انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنگ بدر ابو سفیان نے ابو جہل کے پاس خبر بھیجی کہ ہم مکہ پہنچ گئے ہیں،اب واپس چلے آؤ، لیکن ابو جہل اپنے جرار لشکر پر مغرور تھا، اس کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ویسے ہی چلا جائے،ابو جہل درحقیقت یہ لشکر صرف قافلہ ہی کی حفاظت کے لئے لے کر نہیں نکلا تھا؛بلکہ اس سے پیشتر عمرو بن حضرمی ایک شخص قریش کا حلیف بعض مسلمانوں کے ہاتھ سے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے مہینے میں بطن نخلہ کی طرف بعض حالات کی تحقیق کے لئے بھیجا تھا،ماراگیا تھا، قریش نے عمرو بن حضرمی کے قتل کو بہانہ بناکر جنگ کی تیاری مکمل کرلی تھی اوروہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہونے ہی والے تھے کہ ضمضم بن عمرو قافلہ والوں کی طرف سے استمداد کے لئے پہنچا اورابو جہل جو پہلے سے روانگی پر آمادہ تھا ،روانہ ہوگیا؛چنانچہ ابو جہل برابر کوچ ومقام کرتا ہوا مدینہ کی طرف بڑھتا ہوا چلا آیا، قریش کے لشکر کی روانگی کا حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا اوریہ بھی معلوم ہوا کہ ابو جہل،عتبہ،شیبہ ،ولید،حنظلہ ،عبیدہ،عاصی،خرث ،طعیمہ،زمعہ ،عقیل، ابو البختری،مسعود،بنیہ،نبہ،نوفل ،سائب ،رفاعہ وغیرہ تمام بڑے بڑے سردار قریش کے اس لشکر میں موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سُن کر ایک مجلسِ مشورت منعقد کی اور صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگر گوشے اورمنتخب لوگ تمہاری طرف بھیجے ہیں، اُن کا مقابلہ کرنے کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے، اول حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اُن کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے ان کے بعد حضرت مقدادؓ نے نہایت شجاعت وبہادری کے کلمات فرمائے اورکہا کہ ہم اُن بنی اسرائیل کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا تھا کہ فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون(تو اورتیرا رب دونوں جاکر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے تماشا دیکھیں گے) اس کے بعد آپ نے پھر فرمایا کہ لوگو! ان کفار سے لڑائی کے بارے میں تمہارا کیا مشورہ ہے،اس دوبارہ فرمانےسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامنشاء یہ تھا کہ انصارؓ کی رائے بھی معلوم ہو ؛کیونکہ مذکورہ ہر سہ حضرات مہاجرینؓ میں سے تھے، انصارسےجس بات پر بیعت لی گئی تھی وہ یہ تھی کہ مدینہ پر جب بیرونی دشمن حملہ آور ہوگا تو اس سے لڑیں گے، یہ عہد نہیں تھا کہ مدینہ سے باہر نکل کر کسی سے جنگ کریں گے،انصارؓ فوراً اس بات کو سمجھ گئے اوران میں سے حضرت سعد بن معاذؓ کھڑے ہوئے اورعرض کیا کہ آپ کا روئے سخن شاید ہم لوگوں کی جانب ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں !حضرت سعدؓ نے فرمایا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول یقین کرتے ہیں،یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے مقابلہ کو جائے اور ہم گھروں میں بیٹھے رہیں،یہ کفار تو ہم جیسے آدمی ہی ہیں،ہم اُن سے کیا ڈریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہم کو حکم دیں گے کہ سمندر میں کود پڑو تو ہم بلادریغ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کریں گے۔