انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مستعین باللہ مستعین باللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید کا اصل نام اور کنیت ابوالعباس تھی، خوبصورت گورے رنگ کا آدمی تھا، چہرے پرچیچک کے داغ اور توتلا تھا، مخارق نامی اُم ولد کے پیٹ سے سنہ۲۲۱ھ میں پیدا ہوا تھا، جب منتصر فوت ہوگیا توارکانِ سلطنت جمع ہوئے کہ اب کس کوخلیفہ بنایا جائے؟ اولاد متوکل میں معتز اور موید موجود تھے؛ لیکن ترک ان کی جانب سے اندیشہ مند تھے کہ انہوں نے ہی اِن کوولی عہدی سے معزول بھی کرایا تھا؛ لہٰذا معتصم باللہ کے بیٹے احمد کوتخت پربٹھایا گیا اور مستعین باللہ اس کا خطاب تجویز ہوا، مستعین باللہ نہایت نیک، فاضل ادیب اور فصیح وبلیغ شخص تھا، ۶/ربیع الثانی سنہ۲۴۸ھ کوتخت نشین ہوا، جب مستعین باللہ کوتخت نشین کرنے کے لیے قصرِخلافت کی طرف لے چلے تومحمد عبداللہ بن طاہر اور اس کے ہمراہ اور عام لوگوں نے شوروغوغا مچا کرخروج کیا اور معتز کی خلافت کا مطالبہ پیش کیا، آخرترکوں نے ان لوگوں کا مقابلہ کیا، لڑائی میں بہت سے غوغائی مارے گئے، بہت سے ہزیمت خوردہ اپنی جان بچا کرلے گئے، ادھر لڑائی ہورہی تھی، ادھر ترک مستعین باللہ کے ہاتھ پربیعت کے لیے پیغام بھیجا گیا، اس نے بھی آکر بیعت کرلی، تکمیل بیعت کے بعد خبر پہنچی کہ طاہر بن عبداللہ بن طاہر گورنر خراسان کا انتقال ہوگیا، خلیفہ مستعین باللہ نے محمد بن طاہر بن عبداللہ کوگونرخراسان مقرر کیا؛ اسی عرصہ میں حسین بن طاہر بن حسین کا بھی انتقال ہوگیا جوخراسان کے شرقی حصہ کا حکمران تھا، اس کی جگہ محمد بن عبداللہ بن طاہر کومامور کیا، اس کے پیچھے طلحہ کونیشاپور کی اور اس کے بیٹے منصور کوسرخس اور خوارزم کی حکومت سپرد کی، حسین بن عبداللہ کوہرات کی حکومت عطا کی اور اس کے چچا سلیمان بن عبداللہ کوطبرستان کی اور اس کے چچازاد بھائی عباس کوجرجان وطالقان کی حکومت پرروانہ کیا۔ سنہ۲۴۸ھ میں عبداللہ بن یحییٰ بن خاقان نے ادائے حج کی اجازت چاہی، خلیفہ نے اجازت مرحمت فرمائی؛ مگراس کے روانہ ہونے کے بعد ہی ایک سردار کوعبداللہ بن یحییٰ کے گرفتار وجلاوطن کرنے پرمامور کیا، جس نے اسے گرفتار کرکے رقہ میں جلاوطن کردیا، انہیں ایام میں ترکوں نے معتز اور موید کوقتل کرنے کا ارادہ کیا، احمد بن خصیب نے ان کواس ناروافعل سے منع کیا، خلیفہ مستعین نے تختِ خلافت پربیٹھتے ہی ترکوں کے ایک سردار تامش نامی کووزارت کا عہدہ عطا کیا تھا اور احمد بن خصیب کونائب وزیر بنایا تھا، معتز اور موید کوخلیفہ مستعین نے مقام جوسق میں نظربند کردیا، تامش کو وزارت کے علاوہ مصرومغرب کی حکومت ونیابت بھی سپرد کی، بغاصغیر کوحلوان وماسبذان کی سند حکومت دی، اشناس کوسپہ سالاری اور عمل سلطنت کی نگرانی کا کام سپرد ہوا؛ غرض تمام بڑے بڑے عہدے ترکوں کودیےگئے۔ سنہ۲۴۹ھ میں رومیوں نے ممالکِ اسلامیہ پرحملہ کیا، رومیوں کے مقابلہ میں عمر بن عبداللہ اور علی بن یحییٰ دومشہور سردار مع بہت سے مسلمانوں کے شہید ہوئے، ان دونوں سرداروں کی شہادت کا حال سن کربغداد میں لوگوں کوسخت ملال وافسوس ہوا اور ترکوں کی نسبت شکایات زبان پرآنے لگیں کہ انہوں نے طاقت پاکر خلفا کوقتل اور شرفاء کوذلیل کرنے کا کام توکیا لیکن کفار کے مقابلے میں جہاد کرنے کی طرف سے غفلت برتی، اس لیے دوخادم اسلام سردار شہید ہوگئے اور رومیوں کی جرأت مسلمانوں کے مقابلے میں بڑھ گئی، اس قسم کی تاتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغداد میں ایک قسم کی شورش سی برپا ہوگئی اور لوگوں نے جہاد کے لیے تیاریاں شروع کردیں، اطراف وجوانب سے بھی مسلمان بہ عزم جہاد آآکرشریک ہونے لگے، مسلمان اُمراء نے روپیہ بھی جمع کردیا، ایک جمِ غفیر بغداد سے بہ غرضِ جہاد نکل کرکھڑا ہوا، مستعین نے سامرہ پہنچ کربھی اسی قسم کی شورش برپا کردی اور جیل خانہ توڑ کرقیدیوں کوآزاد کردیا، اس کے بعد ترکی سردار بغا، وصیف اور اتامش ترکی فوج لے کران مسلمانوں کے مقابلے پرآئے، عوام الناس کا ایک گروہ کثیر مقتول ہوا اور جوش وخروش فرو ہوگیا، اتامش چونکہ زیادہ قابویافتہ اور خزانہ شاہی میں تصرف کرنے کا بھی اختیار رکھتا تھا؛ لہٰذا بغا اور وصیت اس سے رقابت رکھتے تھے؛ انھوں نے اتامش کے بعد عبداللہ بن محمد بن علی کوعہدہ وزارت عطا کیا، چند روز کے بعد بغاصغیر اور ابوصالح عبداللہ بن محمد بن علی وزیردونوں میں ناراضی پیدا ہوئی۔ ابوصالح عبداللہ، بغاصغیر کے خوف سے سامرہ چھوڑ کربغداد بھاگ گیا اور خلیفہ مستعین نے محمدبن فضل جرجانی کووزیر بنایا؛ غرض خلیفہ مستعین بالکل ترکوں کے ہاتھ میں تھا، سامرہ میں سب ترک ہی آباد تھے، اس لیے ترکوں کے قبضہ سے نکلنے کی کوئی کوشش بھی خلیفہ نہیں کرسکتا تھا، انہیں حالات میں یحییٰ بن عامر بن یحییٰ بن حسین بن زید شہید نے جن کی کنیت ابوالحسین تھی، کوفہ میں خروج کیا، کوفہ میں محمد بن عبداللہ بن طاہر کی جانب سے ایوب بن حسین بن موسیٰ بن جعفر بن سلیمان بن علی والی کوفہ تھا، ابوالحسن نے ایوب کوکوفہ سے نکال دیا اور شاہی بیت المال لوٹ لیا اور کوفہ پرقابض ومتصرف ہوگئے، ابوالحسین نے کوفہ سے واسط کی طرف کوچ کیا، محمد بن عبداللہ بن طاہر نے حسین بن اسماعیل بن ابراہیم بن مصعب کوروانہ کیا، راستے میں لڑائی ہوئی، ابوالحسن حسین بن اسماعیل کوشکست دے کرکوفہ میں واپس آگئے اور اہلِ بغداد بھی ان کی امداد پرآمادہ ہوگئے، حسین بن اسماعیل اپنا لشکرمرتب کرکے دوبارہ ابوالحسین یحییٰ بن عمیر پرحملہ آور ہوا، کوفہ سے نکل کریحییٰ نے مقابلہ کیا، سخت لڑائی کے بعد ابوالحسین یحییٰ بن عمر مارے گئے، ان کا سرکاٹ کرسامرہ میں خلیفہ مستعین کے پاس بھیجا گیا، جس کومستعین نے ایک صندوق میں بند کراکر اسلحہ خانہ میں رکھوادیا، ابوالحسین یحییٰ ۱۵/رجب سنہ۲۵۰ھ کومقتول ہوئے۔ ابوالحسین پرفتح پانے کے صلہ میں خلیفہ مستعین نے عبداللہ بن طاہر کوطبرستان میں جاگیریں عطا فرمائیں جن میں ایک جاگیر حدود دیلم کے قریب تھی، اس جاگیر پرقبضہ کرنے کے لیے جب محمد بن عبداللہ کاعامل گیا تورستم نامی ایک شخص نے مخالفت کی، آخردیلم والے اس مخالفت میں رستم اور اس کے دونوں بیٹوں محمدوجعفر کے طرفدار ہوگئے، طبرستان میں اس زمانہ میں محمد بن ابراہیم علوی موجود تھے، محمد وجعفر دونوں بھائیوں نے اس کے پاس آکر کہا کہ آپ امارت کا دعویٰ کیجئے، ہم آپ کے حامی ہوں گے؛ انھوں نے کہا کہ تم رَے میں جاکر حسین بن زید بن محمد بن اسماعیل بن حسن بن زید بن حسن سبط کی خدمت میں درخواست پیش کرو، وہ ہمارے سردار اور مقتدا ہیں۔ محمد بن جعفر نے اپنے باپ رستم سے آکر کہا، اس نے ایک آدمی رَے بھیجا، وہاں سے حسن بن زید طبرستان چلے آئے؛ یہاں دیلم وریان وغیرہ سے لوگ آآکر بیعت ہونے شروع ہوئے، ایک جمِ غفیر فراہم ہوگیا اور حسن بن زید نے علاقہ طبرستان پرقبضہ کرلیا، اس کے بعد رَے بھی قبضہ میں آگیا، یہ خبرسن کرمستعین نے ہمدان کوبچانے کے لیے ایک لشکر بھیجا، جس کوشکست ہوئی، اس کے بعد موسیٰ بن بغاکبیر کودارلخلافہ سے مع فوج روانہ کیا گیا، اس نے طبرستان کوتوحسن بن زید کے قبضہ سے نکال لیا؛ مگردیلم پرحسن بن زید کا قبضہ رہا، موسیٰ وہاں سے رَے کی طرف واپس چلا آیا، انہیں ایام میں خلیفہ مستعین نے دلیل بن یعقوب نصرانی کواپنا وزیر بنایا، چند روز کے بعد باغر نامی ایک ترک کودلیل نصرانی وزیر سے کوئی شکایت پیدا ہوئی، اس معاملہ میں بغاصغیر اور وصیف نے باغر کومجرم بتایا، خلیفہ نے اس کوقید کردیا، ترکوں نے شورش برپا کی، ترکوں کی اس شورش کودیکھ کربغاصغیر نے باغرکوقتل کرادیا، اس سے بجائے فرو ہونے کے شورش اور بھی ترقی کرگئی، تمام سامراباغی ہوگیا اور ہرطرف بلوائیوں کے جھنڈے نظر آنے لگے، مجبوراً خلیفہ مستعین، بغا، وصیف، شاہک اور احمد بن صالح شیرازوسامرا سے نکل کربغداد چلے آئے اور محرم سنہ۲۵۱ھ میں بغداد کے اندر محمد بن عبداللہ بن طاہر کے مکان میں فروکش ہوئے، خلیفہ کے آنے کے بعد دفتر کے آدمی بھی دفاتر لے کربغداد میں ہی آگئے۔ خلیفہ کے بغداد چلے جانے کے بعد ترکوں کوپشیمانی ہوئی اور سامرا سے چھ ترک سردار بغداد میں خلیفہ کے پاس آکرملتجی ہوئے کہ آپ سامرا میں ہی تشریف لے چلیں، ہم سب اپنی ناشائستہ حرکات سے پشیمان اور معافی کے خواہاں ہیں، خلیفہ مستعین نے ترکوں کوان کی بے وفائیاں اور گستاخیاں یاد دلاکرسامرہ جانے سے انکار کیا، ترکوں نے سامرہ واپس جاکر معتز بن متوکل کوجیل سے نکالا اور اس کے ہاتھ پربیعت خلافت کرلی، ابواحمد بن ہارون الرشید بھی اس زمانے میں سامرہ میں موجود تھا، ابواحمد سے جب بیعت کے لیے کہا گیا تواس نے کہا کہ میں چونکہ مستعین کے ہاتھ پربیعت کرچکا ہوں اور