انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہشام کی زندگی پر تبصرہ مسجد قرطبہ کی تعمیر میں اسی ہزار دینار امیر عبدالرحمن نے صرف کیے تھے اور ایک لاکھ ساٹھ ہزار دینار سلطان ہشام نے اس مسجد کی تعمیر وتکمیل میں خرچ کیے ،سلطان ہشام اپنے باپ کی طرح سفید مگر نہایت سادہ اور کم قیمت لباس پہنتا تھا اس کو شکار کا شوق تھا لیکن نہ ایسا کہ امور سلطنت اور دین وملت کے کاموں میں حارج ہو آخر ایام حیات میں اس کو بھی ترک کردیا تھا حاجت مندوں کے لیے اس کا دربارہمیشہ کھلا ہوا تھا ،مظلوموں کو اپنی دادرسی میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی تھی،محتاجوں کی خبر گیری میں وہ خود راتوں کو اپنا آرام ترک کردیتا تھا ،مسافروں کو خود لےجاکر کھانا کھلاتا،اندھیری راتوں میں شہر کے گلی کوچوں میں گشت کرتا اور محتاجوں،بیواؤں،مسکینوں کی دستگیری میں بڑا لطف پاتا ،چوروں،ڈاکوؤں اور مجرموں سے جوزر جرمانہ وصول کرتا وہ سکاری خزانہ میں داخل نہ ہوتا بلکہ رعایا ہی کے بہبود کے کاموں میں صرف کیاجاتا،لڑائیوں میں جولوگ اتفاقاً عیسائیوں کی قید میں چلےجاتے ان کو سرکاری خزانے سے فدیہ دے کر آزاد کرایاجاتا ۔ سلطان ہشام نے قسم کھانے کو ایک بھی مسلمان عیسائیوں کی قید میں باقی نہ چھوڑا سب کو آزاد کرالیا تھا،اندلس میں ایک مسلمان نے مرتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ اس کے ترکہ سے ایک مسلمان قیدی عیسائیوں کی قید سے آزٓد کرایا جائے چنانچہ تمام عیسائی ممالک چھان مارا مگر کوئی مسلمان عیسائیوں کی قید میں نہ ملا کیونکہ سلطان ہشام نے تمام مسلمانوں کے پہلے ہی آزاد کرادیا تھا، سلطان ہشام ایک مکان خریدنا چاہتا تھا اور اس مکان کے ملک سے گفتگو ہورہی تھی اسی اثناء میں سلطان کو عملوم ہوا کہ اس مکان کے قریب رہنے والا ایک شخص اس مکان کو خریدنا چاہتا ہے مگر وہ سلطان کی وجہ سے اس مکان کی خریداری کے ارادہ کو ترک کرچکا ہے ،یہ سن کر سلطان ہشام نے ایشے تجربہ کار اور دین دار لوگ مقرر کیے تھے جو صوبوں کے عاملوں کے طرز حکومت عدل وانشاف اور دفاتر کی جانچ پڑتال کرتے اور ہر ایک صوبہ میں جاکر وہاں کی رعایا سے وہاں کے حاکموں کے متعلق شکایات سنتے تھے۔ سلطان ہشام کے عہش حکومت میں قرطبہ کے اندر وہاں کے امیروں اور مالدار لوگوں نےبڑی بری خوبصورت اور عظیم الشان عمارتیں بنوائیں جس سے شہر کی رونق اور خوبصورتی میں اضافہ ہوگیا تھا ،اور علمی مجالس کا سلسلہ تو امیر عبدالرحمن کے زمانے سے خوب زور وشور کے ساتھ جاری تھا،لیکن سلطان ہشام نے اس علمی ترقیات کے سلسلے کو ترقی دینے کے علاوہ سن سے بڑا کام یہ کیا کہ مدارس میں عربی زبان کو لازم قرار دیا،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز میں اندلس کے عیسائی عربی زبان سے واقف ہوکر قرآن مجید اور دین اسلام سے واقفیت حاصل کرنے لگے اور عیسائیوں کی وہ وحشت اور نفرت جو مسلمانوں سے تھی یکسر دور ہوکر اس کی جگہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں تعلقات محبت ومودت قائم ہونے لگے،دونوں قومیں ایک دوسرے کی رعیات کرنے لگیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان عام طور پر عیسائی عورتوں سے شادیاں کرنے لگے ،عیسائیوں نے خود ہی اسلامی لباس پہننا شروع کردیا۔ سلطان ہشام کے عادات وخصائل اور طرز زندگی میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ بہت مشابہت تھی ،اندلس کی تمام رعایا نے ہشام کو سلطان عادل کا خطاب دیا اور اسی نام سے ہر جگہ ذکر کیاجاتا ہے۔ سلطان ہشام اپنے باپ عبدالرحمن سے زیادہ عابد ،زاہد اور مذہبی شخص تھا امیر عبدالرحمن کی سطوت اور بانی سلطنت ہونے کی حیثیت سے مولیوں اور مولوی مزاج لوگوں کو دربار شاہی میں ایک درجے تک اقتدار حاصل کرنے کا موقعہ دیا تھا لیکن سلطان ہشام کے عہد حکومت میں فقہاء کا اقتدارسب پر فائق تھا۔ اسی زمانے میں فقہاء کے الگ مذاہب کی بنیاد رکھی جارہی تھی ،حضرت امام مالک بن انس ؒ کی مدینہ میں بڑی شہرت تھی اور حجاز میں فقہ ماکی کی پیروی عام طور پر لوگ کرنے لگے تھے ،حضرت امام مالک کی خذمت میں اندلس کے بعض مسلمان آئے اور کچھ عرصہ رہ کر اندلس واپس گئے حضرت امام مالک نے سلطان ہشام کے حالات سن کر بڑی محبت وعقیدت کا اظہار کیا چنانچہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں کوئی شخص اگر خلیفۃ المسلمین ہونے کا مستحق ہے تو وہ صرف ہشام بن عبدالرحمن ہے امام کا یہ خیال بالکل درست اور بجا تھا کیونکہ ہشام علاوہ زاہد وعابد ہونے کے عقلمند ومدبر اور بہادر بھی تھا وہ بہادری اور قابلی سپہ سالاری میں اپنے باپ کا ہمسر اور مہد وعبادت میں اپنے باپ سے بڑھ کرتھا۔ امام مالک کے یہ کلمات عباسیوں کو سخت ناگوار گزرتے تھے اور اسی لیے عباسیوں کے ہاتھوں سے انہوں نے اذیتیں برداشت کیں ہشام کی ابتدائی عہد حکومت میں قرعوس بن عباس، عیسی بن دیناراور سعید بن ابی ہند جو ملک اندلس کے مشہور فقہاء اور علماء میں سے تھے حج کے ارادے سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے ان کے ساتھ اور بھی علماء اور اکابر تھے ان لوگوں کی جب حضرت امام مالک بن انس سے ملاقات ہوئی تو بہت متاثر ہوئے چند روز ان کی اشارت کرنے لگے ان کی تبلیغ کا یہ اثر ہوا کہ اندلس کے قاضی القضاۃ ابوعبداللہ زید نے بھی مالکی مسلک کو پسند کیا ،سلطان ہشام انہی لوگوں ککی سب سے میادہ قدر ومنزلت رکتا تھا اور انہی لوگوں کو زیادہ اپنی صحبت میں رکھتا تھا ،لہذا سلطان نے بھی حضرت امام مالک کے مذہب کو قبول کرکے حکم دیا کہ ہر سال سرکاری خزانہ سے ان لوگوں کے مصارف برداشت کیے جائیں جو حضرت امام مالک کی خدمت میں فقہ اور حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جائیں چنانچہ نومسلم عیسائیوں اور نومسلموں کی اولاد نے اس طرف زیادہ توجہ کی اور حقیقت یہ ہے کہ ان نومسلموں میں دینی احکام کی پابندی اور عبادات کا زیادہ شوق تھا سلطان ہشام اور شیخ الاسلام ابوعبداللہ کے مالکی مسلک اختیار کرنے کے نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت کا مذہب مالکی ہوگیا اور تمام ملک میں مالکی فقہ کے موافق قاضیوں کے فیصلے صادر ہونے لگے ہشام کے عہد حکومت میں صدقات وزکوۃ کتاب وسنت کے بالکل موافق وصول کیے جاتے تھے۔