انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قرآن کریم کی کلیدی آیات اللہ تعالی نے قرآن کریم میں چند ایسی کلیدی آیات نازل فرمادیں جن کے تحت حدیث کی ہر جزئی قرآن پاک کا حکم بن جاتی ہے، چند آیات ملاحظہ کیجئے۔ (۱)"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔ (الاحزاب:۲۱) ترجمہ: بے شک تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ پس چاہئے کہ ہر معاملہ ہر ایک حرکت و سکون اور نشست و برخاست میں اس ذات گرامی کے نقش قدم پر چلیں۔ (۲)"وَمَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"۔ (الحشر:۷) ترجمہ:اوراللہ کا رسول جو تمہیں دے لو اورجس سے منع کرے اس کو چھوڑدو۔ یہ آیت اپنے عموم میں پیغمبر خدا کے ہر فیصلے اورہر نہی کو حاوی ہے اورحضورؓ کے صحابہ ایسے بہت سے موقعوں پر اس آیت سے استدلال کرتے رہے ہیں۔ (۳)"یَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ"۔ (النساء:۵۹) ترجمہ: اے ایمان والوحکم مانو اللہ کا اورحکم مانو(اس کے) رسول کا۔ قرآن کریم کی اس دعوت کے تحت رسول اللہﷺ کی پیروی کرنے والا خود خدا تعالی کے حکم ہی کی پیروی کررہا ہے۔ (۴)"مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"۔ (النساء:۸۰) ترجمہ: جو اللہ کے رسول کی اطاعت کرتا ہے پس بیشک وہ اللہ کی اطاعت کرچکا۔ یہاں رسول کی اطاعت صیغہ مضارع (Present) سے بیان فرمائی جو رہتی دنیا تک جاری رہے گی اوراللہ کے اطاعت کو ماضی (Past) سے تعبیر فرمایا کہ مومن ایمان لانے کے ساتھ ہی اسی اصول کو تسلیم کرچکا تھا کہ زندگی کی ہر ضرورت میں رسول کی اطاعت کی جائے گی اوراسی کے تحت وہ اطاعت رسول کررہا ہے، یہ وہ کلیدی آیات (Key Verses) ہیں جن کے تحت جمیع جزئیات حدیث آجاتی ہیں اورقرآن کریم جمیع تعلیمات رسول پر حاوی قرار پاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت عمران بن حصینؓ (۵۲ھ) کے ہاں علمی مذاکرہ ہورہا تھا کہ ایک شخص نے کہا "لاتحدثوا الابما فی القرآن" (قرآن کے سوا اوربات نہ کیجئے) حضرت عمرانؓ نے اسے کہا کہ: "تو احمق ہے، کیا قرآن میں ہے کہ ظہر اور عصر کی چار رکعتیں ہیں اوران میں قرآن جہری نہیں؟ مغرب کی تین رکعتیں ہیں پہلی دو میں قرات جہری ہے اور تیسری میں آہستہ؟ عشاء کی چار رکعتیں ہیں دو میں قرات جہری ہے اور دو میں آہستہ؟ کیا یہ قرآن میں ہے"۔ (المصنف عبد الرزاق:۱۱/۲۵۵) خطیب بغدادی (۴۶۳ ھ) روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اسے یہ بھی کہا: "اگر تم اور تمہارے ساتھی واقعی صرف قرآن پر ہی اعتماد کرتے نہیں توکیا تمہیں قرآن میں ملتا ہے کہ ظہر، عصر اور مغرب کی چار چار اور تین (فرض) رکعت ہیں اور یہ کہ(سورت فاتحہ کے بعد) صرف پہلی دو رکعتوں میں قرآن کریم پڑھا جاتا ہے ؟ کیا تمہیں قرآن کریم میں ملتا ہے طواف کعبہ کے سات چکر ہیں؟ اوریہ کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی ضروری ہے"۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۵) حضرت عمران بن حصینؓ نے یہاں ایک نہایت اہم اصول کی طرف توجہ دلائی ہے، عمل رسالت صرف نماز اوراس کی رکعات یا حج اور اس کے اشواط کا ہی بیان نہیں، پورا دائرہ شریعت عمل رسالت کے گرد گھومتا ہے،صحابہ کرام کے سامنے راہ عمل صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرتے یا فرماتے صحابہ اس راہ پر چل پڑتے، کبھی کسی نے آپ سے نہ پوچھا تھا کہ اس باب میں اللہ کا حکم کیا ہے، ان کا پختہ عقیدہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی قرآنی اجمال کی تفصیل ہے (مرقات:۱/۲۴۰) آپ زندگی کے ہر قدم میں الہٰی حفاظت کے سائے میں ہیں، آپ کے عمل کی اگر کوئی شرعی حیثیت نہ ہو تو سینکڑوں اجمالات ِقرآن عملاً معطل ہوکر رہ جاتے ہیں۔