معتزولی عہدی سے اپنی معزولی خود تسلیم کرچکا ہے؛ لہٰذا میں بیعت نہیں کروں گا، معتز نے ابواحمد کواس کے حال پرچھوڑ دیا اور زیادہ اصرار نہیں کیا، بغاکبیر کے دونوں بیٹوں موسیٰ وعبداللہ نے بھی معتز کی بیعت کرلی؛ اسی طرح جولوگ معتز کی خلافت کوپسند کرتے تھے، وہ معتز کے پاس سامرا چلے گئے، جومستعین کوپسند کرتے تھے وہ سامرا سے بغداد چلے آئے؛ یہی حالت صوبوں کے عاملوں اور گورنروں کی ہوئی، کچھ اس طرف ہوگئے کچھ اُس طرف، بغداد وسامرہ دونوں جگہ دوالگ الگ خلیفہ تھے، مستعین کی طرف خاندان طاہریہ اور خراسانی لوگ زیادہ تھے، معتزکی جانب قریباً تمام ترک اور بعض دوسرے سردار بھی تھے، گیارہ مہینے تک جنگ وپیکار کا ہنگامہ دونوں خلیفوں میں برپا رہا، باہر کے صوبہ داروں سے دونوں خطوکتاب کرتے اور اپنی اپنی طرف ان کومائل کرتے تھے، یہ جنگ سامراوبغداد تک ہی محدود نہ رہی؛ بلکہ باہر کے صوبوں میں بھی اس کے شعلے مشتعل ہونے لگے؛ مگرزیادہ زور بغداد کے نواح میں رہا؛ کیونکہ باہر والے دارالسلطنت کے نتائج کا انتظار کرتے تھے۔ آخرماہ ذی قعدہ سنہ۲۵۱ھ میں محمد بن عبداللہ بن طاہر نے جوبغداد میں مستعین کی فوجوں کا سپہ سالار تھا، ترکوں پرجوبغداد کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، ایسا سخت وشدید حملہ کیا کہ وہ ہزیمت پاکر فرار ہوگئے، بغا اور وصیف بغداد میں مستعین کے ساتھ تھے، اس حملہ میں یہ بھی محمد بن عبداللہ بن طاہر کے ساتھ اپنے چھوٹے چھوٹے دستوں کولیے ہوئے تھے، یعنی ترکوں کی بہت ہی قلیل تعداد جوان دونوں ترک سرداروں کے مخصوص آدمیوں پرمشتمل تھی، مستعین کی فوج میں شامل تھی، بغا اور وصیف نے جب ترکوں کوشکست پاکر خراسانیوں اور عراقیوں کے مقابلے میں بھاگتا ہوا دیکھا توان کی قومی عصبیت میں حرکت پیدا ہوئی اور فوراً جدا ہوکر ترکوں کی ہزیمت یافتہ فوج سے جاملے، ان کے پہنچنے سے ترکوں کی ہمت بندھ گئی اور اپنی جمعیت کودرست کرکے پھرلوٹ پڑے اور دوبارہ بغداد کا محاصرہ کرلیا۔ ادھر شہروالوں نے محمد بن عبداللہ بن طاہر کے متعلق خبریں اُڑانی شروع کردیں کہ یہ دیدیہ ودانستہ خلیفہ مستعین کومشکلات میں مبتلا کررہا ہے، جس سے محمد بن عبداللہ بھی کچھ سست ہوگیا، آخر۶/محرم الحرام سنہ۲۵۲ھ کومستعین باللہ نے معتز باللہ کے پاس ایک تحریر بھیج دی جس میں معتز باللہ کی خلافت کوتسلیم کرکے خود خلافت سے دست برداری ظاہر کی تھی، خلیفہ معتز نے بغداد میں داخل ہوکر معزول خلیفہ مستعین کوواسط کی طرف نظربند کرکے بھیج دیا، وہاں مستعین نومہینے تک ایک امیر کی حراست میں رہا؛ پھرسامرہ میں واپس چلا آیا اور ۳/شوال سنہ۲۵۲ھ کوخلیفہ معتز کے اشارے سے قتل کیا گیا (یہ تھا ان خلفاء کا حال! کہ ایک طرف مستعین باللہ خود خلافت سے دست بردار ہوگیا اور دوسری طرف نئے خلیفہ معتز باللہ نے اسے قتل کرادیا؛ حالانکہ اسے معاف کردینا چاہیے تھا)۔