انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عیسائیوں سے صلح نامہ اس صلح نامہ کی بعض اہم شرائط یہ تھیں: (۱)مسلمانوں کو اختیار ہوگا کہ شہر کے اندر رہیں یا باہر چلے جائیں، کسی مسلمان کے جان ومال کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا یاجائے گا۔ (۲)مسلمانوں کے مذہبی امور میں عیسائی کوئی دخل نہ دیں گے۔ (۳)کوئی عیسائی مسجد میں نہ گھسنے پائے گا۔ (۴)مساجد اوراوقاف بدستور قائم رہیں گے۔ (۵)مسلمانوں کے معاملات شرع اسلام کے موافق مسلمان قاضی طے کریں گے۔ (۶)طرفین کے قیدی رہا کردئیے جائیں گے۔ (۷)اگر کوئی مسلمان اندلس سے افریقہ جانا چاہے تو سرکاری جہاز میں وہ افریقہ پہنچا دیا جائے گا۔ (۸)جو عیسائی مسلمان ہوگئے ہیں وہ اسلام کے ترک کرنے پر مجبور نہ کئے جائیں گے۔ (۹)اس جنگ میں جو مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا ہے وہ بدستور اُن کے پاس رہے گا۔ (۱۰)موجودہ ٹیکس کے علاوہ کوئی نیا ٹیکس مسلمانوں پر نہ لگایا جائے گا۔ (۱۱)تین سال تک مسلمانوں سے کسی قسم کا ٹیکس نہ لیا جائے گا جو ٹیکس وہ اب ادا کررہے ہیں وہ بھی تین سال تک معاف رہے گا۔ (۱۲)سلطان ابو عبداللہ کے سپرد البشرات کی حکومت کردی جائے گی۔ (۱۳)آج سے ساٹھ روز کے اندر قلعہ الحمراء توپ خانہ اور دیگر سامانِ جنگ جو اس وقت قلعہ میں موجود ہے اس پر عیسائیوں کا قبضہ کرادیا جائے گا۔ (۱۴)آج سے ساٹھ روز کے اندر اس معاہدہ کی شرائط کی تکمیل پورے طور پر کردی جائے گی۔ (۱۵)شہر غرناطہ ایک سال تک آزاد چھوڑ دیا جائے گا، سال بھر کے بعد عیسائی شرائط بالا کی پابندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پرقبضہ کریں گے۔ اس عہد نامہ پر یکم ربیع الاوّل ۸۹۷ھ مطابق ۳ جنوری ۱۴۹۲ء کو دستخط ہوئے تھے ،اس کی خبر اہل شہر اور فوج سے پوشیدہ نہ رہ سکی، عام طور پر بددل پھیل گئی اورآوازیں بلند ہونے لگیں کہ سلطان ابو عبداللہ نے مفت سلطنت کو ضائع کردیا،سلطان بہت پریشان ہوا اوراس خیال سے کہ شہر والوں کی بغاوت کہیں بنابنایا کام نہ بگاڑدے، ساٹھ روز پورے ہونے سے پہلے ہی یعنی ۱۲ربیع الاول ۸۹۷ھ کو قصر الحمراء عیسائیوں کے سپرد کردیا،فردی نند نے اندلس کے سب سے بڑے پادری منذورہ کو حکم دیا کہ وہ مع فوج پہلے شہر میں داخل ہو اور قلعۂ حمراء کے سب سے بلند برج پر سے اسلامی نشان کو گرا صلیب نصب کردے تاکہ اس نیک شگون کو دیکھتے ہی بادشاہ مع اپنی ملکہ ازبیلا کے شہر میں داخل ہو، جب سلطان ابو عبداللہ نے منذورہ کو قلعہ میں آتے دیکھا تو مع بچاس امیروں کے گھوڑے پر سوار ہوکر قلعہ سے باہر نکل آیا اُس وقت کی کیفیت کا تصوّر ہر شخص کرسکتا ہے کہ شہر پر یسی اداسی چھائی ہوئی ہوگی ،مسلمانوں کے دلوں پر گیاگذر رہی ہوگی، عیسائیوں کی خوشی کا حال بھی تحریر میں نہیں آسکتا،عیسائی بادشاہ اور اُس کی ملکہ فوجی لباس میں اپنے لشکر کے ساتھ صلیب کے بلند ہونے کا انتظار کررہے تھے سب کی نگاہیں قصر حمراء کے سب سے بلند برض کی طرف لگی ہوئی تھیں کہ سامنے سے ابو عبداللہ نے شاہِ قسطلہ کے قریب آکر کنجیاں حوالےکیں اورکہا کہ اےطاقتور بادشاہ ہم اب تیری رعایا ہیں، یہ شہر اورتام ملک ہم تیرے سپرد کرتے ہیں کیونکہ خدا کی یہی مرض تھی،ہم کو یقین ہے کہ تو رعایا ہیں، یہ شہر اور تمام ملک ہم تیرے سپرد کرتے ہیں ؛کیونکہ خدا کی یہی مرضی تھی،ہم کو یقین ہے کہ تو رعایا کے ساتھ ہمیشہ شرفانہ اورفاضانہ برتاؤ روارکھے گا، فردینند چہاتا تھا کہ کچھ تشفی آمیز اُس کا اسباب اور رشتہ دار پہلے ہی جاچکے تھے، روانہ ہوگیا،اتنے میں چاندی کی صلیب قصر احمراء کے برج پر بلند ہوکر آفتاب کی شعاعوں میں میں چمکنے لگی اوراس اور عیسائی بادشاہ فاتحانہ قصر حمراء میں داخل ہوا، انا للہ وانا الیہ راجعون، جب ابو عبداللہ البشرات کے پہاڑ کی ایک چوٹی پر پہنچا تو ب تو بے ساختہ اس نے مُڑ کر غر ناطہ کی طرف دیکھا اوراپنے خاندان کی گذشتہ شا شان وعظم پر آخری نظر ڈال کر بے زار و قطار رونے لگا، ابو عبداللہ کی مال نے جو اُس وقت ہمراہ تھی کہاکہا کہ: ’’جب تو باوجود ایک ردسپاہی پیشہ ہونے کے لئے اپنے ملک کو نہ بچا سکا، تو اب مثل عورتوں کے ایک گُم شدہ چیز پر رونے سے کیا فائدہ؟‘‘