کا اقرار کرنا پڑا ہے،بہرحال سلطان محمد خاں ثانی کے آفتاب سے زیادہ روشن کارنامے ان منصف مزاج عیسائی مؤرخوں نے خون کے گھونٹ پی پی کر لکھے ہیں۔ سلطان محمد خاں ثانی نے ایک ہوشیار آہنگر اربان نامی نو مسلم کو جو ہنگری کا قدیم باشندہ اوراسلام قبول کرنے سے پیشتر قسطنطین کا نوکررہ چکا تھا حکم دیا کہ وہ بڑی بڑی زبردست مار کی توپیں بنانا شروع کرے چنانچہ متعدد توپیں تیار ہوئیں جن میں بعض بہت ہی بڑی اور وزنی گولہ پھینکنے والی تھیں،چند سال پیشتر یعنی سلطان مراد خاں ثانی کے عہدِ حکومت سے سلطنتِ عثمانیہ نے لڑائیوں میں توپوں کا استعمال شروع کردیا تھا مگر ابھی یہ کوئی بہت کار آمد آلۂ جنگ نہ تھا،قلعوں کی دیواریں مسمار کرنے میں توپ کا مرتبہ منجنیق سے کچھ زیادہ بلند نہ تھا؛چنانچہ یہ توپیں جو سلطان محمد خاں نے اربان سے تیار کرائیں اور جن کی نقل وحرکت اورایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں بڑی دقت اوردشواری پیش آتی تھی،وہ ایسی تھیں کہ ایام محاصرہ میں صبح سے شام تک ان سے صرف سات آٹھ مرتبہ فائر ہوسکتے تھے؛چنانچہ اسی لئے محاصرۂ قسطنطنیہ میں یہ کچھ بہت مفید ثابت نہیں ہوئیں، اسی طرح قسطنطین نے بھی اپنے توپ خانہ کو بہت مکمل و مضبوط بنالیا تھا،فتح قسطنطنیہ کے بعد تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ یورپ کے عیسائی سلاطین اور عثمانیہ سلاطین نے لڑائیوں میں توپ کے استعمال کو بہت ترقی دی اوریہ بہترین آلہ جنگ متوصور ہونے لگا۔ سلطان محمد خاں ثانی نے اپنی سلطنت کے ہر ایک حصہ میں نظم وانتظام اورامن وامان قائم رکھنے کے لئے سب سے پہلے اپنی کوشش و توجہ منعطف کی اور جب اس طرف سے اطمینان کلی حاصل ہوگیا تو قسطنطنیہ کے محاصرے کے لئے پچاس ہزار سوار اوربیس ہزار پیدل کی ایک پُر جوش اوربہادر فوج منتخب کی،سلطان محمد خاں ثانی کی فوج کا ستر ہزار ہونا کریسی نے بیان کیا ہے جو یقیناً مبالغہ سے خالی نہیں ہے کیونکہ دوران محاصرہ میں جو ۱،۶ ، اپریل سے ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء تک یعنی سات ہفتے قائم رہا، اس ستر ہزار فوج کے لئے سامانِ رسد کا مہیا ہونا ان حالات میں کوئی آسان کام نہ تھا۔ ۸۵۶ھ مطابق ۱۴۵۲ء سے طرفین کی جنگی تیاریاں علانیہ شروع ہوگئی تھیں، قیصر قسطنطین نے قسطنطنیہ کے ادنر سامان رسد اورغلہ وغیرہ حد سے زیادہ جمع کرلیا تھا، یورپ کے ملکوں سے نہ صرف جنگجو لوگوں کے جہاز آرہے تھے ؛بلکہ سامانِ جنگ اورسامان خورد و نوش سے لدی ہوئی کشتیوں کا تانتا بھی بندھا ہوا تھا،اٹلی اوردوسرے ملکوں سے معمار وانجنیر اورتجربہ کار جنگی سردار شہر قسطنطنیہ کی مضبوطی کے سامانوں کو مکمل کرنے کے لئے موجود ہوگئے تھے،سمندر کی جانب بندرگاہ کے دہانہ پر ایک مضبوط آہنی زنجیر اس طرح دونوں طرف باندھی گئی تھی کہ کسی جہاز کا بندر گاہ میں داخل ہونا کسی طرح ممکن نہ تھا، ہاں جب شہر والے خود چاہتے تھے کہ جہاز کو اندر آنے دیں تو اُس زنجیر کو سمندر کی گہرائی میں ڈھیلا کر کے ڈال دیتے تھے اور جہاز اندر داخل ہوجاتا تھا اس کے بعد زنجیر کو کھینچ دیا جاتا تھا اورپھر کسی غیر جہاز کا داخل ہوجانا غیر ممکن ہوتا تھا،شہر کی فصیل چودہ میل کے قطاع دائرہ میں نہایت مضبوط اورناقابل تسخیر تھی ،سمندر کی جانب یعنی جس طرف بندرگاہ تھی فصیل کسی قدر نیچی اور کمزور تھی کیونکہ اس طرف سے کسی حملہ یا محاصرہ کی توقع نہیں ہوسکتی تھی،فصیل کے چاروں طرف گہری خندق جو ناقابل گذر تھی کُھدی ہوئی تھی،فصیل کےباہر بھی جا بجا مضبوط بُرجوں کے ذریعہ خندق وفصیل کی حفاظت کے لئے توپیں اور مضبوط فوجی دستے تیر اندازوں کے مامور تھے، پُرانی تعمیر کے بُرجوں اور دیوار کے اُن حصوں کو جو بھاری توپوں کے چڑھانے اوراُن سے فائر کرنے کی حالت میں شکستہ ہوجانے کی استعداد رکھتے تھے از سرِ نو مضبوط ومستحکم بنایا گیا، اس طرح قسطنطنیہ کی حفاظت کا جس قدر سامان اوراہتمام ہوسکتا تھا وہ بدرجۂ اتم پورا کرلیا گیاتھا۔ سلطان بایزید یلدرم نے آبنائے باسفورس کے تنگ ترین مقام کے ایشیائی ساحل پر ایک قلعہ بنایا تھا،سلطان محمد خان ثانی نے جب قسطنطنیہ کی فتح کا ارادہ کیا تو اُس قلعہ کے مقابل یورپی ساحل پر ایک قلعہ بنانا شروع کیا اوریہی گویا اس کی سب سے پہلی علی الاعلان جنگی تیاری تھی،یہ قلعہ بہت جلد بن کر تیار ہوگیا اوراس پر توپیں چڑھادی گئیں جیسا کہ مقابل کے ایشیائی قلعہ پر بھی توپیں موجود تھیں،اس طرح آبنائے باسفورس کا دروازہ سلطا محمدخاں ثانی نے بند کردیا اور بحر اسود کو بحر مارمور اسے جدا کرکے قیصر کے جہازوں کو بحراسود میں آنے سے روک دیا،لیکن اس سے قسطنطین کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ اس کو دردانیال کے ذریعہ یورپی ممالک یعنی اٹلی واسپین وغیرہ سے امداد پہنچ رہی تھی،سلطان محمد خاں کے پاس کُل تین سو کشتیاں بتائی جاتی ہیں جو قریباً سب چھوٹی چھوٹی تھیں اوراُن میں سے ایک بھی ایسی بڑی نہ تھی جو قسطنطین کے چودہ بڑے بڑے جنگی جہازوں میں سے کسی چھوٹے سےچھوٹے جہاز کے برابر ہوا۔