انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام محمد بن ادریس الشافعیؒ (م:۲۰۴ ھ) امام محمد بن ادریس شافعی ؒ علم و فضل ،عقل وفہم،حدیث وفقہ،شعروادب اور انتساب وایام میں امتیازی مقام ومرتبہ کے مالک تھے،ان کو شعر وادب اورلغت وعربیت کا خاص ذوق تھا،اشعار کہتے تھے مگر چونکہ علماء کے لیے شاعری کو مناسب نہیں سمجھتے تھے اس لیے دینی علوم کے مقابلہ میں اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ نیز فرماتے ہیں کہ میں نے عربی شعر وادب اورلغت کو دین میں تعاون کے لئے حاصل کیا ہے ،امام شافعی کے حکیمانہ اقوال میں عربی ادب وانشاء کی حلاوت ہے اوران میں حکمت ودانش کے ساتھ فصاحت وبلاغت کی چاشنی ہے۔ ۱۔ایک آدمی نے ان سے کہا کہ فرمائیے کیا حال ہے،آپ نے جواب دیا:"اس کی حالت کیا ہوگی جس سے اللہ تعالیٰ قرآن کا، رسول اللہ ﷺ سنت کا، اہل وعیال روزی کااورملک الموت قبض روح کا مطالبہ کرتا ہے" ۲۔یہ علم دین کوئی شخص مالداری اورعزت نفس سے حاصل کرکے کامیاب نہیں ہوسکتا،البتہ جو شخص نفس کی ذلت،فقرو محتاجی اورعلم کے احترام کے ساتھ اس کو حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔ ۳۔جو عالم فتویٰ دے گا اجر پائے گا،البتہ دین میں غلطی پر اجر نہیں ملے گا اس کی اجازت کسی کو نہیں ہے اورثواب اس لیے ملے گا کہ جو غلطی اس نے کی ہے اس میں اس کی نیت برحق تھی۔ ۴۔طبیعت زمین ہے اورعلم بیج ہے اور علم طلب سے ملتا ہے،جب طبیعت قابل ہوگی تو علم کی کھیتی لہلہائے گی اوراس کے معانی اورمطالب شاخ درشاخ پھیلیں گے۔ ۵۔بہترین استدلال وہ ہے جس کے معانی روشن اوراصول مضبوط ہوں اورسننے والوں کے دل خوش ہوجائیں۔ ۶۔طلب حاجت کے لیے امام شافعی ؒ کی یہ دعاء علماء کے درمیان مجرب ہے اوراس کی قبولیت مشہور ہے: ((اللّٰھُمَّ یا لَطیفُ اَسْأَلُکَ اللُّطْفَ فیما جَرَتْ بِہ المقادیرُ))اس دعاء کے پڑھنے سے گمشدہ چیزمل جاتی ہے۔ (سیرت ائمہ اربعہ:۱۸۰، ۱۸۳) ۷۔یونس مدنی کہتے ہیں "میں نے امام شافعی سے زیادہ سمجھ دار اورعقل مند انسان نہیں دیکھا" ایک دن میں نے ان سے کسی مسئلہ کے بارے میں مناظرہ کیا پھر ہم اپنی مصروفیات میں مشغول ہوگئے،چند دن کے بعد مجھ سے ملے،میرا ہاتھ پکڑا اورفرمایا: ((یا ابو موسیٰ! الا یستقیم ان نکون اخوانا وان لم نتفق فی مسالۃ)) "اے ابو موسی! کیا یہ درست روشن نہیں ہے کہ ہم کسی مسئلہ میں اختلاف کے باوجود آپس میں بھائیوں کی طرح رہیں" (سیر اعلام النبلاء:۱۰/۱۷) ۸۔یہ فقہ قرآن وسنت اور علماء کے اقوال پر مشتمل ہے،علم کلام جیسے مشکل علم میں کیا پڑتا جس میں بے شمار مواقع ایسے ہیں کہ انسان گمراہی کے راستہ پر چل پڑتا ہے۔ ( سیر اعلام النبلاء:۱۰/۲۶) ۹۔جو شخص مصیبت پر صبر نہیں کرسکتا تو موت کے علاوہ کوئی چیز اسے نفع نہیں دے سکتی۔ (دیوان الامام الشافعی:۵۷) ۱۰۔جو تمہارے سامنے کسی کی چغل خوری کرے گا وہ تمہاری بھی چغل خوری کرے گا اورجو تمہارے سامنے دوسروں کی باتیں نقل کرے گا وہ دوسروں کے سامنے تمہاری باتیں بھی ضرور نقل کرے گا، جو شخص تم سے خوش ہوکر تمہاری ایسی باتوں کی تعریف کرے گا جو تم میں نہیں تو وہ ناراض ہوکر تم میں ایسے عیوب ضرور نکالے گا جو تم میں نہیں۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں ،ص:۸۰،بحوالہ توالی التاسیس لمعالی محمد بن ادریس ،ص:۱۳۶) ۱۱۔تین کام بہت سخت ہیں:۱۔پیسہ کی کمی کے وقت سخاوت کرنا،۲۔تنہائی میں پرہیز گار رہنا،۳۔جن سے خوف یا امید ہو ان کے سامنے حق بات کہنا۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں،ص:۸۰،بحوالہ توالی التاسیس لمعالی مبحمد بن ادریس،ص:۱۳۷) ۱۲۔انسانوں کو قابو میں رکھنا جانوروں کو قابو میں رکھنے سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں،ص:۸۸،بحوالہ آداب الشافعی ومناقبہ لابی حاتم الرازی،م:۵۳۲۷، ص:۳۱۴) ۱۳۔تم سارے لوگوں کو درست نہیں کرسکتے اس لئے وہی کام کرو جس میں تمہاری اپنی خیر ہو۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں ،ص:۸۹،بحوالہ آداب الشافعی ومناقبہ لابی حاتم الرازی،م:۵۳۲۷،ص:۳۱۴) ۱۴۔عقل مند وہ ہے جس کی عقل ہر(برے) کام سے اسے روک دے۔ ۱۵۔شرافت کے چار ستون ہیں: ۱۔حسن اخلاق ،۲۔تواضع، ۳۔سخاوت،۴۔عبادت گزاری ۱۶۔لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے سے برے لوگوں کی صحبت ملتی ہے اورمیل جول بالکل ختم کردینے سے دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں لہذا دونوں کے درمیان اعتدال پیدا کرو۔ ۱۷۔ہوشیار اورعقل مند وہ ہے جو ہوش مندی کے ساتھ تغافل بھی اختیار کرے،یعنی لوگوں کی کمزوریوں اورغلطیوں سے چشم پوشی کرتا رہے۔ ۱۸۔جو اپنے بھائی کو خاموشی سے نصیحت کرے اس نے (حقیقی)نصیحت کی اورجس نےسب کے سامنے نصیحت جھاڑی اس نے اسے رسوا کیا۔ ۱۹۔اگر کوئی شخص اپنے آپ کو تیر کی طرح بالکل سیدھا بھی کرلے تب بھی کوئی نہ کوئی اس کا دشمن ضرور ہوگا۔ ۲۰۔تفریح میں باوقار رہنا بے وقوفی کی علامت ہے۔ ۲۱۔جو شخص چاہتا ہو کہ اللہ تعالی اسے حکمت کا نور عطا کرے اسے حتی الامکان خلوت اختیار کرنی چاہیے،کھانا کم کھانا چاہیے،بے وقوفوں کے ساتھ میل جول نہ رکھے اوران علماء سے دور رہے جو ناانصاف اوربے ادب ہوں۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں ،ص:۹۱،بحوالہ مناقب الامام الشافعی للامام فخر الدین الرازی،ص:۳۴۱) ۲۲۔اے ربیع!فضول بات مت کرو اوریاد رکھو جب بات تم نے منہ سے نکال دی تو وہ تمہاری مملوکہ نہیں رہی ؛بلکہ تم اس کے مملوک بن گئے (یعنی اس بات کے تمام نتائج کے ذمہ دار تم ہوگے) ۲۳۔ایک عالم سے فرمایا"اللہ تعالیٰ نے تمہیں علم کا نور عطا کیا ہے اسے گناہوں کی ظلمت سے مت بجھانا" ۲۴۔عام لوگوں کا فقر مجبوری کا ہوتا ہے؛جبکہ علماء کا فقران کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے (یعنی اگر وہ دنیا کمانا چاہیں تو کماسکتے ہیں لیکن علم کی مشغولیت کو دنیا پر ترجیح دے کر قناعت کی زندگی اختیار کرلیتے ہیں) (ائمہ اربعہ کے دربار میں،ص:۹۱،بحوالہ مناقب الامام الشافعی للامام فخر الدین الرازی،ص:۲۴۲) (۱)مجھ سے امام مالک نے فرمایا اے محمد !تم عمل کو آٹا بناؤ اور علم کو نمک یعنی عمل زیادہ کرو ۔ (۲)عالم کو مناسب ہے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان مخفی نیک عمل ہوں ، جو علم یا عمل لوگوں کے سامنے ظاہر ہوجاتا ہے وہ آخرت میں بہت کم فائدہ دیتا ہے ۔ (۳)دنیا میں سب سے کم آرام میں رہنے والا حاسد اور کینہ ور ہے ۔ (۴)علماء کے لئے سب سے زیادہ زینت بخش چیز فقر و قناعت اور اس پر راضی رہنا ہے ۔ (۵)جس پر دنیا کی محبت کا غلبہ ہوجائےگا تو پھر اس کے لئے دنیا داروں کی غلامی لازم ہوجائے گی ۔ (۶)لوگوں میں زیادہ رفیع القدر وہ ہے جو اپنی کوئی قدر نہ جانے ، اور بڑا صاحبِ فضل وہ ہے جو اپنا کوئی فضل و شرف نہ پہچانے ۔ (۷)جو شخص خدمت کرے گا تو وہ مخدوم ہوجائے گا ۔ (۸)تکبر کمینوں کے اخلاق میں سے ہے ، اور قناعت مورثِ راحت ہے ۔