انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** رسولِ خدا کے پہلے نائب تبوک سے واپس ہونے کے بعد وفود کا تو اثر ایسا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے جدا نہیں ہوسکتے تھے؛کیونکہ قبائل عرب برابر آ آ کر اسلام میں داخل ہورہے تھے ،جب حج کا موسم آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حج کا امیر بناکر روانہ کیا اور بیس اونٹ قربانی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے ان کے ساتھ کئے پانچ اونٹ قربانی کے حضرت ابوبکرؓ نے اپنی طرف سے لئے تین سو مسلمانوں کا قافلہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ روانہ ہوا، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی روانگی کے بعد سورۂ برأت کی چالیس آیتیں نازل ہوئیں جن میں یہ حکم تھا کہ اس سال کے بعد مشرکین مسجد حرام کے قریب نہ جائیں اور بیت اللہ کا طواف برہنہ ہوکر نہ کریں اور جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عہد کیا ہے وہ اس کی مدت تک پورا کردیا جائے، غرض یہ اعلان حج کے موقع پر ضروری تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو یہ آیتیں دے کر اپنی اونٹنی پر سوار کرا کر روانہ کیا اورحکم دیا کہ بعد حج یوم النحر کھڑے ہوکر سب کو سنادینا حضرت علیؓ روانہ ہوئے اور منزل دومۃ الحلیفہ میں حضرت ابوبکرؓ کے قافلے سے جاملے حضرت ابوبکرؓ نے ان سے دریافت کیا کہ تم امیر ہوکر آئے ہو یا مامور ہوکر؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ میں مامور ہوکر آیا ہوں، امیر آپ ہی رہیں گے، مجھ کو صرف یہ آیتیں سُنانے کا حکم دیا گیا ہے،وہاں سے روانہ ہوکر مکہ میں پہنچے،حضرت ابوبکرصدیقؓ نے امیر ہونے کی حیثیت سے ارکانِ حج اداکئے،اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے سورۂ برأت کی آیات سُنائیں۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ام کلثوم کی وفات ہوئی،اسی سال حج فرض ہوا، اسی سال حج مسلمانوں کے زیر اہتمام ہوا، حضرت ابوبکرؓ نے لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دی،اس حج کے بعد تمام مشرکین کو صرف چار مہینے کی مہلت دی گئی اور اعلان کیا گیا کہ چار مہینے کے بعد خد ا اور رسول مشرکوں سے بری الذمہ ہیں،اس اعلان کو سن کر مکہ میں جو لوگ ابھی تک شرک پر قائم تھے وہ بھی اسلام میں داخل ہوگئے اورہر طرف سے جوق درجوق آ آ کر قبائل مسلمان ہونے شروع ہوئے بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اسی سال تبوک سے واپس ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایران کے بادشاہ کسریٰ کے نام خط روانہ کیا تھا جس کا اوپر ۷ ھ میں ذکر آچکا ہے اسی سال عبداللہ بن اُبی فوت ہوا۔۔