انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وفد بجیلہ یہ وفد ایک سو پچاس افراد پر مشتمل تھا جس کے رئیس حضرت جریرؓ بن عبد اللہ البجیلی تھے، اس وفد کو حضرت خردہؓ بن عمرو بیاضی کے مکان میں ٹھہرایا گیا،حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ابھی تھوڑی دیر میں اہل یمن سے ایک شخص آئے گا جس کے چہرہ پر " مسحہ لمک" (سلطنت کا نشان) ہوگا یعنی فرشتو ں نے ان کے چہروں کو ملا ہے ، چنانچہ کچھ ہی دیر میں ایک قافلہ آیا جس کے آگے حضرت جریرؓ بن عبداللہ تھے جو نہایت حسین تھے ، انہیں " یوسف امت " کہا جاتا تھا، حضور اکرم ﷺ کے دریافت فرمانے پر انھوں نے بتلایا کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لئے آئے ہیں ، حضورﷺ نے اپنی ردائے مبارک ان کو اوڑھائی اور صحابہ کرام سے بھی ان کی عزت کرنے کو کہا ،بیعت کے وقت حضور ﷺ نے حسب ذیل باتیں ارشاد فرمائیں ، (۱) گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں (۲) نماز قائم کر و (۳) زکوٰۃ ادا کرو (۴) رمضان کے روزے رکھو (۵) مسلمانوں کی خیر خواہی کرو (۶) والی اور حاکم کی اطاعت کرو چاہے وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ۔ آپﷺ نے ان کے علاقہ کا حال دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ وہاں اسلام کا غلبہ ہے، پھر آپﷺ نے پوچھا :ذوالخلصہ (بت ) کا استھان گرا دیا گیا ہے یا نہیں ؟ تو انھوں نے عرض کیا کہ ابھی باقی ہے، یہ بت خانہ کعبۂ یمانیہ کہلاتا تھا اور اس بت کو بجیلہ اور ختعم کے قبائل پوجتے تھے، حضور ﷺ نے حضرت جریرؓ کو علم عطا کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بت خانہ کو منہدم کردو ، انھوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ : میں گھوڑے کی پشت پر زیادہ دیر جم کر نہیں بیٹھ سکتا ، حضور ﷺ نے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی۔ واپسی کے وقت ارکان وفد کو انعام و اکرام دئیے گئے ، وہ لوگ کچھ ہی دن بعد واپس آئے تو حضور ﷺ نے ان سے ذو الخلصہ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے عرض کیا کہ بت خانہ کو منہدم کر کے ذو الخلصَہ کو آگ میں جلا دیا گیا ، یہ سن کر جریر کی قوم اور قبیلہ احمس کے پیادوں اور سواروں کے لئے پانچ مرتبہ دعا فرمائی،ابن سعد نے حسب ذیل وفود کا ذکر بھی کیا ہے لیکن سنہ کا تعین نہیں،مگر یہ وفود سنہ ۹ ہجری اور سنہ ۱۰ ہجری ہی میں آئے ، ان کا ذکر درج ذیل ہے: