انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
خطبہ کوئی اور دے، امامت کوئی اور کرے بہتر طریقہ یہ ہے کہ جوخطبہ دے وہی نماز پڑھائے؛ لیکن خطبہ دینے والا اور ہو اور نماز پڑھانے والا اور، تب بھی خطبہ اور نماز ادا ہوجاتے ہیں؛ بشرطیکہ نماز پڑھانے والا خطبہ میں حاضر رہا ہو؛ خواہ پورے خطبہ میں حاضر رہا ہو یا خطبہ کے بعض حصہ میں حاضر رہا ہو: وَلَايَنْبَغِي أَنْ يُصَلِّيَ غَيْرُ الْخَطِيبِ لِأَنَّ الْجُمُعَةَ مَعَ الْخُطْبَةِ كَشَيْءٍ وَاحِدٍ فَلَايَنْبَغِي أَنْ يُقِيمَهَا اثْنَانِ وَإِنْ فَعَلَ جَازَ۔ (ردالمحتار:۳/۱۱) اس لیے بہتر ہے کہ خطیب صاحب ہی نماز بھی پڑھایا کریں۔ عربی زبان شعائر اسلام کا درجہ رکھتی ہے، اس لیے بہتر تویہی ہے کہ عربی زبان ہی میں خطبہ دیا جائے؛ بلکہ اکثر فقہاء کے نزدیک اگرکوئی شخص عربی میں خطبہ دے سکتا ہوتواس کے لیے اُردو میں خطبہ دینا جائز نہیں؛ لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کے مطابق غیرعربی زبان میں بھی خطبہ دیا جاسکتا ہے، فتاویٰ سراجیہ میں ہے کہ اگرفارسی زبان میں خطبہ دے تویہ بھی جائز ہے: وَلَوْخَطَبَ بِالْفَارسِیَّۃِ یَجُوْزُ۔ (فتاویٰ سراجیہ:۱۷) اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خطیب صاحب خطبہ سے پہلے اُردو میں تقریر کیا کریں اور خطبہ عربی زبان میں دیں؛ تاکہ لوگوں کوتذکیر کا مقصد بھی حاصل ہوجائے اور سلفِ صالحین کے طریقہ کی پیروی بھی ہو؛ لیکن اگرکسی جگہ اس کی مخالفت میں، فتنہ اور انتشار کا اندیشہ ہوتو چونکہ ایک قول غیرعربی زبان میں خطبہ کا موجود ہے اور بہت سے علماء نے اس کوترجیح دی ہے، اس لیے زیادہ شدت اور اصرار سے کام نہیں لینا چاہیے؛ کیونکہ مسلمانوں کی اجتماعیت کوبرقرار رکھنا ان جزوی اختلافات سے زیادہ اہم ہے۔ (کتاب الفتاویٰ:۳/۶۱،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ احسن الفتاویٰ:۴/۱۱۱، زکریا بکڈپو، دیوبند۔ فتاویٰ محمودیہ:۸/۲۱۵،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ عثمانی:۱/۵۵۹، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، یوپی۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۷۱، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی)