انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنت اور اہلِ جنت کی باہمی طلب اہلِ جنت کی طلب جنت: جنت والے جنت کی طلب میں اللہ تعالیٰ سے اس طرح درخواست کرتے ہیں اور کریں گے جیسا کہ قراان کریم میں ارشاد ہے: رَبَّنَا وَآتِنَا مَاوَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَاتُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَاتُخْلِفُ الْمِيعَادَ۔ (آل عمران:۱۹۴) ترجمہ:اے ہمارے پروردگار! اور ہم کووہ چیز (جنت) بھی دیجئے جس کا ہم سے اپنے پیغمبر کی معرفت آپ نے وعدہ فرمایا ہے اور ہم کوقیامت کے روز رسوا نہ کیجئے؛ یقیناً آپ وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ جنت طلب کرنے کا انعام: حدیث:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مَامَنْ مُسْلِم یسأل اللَّهَ الْجَنَّةَ ثَلَاثا الاقَالَتْ الْجَنَّةُ اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَمَنْ اسْتَجَارَ مِنْ النَّارِ ثَلَاثا قَالَتْ النَّارُ اللَّهُمَّ أَجِرْهُ مِنْ النَّارِ۔ (حاوی الارواح:۱۲۷۔ ترمذی:۲۵۷۲۔ نسائی:۵۵۲۱۔ ابن ماجہ:۴۳۴۰۔ ابن ابی شیبہ:۹۸۵۷۔ تحفۃ الاشراف:۱/۹۹۔ مستدرک:۱/۵۳۴) ترجمہ:جومسلمان بھی اللہ تعالیٰ سے تین مرتبہ جنت کا سوال کرتا ہے توجنت کہتی ہے، اے اللہ اس کوجنت میں داخل فرمادیں اور جوشخص اللہ کے ساتھ دوزخ سے پناہ پکڑے تین مرتبہ، تودوزخ کہتی ہے: اے اللہ! اس کودوزخ سے پناہ دیدے۔ فائدہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ہے جس نے سات مرتبہ یوں کہا میں اللہ تعالیٰ سے جنت مانگتا ہوں توجنت کہتی ہے اے اللہ! اس کوجنت میں داخل کردیں۔ (مسندابوداؤد طیالسی:۲۵۷۹۔ حاوی الارواح:۱۲۵) اور ایک حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے یوں مروی ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ سے جنت کی طلب اور دوزخ سے پناہ بہت زیادہ مانگا کرو؛ کیونکہ یہ دونوں (جنت اور دوزخ) شفاعت بھی کرتی ہیں اور ان کی شفاعت قبول بھی کی جاتی ہے؛ بلاشبہ جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ سے جنت کوبہت زیادہ طلب کرتا ہے توجنت کہتی ہے، اے پروردگار! تیرایہ بندہ جومجھ سے تیری پناہ مانگ رہا ہے آپ اس کوپناہ دیدیں۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۹۹۔ نہایہ ابن کثیر:۲/۵۰۱۔ مسندالفردو دیلمی:۲۱۳، بلفظہ) اللہ تعالیٰ کا گراں قدر سامانِ تجارت: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ مرفوعاً روایت کرتے ہیں (کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:) مَنْ خَافَ أَدْلَجَ وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ أَلَاإِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ غَالِيَةٌ أَلَاإِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ الْجَنَّةُ۔ (ترمذی، كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ،بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ،حدیث نمبر:۲۳۷۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جس نے (منزل آخرت سے دور رہ جانے کا) خوف کیا اس نے رات کو (بھی عبادات کرکے آخرت کا) سفر کیا اور جس نے رات کوسفر کیا وہ (اپنی) منزل (مقصود) تک پہنچ گیا، سن لو! اللہ تعالیٰ کا سامانِ تجارت بہت قیمتی ہے، سن لو! اللہ تعالیٰ کا سامانِ تجارت (جنت) ہے۔ حتی المقدور جنت کی طلب کرو: حدیث:جناب کلیب بن جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول اللہﷺسے ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اطْلُبُوا الْجَنَّةَ جَهْدَكُمْ، وَاهْرَبُوا مِنَ النَّارِ جَهْدَكُمْ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ لَايَنَامُ طَالِبُهَا، وَإِنَّ النَّارَ لَايَنَامُ هَارِبُهَا، وَإِنَّ الْآخِرَةَ الْيَوْمَ مَحْفُوْفَۃٌ بِالْمَكَارِهِ، وَإِنَّ الدُّنْيَا مَحْفُوْفَۃٌ بِاللذَّاتِ وَِالشَّهَوَاتِ فَلَاتَلْھِیْنَکُمْ عَنِ الْأخِرَۃِ۔ (ابوبکرالشافعی، حاوی الارواج:۱۳۰۔ نہایہ ابن کثیر:۲/۵۰۲۔ طبرانی کبیر:۱۹/۲۰۰) ترجمہ:جنت کواپنی پوری کوشش کرکے (یعنی نیک اعمال کے ساتھ) طلب کرو اور دوزخ سے اپنی پوری کوشش کے ساتھ (یعنی گناہوں سے بچ کر) بھاگو؛ کیونکہ جنت کے طالب کوسونا (یعنی گناہ کے وقت دوزخ کوبھولنا) نہیں چاہئے؛ بلاشبہ آخرت (جنت) آج (دنیا میں نفس وشیطان کی) ناپسندیدہ چیزوں (پرعمل کرنے) میں پوشیدہ کی گئی ہے اور دنیا لذتوں اور خواہشوں کاگہوارہ ہے، خبردار! یہ تمھیں آخرت سے غافل نہ کردے۔ خدا کا واسطہ دے کر صرف جنت مانگو: حدیث:حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: لَايُسْأَلُ بِوَجْهِ اللَّهِ إِلَّاالْجَنَّةُ۔ (سنن ابوداؤد،كِتَاب الزَّكَاةِ، بَاب كَرَاهِيَةِ الْمَسْأَلَةِ بِوَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى،حدیث نمبر:۱۴۲۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اللہ کا واسطے دے کرکوئی شئے نہ مانگی جائے سوائے جنت کے۔ فائدہ:اس سے قارئین خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جنت کتنی قیمتی چیز ہے، جس کوہم نے دنیا کی خواہشات میں ضائع کرنا شروع کیا ہوا ہے، علامہ سخاوی فرماتے ہیں اس حدیث میں نہی تنزیہی ہے (یعنی اور نعمتیں بھی مانگ سکتا ہے)۔ دوبڑی چیزوں کومت بھولو: حدیث:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں نے جناب رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ نے ارشاد فرمایا: لاتنسوا العظيمتين قلنا وماالعظيمتان يارسول الله قال الجنة والنار۔ (ابویعلی موصلی کمافیالکنی والاسماء للدولابی:۲/۱۶۴۔ ترغیب وترہیب:۴/۴۵۷۔ صفۃ الجنتۃ ابونعیم:۱/۹۴) ترجمہ:تم دوعظیم چیزوں کومت بھولنا، ہم (صحابہؓ) نے عرض کیا کونسی دوعظیم چیزیں یارسول اللہ؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا جنت اور دوزخ کو۔ جنت اور دوزخ کا مطالبہ: حدیث:حضرت عبدالملک بن ابی بشیر مرفوعاً روایت کرتے ہیں (کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:) مامن یوم الا والجنۃ والنار تسألان فیقول الجنۃ یارب قدطابت ثماری واطردت انھاری واشتقت اولیائی فعجل الی اھلی۔ (حاوی الارواج:۴۶،۱۳۰۔ صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۱۲۲) ترجمہ:کوئی دن نہیں گذرتا مگر جنت اور دوزخ دونوں سوال کرتی ہیں، جنت کہتی ہے، اے میرے پروردگار! میرے پھل تیار ہوچکے میری نہریں جاری ہوچکیں، میں اپنے مکینوں کی مشتاق ہوں پس میرے اندر رہنے والوں کوجلدی سے بھیج دیجئے۔ کلثوم بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا وعظ: امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ حضرت کلثوم بن عیاض قشیریؒ نے ہشام بن عبدالملک (بادشاہ) کے زمانہ میں دمشق کے منبرپرکھڑے ہوکر یہ کہا تھا جوشخص (اپنے نفس کی خواہشات کوچھوڑ کر) اللہ تعالیٰ (کے احکام کو) برتری دیتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کوبرتری عطاء کرتے ہیں، اس بندہ پراللہ تعالیٰ رحم فرمائے جس نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کے ساتھ اس کی اطاعت گزاری میں مدد حاصل کی اور اس نعمت سے گناہ پرمدد نہ پکڑی؛ کیونکہ جنتی پرکوئی وقت ایسا نہیں آئے گا مگراس میں نعمت کا مزید اضافہ ہوجائے گا، جس کووہ صاحب نعمت جانتا بھی نہیں ہوگا؛ اسی طرح عذاب والے پرکوئی گھڑی ایسی نہیں آئے گی کہ وہ بھی عذاب کونیا سمجھے گا اور اس کونہیں جانتا ہوگا۔ فائدہ:یہ کلثوم بن عیاض رحمہ اللہ ہشام بن عبدالملک کے زمانہ میں متولی رہے؛ پھران کوہشام نے مغرب میں جہاد پرروانہ کیا اور وہیں شہید ہوگئے۔ (صفۃ الجنۃ لابن کثیر:۱۵۰، بحوالہ ابن عساکر) اکابر کی ایک جماعت کا عمل: حافظ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اکابر سلف کی ایک جماعت اللہ تعالیٰ سے جنت طلب نہیں کرتی تھی؛ بلکہ وہ یہ کہتی تھی ہمیں اتنا کافی ہے کہ وہ ہمیں دوزخ سے نجات دیدے، انہیں حضرات میں سے ایک حضرت ابوالصہباء صلہ بن اشیم ہیں انہوں نے ایک رات سحری تک نماز پڑھی پھراپنے ہاتھ اٹھائے اور کہا: اے اللہ! مجھے دوزخ سے بچا ،کیا میرے جیسا جرأت کرسکتا ہے کہ وہ آپ سے جنت کی طلب کرے؛ انہی حضرات میں سے ایک حضرت عطاء سلمی رحمہ اللہ بھی ہیں یہ بھی جنت کا سوال نہیں کرتے تھے، ان سے حضرت صالح المریؒ نے عرض کیا کہ مجھے حضرت ابان نے حضرت انس (ابن مالکؒ) سے حدیث بیان کی ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: يقول الله عزوجل: انظروا في ديوان عبدي، فمن رأيتموه سألني الجنة أعطيته، ومن استعاذني من النار أعذته۔ (حلیۃ الاولیاء:۶/۱۷۵،۱۷۶۔ صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۱/۱۰۰) ترجمہ:(قیامت کے دن) اللہ عزوجل (فرشتوں سے) ارشاد فرمائیں گے میرے بندے کے اعمالنامہ میں دیکھو؛ پس جس کوتم دیکھو کہ اس نے مجھ سے جنت طلب کی ہے تومیں اس کوجنت عطاء کرونگا اور جس نے میرے ساتھ دوزخ سے پناہ مانگی ہے میں اس کوپناہ دونگا۔ توحضرت عطاء نے جواب دیا مجھے تواتنا کافی ہے کہ وہ مجھے دوزخ سے بچالے۔ (حادی الارواح:۱۲۹) تنبیہ:یہ بعض اکابر کے خاص احوال ہیں جن پرخوف غالب تھا؛ ورنہ حکم وہی ہے جوآپ اوپر کی احادیث میں پڑھ آئے ہیں کہ جنت کوبھی طلب کرنا ہے اور دوزخ سے پناہ بھی مانگنی ہے، اللہ تعالیٰ نے حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوٰات والتسلیمات کا یہ طریقہ نقل فرمایا ہے: إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ۔ (الأنبیاء:۹۰) ترجمہ:یہ (انبیاء کرام علیہم السلام) نیک کاموں میں دوڑتے تھے اور (جنت کی) امید اور (دوزخ کے) خوف کے ساتھ ہماری عبادت کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے دب کررہتے تھے۔ جنت کوتین حضرات کا شوق ہے: حدیث:حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اشْتَاقَتْ الجَنَّةُ إِلى عَليِّ وعَمَّارٍ وسَلمَانَ۔ (صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۱/۱۲۰۔ سنن ترمذی:۳۷۹۷۔ ابن حبان فی المجروحین:۱/۱۲۱۔ مجمع الزوائد:۹/۳۴۴۔مشکوٰۃ الالبانی:۳/۱۷۵۶) ترجمہ:جنت حضرت علیؓ، حضرت عمارؓ (بن یاسر) اور حضرت سلمان (فارسیؓ) کا شوق رکھتی ہے۔ جنت نفس کے ناپسندیدہ اعمال کے پیچھے چھپی ہوئی ہے: حدیث:حضرت انس بن مالکؓ سے راویت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: حُفّتْ الْجَنّةُ بِالْمَكَارِهِ وَحُفّتْ النّارُ بِالشّهَوَاتِ۔ (مسلم، كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا،باب،حدیث نمبر:۵۰۴۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جنت نفس کی ناپسندیدہ چیزوں کے پیچھے چھپائی گئی ہے اور دوزخ خواہشات اور لذات نفس کے پیچھے چھپائی گئی ہے۔ حدیث:حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ أَرْسَلَ جِبْرِيلَ فَقَالَ انْظُرْ إِلَيْهَا وَإِلَى مَاأَعْدَدْتُ فِیْھَا لِأَهْلِهَا فَجَاءَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَإِلَى مَاأَعَدَّ اللَّهُ لِأَهْلِهَا فِيهَا، فَرَجَعَ إِلَيْهِ فَقَالَ وَعِزَّتِكَ لَايَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ إِلَّادَخَلَهَا فَأَمَرَ بِهَافَحَجبتْ بِالْمَكَارِهِ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَيْهَا فَانْظُرْ إِلَیْھَا وَإِلَی مَاأَعْدَدْتُ لِأَهْلِهَا قَالَ فَرَجَعَ فَإِذَا هِيَ قَدْحَجبت بِالْمَكَارِهِ فَرَجَعَ إِلَيْهِ فَقَالَ وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خشیت أَنْ لَايَدْخُلَهَا أَحَدٌ قَالَ اذْهَبْ إِلَى النَّارِ فَانْظُرْ إِلَيْهَا وَإِلَى مَاأَعْدَدْتُ لِأَهْلِهَا فِيهَا فَجَاءَ فَنظر الیھَا والی مَااعداللہ لاھلھا فِیْھَا فَاذا هِيَ يَرْكَبُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَرَجَعَ فَقَالَ وَعِزَّتِكَ لَايَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ فَيَدْخُلَهَا فَأَمَرَ بِهَا فَحُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ فَرْجِعْ إِلَيْهَا فَرَجَعَ إِلَيْهَا فَقَالَ وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لَايَنْجُوَ مِنْهَا أَحَدٌ إِلَّادَخَلَهَا۔ (مسنداحمد:۲/۲۳۲۔ صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۵۲۔ ابوداؤد:۴۷۴۴۔ ترمذی:۲۵۶۰۔ نسائی:۷/۳۔ حاکم:۱/۲۷) ترجمہ:جب اللہ تعالیٰ نے جنت اور دوزخ کوپیدا کیا توجبرئیل علیہ السلام کوبھیجا اور فرمایا تم جنت کودیکھو اور جونعمتیں میں نے اس میں جنت والوں کے لیے تیار کی ہیں ان کودیکھو! تووہ آئے اور جنت کودیکھا اور ان نعمتوں کوجن کو اللہ تعالیٰ نے جنت والوں کے لیے جنت میں تیار کیا تھا دیکھا تواللہ تعالیٰ کے پاس لوٹ گئے اور عرض کیا: مجھے آپ کے غلبہ کی قسم! جوشخص بھی اس کوسنے گا وہ ضرور اس میں داخل ہوگا؛ تواللہ تعالیٰ نے جنت کو حکم کیا تووہ (نفس کے) ناپسندیدہ اعمال (یعنی وہ اعمال جن کے کرنے سے نفس انسانی کوکوفت ہوتی ہے)ٖ میں چھپ گئی، اللہ تعالیٰ نے (حضرت جبریل علیہ السلام سے) فرمایا اب اس کے پاس پھرجائیے اور اس کودیکھئے اور جوکچھ (تکالیف) اس کے رہنے والوں کے لیے تیار کی ہیں ان کودیکھئے، حضورﷺ فرماتے ہیں کہ جبریل پھرگئے (اور دیکھا) تووہ ناپسندیدہ کاموں میں چھپی ہوئی تھی تووہ واپس اللہ میاں کے پاس لوٹ آئے اور عرض کیا مجھے آپ کی عزت کی قسم اب تومیں ڈرتا ہوں کہ اس میں کوئی ایک بھی داخل نہیں ہوسکے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا دوزخ کی طرف جائیے اور اس کو (بھی) دیکھئے اور جوکچھ میں نے دوزخیوں کے لیے دوزخ میں تیار کیا ہے (اس کوبھی دیکھئے) توانہیں نے اس کودیکھا اور جوکچھ اللہ تعالیٰ نے دوزخ والوں کے لیے تیار کیا تھا دوزخ میں اس کوبھی دیکھا تووہ ایسی نظر آئی کہ اس کا ایک حثہ دوسرے پربڑھ چڑھ رہا تھا تویہ واپس آئے اور عرض کیا: مجھے آپ کے غلبہ کی قسم جوبھی اس کوسنے گا اس میں داخل نہیں ہوگا؛ تواللہ تعالیٰ نے اس کوحکم دیا تووہ خواہشات اور شہوات میں پوشیدہ ہوگئی؛ پھرجب جبریل نے اس کی طرف پلٹ کردیکھا توعرض کیا: مجھے آپ کے غلبہ کی قسم مجھے پکا خوف ہے کہ اس سے کوئی بھی نجات نہیں پاسکے گا؛ ہرایک اس میں داخل ہوگا۔ فائدہ:واقعی جنت اور دوزخ کی صورتِ حال ایسی ہے مگراللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے حضرات بھی پیدا فرمائے ہیں جواللہ کے فضل وتوفیق سے جنت والے اعمال کرکے دوزخ والے اعمال سے بچ کرجنت میں پہنچیں گے اللہ تعالیٰ ہم سب کوجنت میں اعلیٰ درجات پرفائز فرمائیں، آمین۔ جنت اور دوزخ میں زیادہ ترکون سے اعمال لے جائیں گے: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: أَكْثَرُمَايَلِجُ بِهِ الْإِنْسَانُ النَّارَ الْأَجْوَفَانِ الْفَمُ وَالْفَرْجُ وَأَكْثَرُ مَايَلِجُ بِهِ الْإِنْسَانُ الْجَنَّةَ تَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُسْنُ الْخُلُقِ۔ (مسنداحمدبن حنبل، مسند أبي هريرة رضي الله عنه،حدیث نمبر:۹۰۸۵، شاملہ، موقع الإسلام۔ صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۵۲) ترجمہ:جس سے زیادہ جوچیز انسان کودوزح میں لے جائے گی وہ دوجوف ہیں: (۱)شرمگاہ (۲)مونہہ اور زیادہ ترجوچیز انسان کوجنت میں لے جائے گی وہ (۱)اللہ تعالیٰ سے تقویٰ اختیار کرنا اور (۲)حسن خلق کا برتاؤ کرنا ہے۔ فائدہ:یہ بات ظاہر ہے کہ دوزخ میں لے جانے والے جتنے کام ہیں ان کوانسان آسانی سے بغیر کسی پس وپیش کے کرلیتا ہے؛ لیکن جب کسی نیک کام کی باری آتی ہے تواس کا کرنا نفس سرکش کوبہت ناگوار لگتا ہے اور سستی اور کاہلی سے بھی آدمی اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے، اللہ تعالیٰ دین کی کامل اتباع کی توفیق نصیب کریں، آمین۔ جنت کے مستحق حضرات کے خصائل: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَo الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَo وَالَّذِينَ إِذَافَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّااللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَافَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَo أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ۔ (آل عمران:۱۳۳۔۱۳۶) ترجمہ:اور دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور (دوڑو) جنت کی طرف (یعنی ایسے نیک کام اختیار کرو جس سے پروردگار تمہاری مغفرت کردے اور تمھیں جنت عنایت کردے وہ جنت ایسی ہے) جس کی وسعت ایسی (تو) ہے (ہی) جیسے سب آسمان وزمین (اور زیادہ کی نفی نہیں چنانچہ واقع میں زائد ہونا ثابت بھی ہے اور) وہ تیار کی گئی ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لیے یہ ایسے لوگ (ہیں) جو کہ (نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں فراغت میں بھی اور تنگی میں بھی اور غصہ کوضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں (کی تقصیرات) سے درگذر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کومحبوب رکھتا ہے اور (ان مذکورین کے اعتبار سے دوسرے درجہ کے مسلمان) ایسے لوگ (ہیں) کہ جب کوئی ایسا کام کرگذرتے ہیں جس میں دوسروں پرزیادتی ہو یا (کوئی گناہ کرکے خاص) اپنی ذات کا نقصان کرتے ہیں تو (فوراً) اللہ تعالیٰ (کی عظمت اور عذاب) کویاد کرلیتے ہیں؛ پھراپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں (اہلِ حقوق بندوں سے بھی اور اللہ تعالیٰ سے بھی) اور وہ لوگ اپنے فعل (بد) پراصرار نہیں کرتے اور وہ (ان باتوں کو) جانتے بھی ہیں (کہ ہم نے فلاں گناہ کیا ہے اس کی توبہ ضروری ہے) ان لوگوں کی جزاء بخشش ہے ان کے رب کی طرف سے اور (بہشت کے) ایسے باغ ہیں کہ ان کے (درختوں اور مکانوں کے) نیچے سے نہریں چلتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور (یہ) اچھا حق الخدمت ہے ان کام کرنے والوں کا (وہ کام استغفار اور حسن اعتقاد ہے اور استغفار کا نتیجہ آئندہ اطاعت کی پابندی ہے، جس پرعدم اصرار دلالت کررہا ہے)۔ خلاصہ یہ کہ جنت میں نیک لوگوں کا داخلہ ہوگا جومؤمن بھی ہوں اور مسلمان بھی، جولوگ کافر ہوکر فوت ہوں گے وہ اپنے اچھے کاموں کا بدلہ دنیا میں ہی وصول کرکے فوت ہوں گے ان کے لیے آخرت میں ان کے نیک کاموں کاکوئی اجروثواب نہیں ملے گا۔ جنت دنیا کی تمام تکالیف بھلادے گی حدیث:حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: وَيُؤْتَى بِأَشَدِّ الْمُؤْمِنِينَ ضُرًّا فِی الدُّنْیَا فَيُقَالُ اغْمِسُوهُ غَمْسَةً فِي الْجَنَّةِ قَالَ فَيُغْمَسُ غَمْسَةً فِی الْجَنَّۃِ فَيُقَالُ ھَلْ رَأَیْتُ ضُرّاً قَطُّ فَيَقُولُ لَا۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۲۱۔ مسنداحمد:۳/۲۰۳،۲۵۳۔ مسلم:۲۸۰۷۔ ابن ماجہ:۴۳۲۱۔ شرح السنۃ:۲۴۰۴) ترجمہ:روزِ قیامت دنیا میں سب مسلمانوں سے زیادہ دکھیارے کوپیش کیا جائے گا اور اس کے لیے حکم ہوگا کہ اس کوجنت میں ایک مرتبہ گھمادو؛ چنانچہ اس کوایک مرتبہ جنت میں گھمایا جائے گا؛ پھراس سے پوچھا جائے گا کیا تونے (دنیا، قبروغیرہ میں) کبھی کوئی تکلیف دیکھی تھی؟ تووہ (جنت کودیکھنے سے اپنے تمام دکھ تکالیف بھول جائے گا اور) کہے گا کبھی نہیں۔ جنت کی نعمت کے مقابلہ میں مؤمن کے دنیاوی دکھ کوئی حیثیت نہیں رکھتے: حضرت موسیٰ علیہ السلام یاکسی اور نبی نے عرض کیا: اے باری تعالیٰ! یہ آپ کی طرف سے کیا ہے؟ آپ کے دوست زمین میں جن کے خوف میں رہتے ہیں (بھوکے رہتے ہیں) قتل ہوتے ہیں، سولی چڑھائے جاتے ہیں، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے جاتے ہیں، ان کوکھانے پینے کوکچھ نہیں ملتا اور اسی طرح سے ان پربہت سی مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹتے رہتے ہیں جب کہ آپ کے دشمن زمین پرامن میں ہیں نہ وہ قتل ہوتے ہیں، نہ سولی چڑھتے ہیں، نہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے جاتے ہیں اور جوچاہتے ہیں کھاتے ہیں اور جوچاہتے ہیں پیتے ہیں اور اس طرح دیگرنازونعم میں پلتے ہیں؟۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا تم میرے اس بندہ کوجنت کی طرف سے لے چلو تاکہ یہ ان نعمتوں کودیکھے کہ ان جیسی کبھی نہیں دیکھی گئیں یہ سامنے چنے ہوئے آبخورے دیکھے برابر بچھے ہوئے غالیچے دیکھے اور جگہ جگہ پھیلے ہوئے مخمل کے نہالچے دیکھے، حورعین دیکھے، پھلوں کودیکھے اور ایسے خدمتگاروں کودیکھے گویا کہ وہ موتی کے دانے ہیں غلاف کے اندر؛ پھراللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جب میرے بندوں کی آخر منزل یہ ہو ان کودنیا کے دکھ کیا تکلیف پہنچائیں گے؛ پھراللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (اب) میرے (اس) بندے کو (باہر سے دوزخ) کی سیر کرانے کے لیے لے چلو توان کو دوزخ کی طرف لایا گیا تواس کے سامنے دوزخ سے ایک گردن نکلی (جس کودیکھ کر) یہ بندہ بے ہوش ہوگیا؛ پھرجب ہوش آیا تواللہ تعالیٰ نے فرمایا جو کچھ میں نے اپنے دشمنوں کودنیا میں دیا ہے اس سے ان کوکوئی نفع نہ ہوگا جب انکا انجام یہ ہو؟ تواس اللہ کے بندہ نے عرض کیا (بالکل اس کافر کودنیا کی نعمتوں کا) کوئی (فائدہ) نہیں۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۶۵،۶۶۔ مصنف ابن ابی شیبہ:۱۵۸۵۵، صفحہ نمبر:۱۳/۱۱۵) عظمتِ جنت: حدیث: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: لَايُسْأَلُ بِوَجْهِ اللَّهِ إِلَّاالْجَنَّةُ۔ (ابوداؤد، كِتَاب الزَّكَاةِ،بَاب كَرَاهِيَةِ الْمَسْأَلَةِ بِوَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى،حدیث نمبر:۱۴۲۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کرصرف جنت کا سوال کیا جائے۔ فائدہ: اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی عظمتوں اور شان والی ہے جس کا کوئی حدوحساب نہیں اس کا واسطہ دے کرچھوٹی موٹی چیز مانگنے سے حضورﷺ نے منع فرمایا ہے، ہاں اگرآپ کواس کے واسطہ سے سوال کرنا ہے توپھراس کے واسطہ سے جنت مانگی جائے، اس حدیث سے جنت کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ نوٹ:اس حدیث میں نہی تنزیہی ہے اللہ کا واسطہ دیکردوسری نعمتوں اور عذاب سے پناہ بھی مانگنا جائز ہے۔ (مستفاد ازقول علامہ سخاوی) جنت کی معمولی سی جھلک بھی کیا ہے: حدیث:حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: لَوْأَنَّ مَايُقِلُّ ظُفُرٌ مِمَّافِي الْجَنَّةِ بَدَا لَتَزَخْرَفَتْ لَهُ مَابَيْنَ خَوَافِقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ۔ (ترمذی، كِتَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ أَهْلِ الْجَنَّةِ،حدیث نمبر:۲۴۶۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جتنا (ایک قطرہ) کوئی ناخن (کسی چیز میں ڈوب کر) اٹھاتا ہے اتنا ہی جنت سے ظاہر ہوجائے تواس کی وجہ سے تمام آسمان اور زمین کے کنارے جگمگااٹھیں۔ ایک کوڑے جتنا جنت کا حصہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے: حدیث:حدیث ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: وَمَوْضِعُ سَوْطِ أَحَدِكُمْ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا۔ (ترمذی، كِتَاب فَضَائِلِ الْجِهَادِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،بَاب مَاجَاء فِي فَضْلِ الْمُرَابِطِ ،حدیث نمبر:۱۵۸۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:تمہارے کوڑے کی مقدار جتنا جنت کا حصہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ خلاصہ: حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جنت کی صفات اور خوبیوں کو سامنے رکھ کربطورِ ترغیب اور شوق دلانے کے جنت کی کچھ اس طرح سے عکس بندی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسے عظیم الشان گھر کی عظمت کے کیا پوچھنے جس کواللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود اپنے دستِ مبارک سے بنایا ہو اور اپنے محبوب اور عشاق کا مستقر ٹھہرایا ہو، اس کواپنی رحمت، شان اور رضامندی سے پرکیا ہو، اس کی نعمتوں کوعظیم کامیابی قرار دیا ہو، اس کی بادشاہی کوملک کبیر بنایا ہو، اس میں خوبیوں کوکامل طور پر مخصوص کردیا ہو اس کوہرقسم کے عیب، آفت اور نقصان سے پاک کردیا ہو۔ اگرتواس کی زمین اور خاک کو پوچھتے تووہ کستوری اور زعفران کی ہے۔ اگرتواس کی لپائی کے گارا کوپوچھے توہ خوشبودار کستوری کا ہے۔ اگرتواس کی بجری کوپوچھے تو وہ لؤلؤ اور جواہرکی ہے۔ اگرتوا س کی عمارت کوپوچھے تواس کی ایک اینٹ چاندی کی ہے اور ایک سونے کی ہے۔ اگرتواس کے درختوں کوپوچھے توان میں سے ہرایک درخت کا تنہ سونے اور چاندی کا ہے نہ کہ لکڑی کا۔ اگرتواس کے پھل کوپوچھےتومٹکوں کی طرح (بڑے بڑے) ہیں، جاگ سے زیادہ نرم اور شہد سے زیادہ میٹھے ہیں۔ اگرتوان کے پتوں کوپوچھے تووہ ایک باریک اور نفیس پوچاکوں سے بھی انتہاء درجہ کے حسین ہیں۔ اگرتوجنت کی نہروں کوپوچھے توکچھ نہریں دودھ کی ہیں جن کا ذائقہ بدستور قائم ہے اور کچھ نہریں شراب کی ہیں جوپینے والوں کے لیے خوب لذیذ ہوں گی اور کچھ نہریں صاف ستھرے شہد کی ہیں۔ اگرتوان کے طعام کوپوچھے تووہ میوے ہیں جون سے چاہیں پسند کرلیں گے اور گوشت ہوگا اڑتے جانوروں کا جس قسم کا جی چاہے گا۔ اگرتوان کے پینے کی چیزوں کوپوچھے گاتو وہ تسنیم، زنجبیل اور کافورپئیں گے۔ اور اگرتو ان کے برتنوں کوپوچھے تووہ سونے چاندی کے ہوں گے شیشے کی طرح صاف (کہ اندر کی چیز باہر نظر آئے گی)۔ اگرتوجنت کے دروازوں کی چوڑائی کوپوچھے تودروازے کے دوپٹوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے اس پرایک دن ایسا آنے والا ہے کہ رش کی وجہ سے بھیڑ لگی ہوگی۔ اگرتو جنت کے درختوں کی ہوا چلنے کوپوچھے تووہ اپنے سننے والے کومسحور کردیگی۔ اگرتوان کے سایہ کوپوچھے توان میں سے ایک ہی درخت ایسا ہے کہ تیز ترین سو (گھڑ) سوار سوسال تک اس کے سایہ میں چلتا رہے تب بھی اس کوطے نہ کرسکے۔ اگرتوجنت کی چوڑائی اور کشادگی کوپوچھے توسب سے کم درجہ کا جنتی اپنی مملکت، تخت، محلات اور باغات میں دوہزار سال کی مسافت تک چلتا رہے۔ اگرتوجنت کے خیموں اور قبوں کوپوچھے تو ان میں کاہرایک خیمہ ایسے خولدار موتی کا بنا ہوا ہے تمام خیموں میں مجموعی طور پراس کی لمبائی ساٹھ میل ہے۔ اگرتواس کے بالاخانوں اور کوٹھیوں کوپوچھے تویہ ایسے بالاخانے ہیں جوایک دوسرے کے اوپر بنائے گئے ہیں ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اگرتوان محلات کی بلندیوں کوسوال کرے توتوطلوع ہونے والے ستارے کودیکھ لے یاافق آسمان میں غروب ہونے والے ستارے کودیکھ لے جومشکل سے نظر آتا ہے۔ اگرتواہلِ جنت کے لباس کوپوچھے تووہ ریشم اور سونے کا ہوگا۔ اگرتواس کے بچھونوں کوپوچھے توان کا بسترموٹے ریشم کا ہے، جوبڑے سلیقہ سے بچھایا گیا ہے۔ اگرتوان کی مسہریوں کوپوچھے تووہ ایسے تخت ہیں جن پرسونے کے نگینوں سے شاہی مسہریوں کی چھت بنی ہوئی ہے نہ توان میں کوئی پھٹن ہے نہ سوراخ۔ اگرتواہلِ جنت کی عمرکوپوچھے تووہ حضرت آدم ابوالبشر علیہ السلام کی شکل پر۳۳/سال کی عمر میں ہوں گے۔ اگرتوجنت والوں کے چہروں کواور ان کے حسن کوپوچھے تووہ چاند شکل ہوں گے۔ اگرتوان کے گیت کوپوچھےتوان کی بیویاں حورعین خوشالحانی کریں گی اور ان سے زیادہ خوبصورت آواز فرشتوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کی ہوگی اور ان سب سے بلند تررب العالمین کے خطاب کا حسن ہوگا۔ اگرتوجنت والوں کی سواریوں کوپوچھے جن پروہ سوار ہوکر ایک دوسرے کی ملاقات اور زیارتیں کریں گے تووہ نہایت شان وشوکت اور اعلیٰ درجہ کی سواریاں ہوں گی جن کواللہ تعالیٰ نے اپنی منشاء سے جس چیز سے چاہا پیدا کیا ہے یہ جنت والے ان پرسوار ہوکر جہاں چاہیں گے جنتوں کی سیر کریں گے۔ اگرتوان کے زیور اور لباس کی زیب وزینت کوپوچھے توکنگن توسونے اور اعلیٰ درجہ کے موتیوں کے ہوں گے اور سروں پرشاہی تاج ہوں گے۔ اگرتواہلِ جنت کے چھوکروں کوپوچھے تووہ ہمیشہ رہنے والے ایسے لڑکے ہوں گے گویا کہ وہ (غایت حسن وجمال میں) حفاظت سے رکھے ہوئے موتی ہیں۔ اگرتوان کی دلہنوں اور بیویوں کوپوچھے تووہ نوخواستہ (نوجوان) عورتیں ہوں گی ہم عمر، جن کے اعضاء میں آب شباب گردش کرتا ہوگا، گلاب اور سیب جیسے رخسار ہوں گے، منظوم موم بتیوں کی شکل دانتوں میں سمارکھی ہوگی، کمرنرم ونازک ہوگی، جب چہرے کا جلوہ دکھائے توسورج اس کے مکھڑے کی رعنائیوں میں لہلہاتا ہو، جب مسکرائے توبجلی اس کے دانتوں سے چمک اٹھے، جب تیرا اس کی شیفتگی سے آمنا سامنا ہوتو دوخوبصورت ستاروں کے مقابلہ میں توجوجی میں آئے کہہ سکتا ہے، جب وہ جنتی سے کلام کرے گی تو، تودومحبوبوں کی باہمی گفتگو کے متعلق یہ گمان کرتا ہے؟ جنتی اس جنت کی دلہن کے صحن رخسار میں دیکھے گا، جیسے صاف شفاف آئینہ میں کسی چیز کودیکھا جاتا ہے، گوشت کے اندر سے ہڈی کے اندر کا حصہ بھی نظر آئے گا نہ تواس کے سامنے اس کی جلد پردہ بنے گی نہ اس کی ہڈی اور نہ ہی اس کی پوشاکیں؛ اگر(جنت کی یہ عورت) زمین پرجھانک لے توآسمان وزمین کی فضا کوخوشبو سے معطر کردے اور تمام مخلوقات کی زبانوں کوکلمہ تکبیر اور تسبیح پکارنے پربے ساختہ مجبور کردے اور اس کی وجہ سے دنیا کے دونوں کنارے سج جائیں اور اپنے غیر کے دیکھنے سے تمام آنکھوں کوبند کرادے اور ہاں سورج کی روشنی کوایسے ماند کردے جس طرح سے سورج ستاروں کی روشنی کوماند کردیتا ہے اور روئے زمین پر بسنے والے سب اللہ، حی وقیوم پرایمان لے آئیں، اس کے سرکادوپٹہ دنیا اور اس کی سب چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے اور اس سے صحبت تمام خواہشات سے زیادہ تڑپانے والی ہے، جتنا زمانوں پرزمانے بیتتے جائیں گے وہ حسن وجمال میں ترقی کرتی چلی جائے گی، طویل زمانہ گذرنے پر بھی اس کی محبت اور ملاپ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، وہ حمل، ولادت، حیض ونفاس سے پاک ہوگی، نزلہ، بلغم، پیشاب، پاخانہ اور دیگرگندگیوں سے بھی پاک ہوگی، اس کی جوانی نہ جائے گی، اس کا لباس پرانا نہ ہوگا، نہ اس کے حسن کی رعنائیاں ضعیف پڑیں گی، نہ اس کی صحبت کی چاشنی سے دل بھرے گا، اس کی نگاہ (ناز وادا وغیرہ) بس اپنے خاوند کی طرف ہی رہے گی اس لیے وہ کسی غیرکی طمع نہ کرے گی، اسیے ہی جنتی مرد کی نگاہ (اور چاہت) اس حور کی طرف رہے گی اور یہی اس کی انتہائے خواہش ہوگی؛ اگر یہ اس کی طرف نظر کرے تواس کوخوش کردے گی۔ اگرحکم کرے توتسلیم کرے گی؛ اگراس سے دور جائے تواس کی حفاظت کرے گی یہ اس حور کے ساتھ ساتھ رہے گا خواہشات اور پاکدامنی کے ساتھ، یہ ایسی ہے جس کوکسی اور انسان اور جن نے ہاتھ تک نہ لگایا ہوگا، جب جنتی اس حور کودیکھے گا اس کا دل سرور ولذت دیدار سے اچھل اچھل جائے گا اور جب وہ جنتی سے بات کرے گی اس کے کانوں کوبکھرے ہوئے اور منظوم موتیوں سے سجادے گی اور جب اپنا جلوہ دکھائے گی تومحل اور بالاخانہ کوچمکادے گی۔ اگرتوان کے سن کوپوچھے توہم عمر سن شباب کی مناسب ترین عمر میں ہوں گی۔ اگرتوان کے حسن وجمال کوپوچھے توکیا تونے سورج اور چاند دیکھا ہے؟۔ اگرتو آنکھ کی سیاہی کوپوچھے تووہ صاف شفاف سفیدی میں خوبصورت سیاہی ہے، خوبصورت گہرائی ہے؛ اگرتوان کے قدوں کوپوچھے توکیا تونے خوبصورت ٹہنیاں دیکھی ہیں۔ اگرتوان کے رنگ وروپ کوپوچھے توگویا کہ وہ یاقوت ومرجان (جیسی) ہیں۔ اگرتوان کے حسن تخلیق کوپوچھے تووہ عورتیں ہیں گوری رنگت والی جن میں خوبیاں اور خوبصورتیاں سب جمع کردی گئی ہیں، ان کوجمال ظاہری وباطنی سے سنوارا گیا ہے، وہ دلوں کی بہار ہیں آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ اگرتواس کے ساتھ عیش ونشاط اور مباشرت کی دلربائی کا اور وہاں کے مزہ کا پوچھے تووہ پیار کرنے والی، خاوندوں پرمرنے والی، خاوندوں کے حقوق کوحسن اسلوب سے اسی طرح سے ادا کرنے والی ہیں جس ذوق سے وہ چاہت کریں گی۔ تمہارا اس عورت کے متعلق کیا خیال ہے جب خاوند کے سامنے مسکرائے اور اپنی مسکراہٹ سے جنت جگمگاڈالے؛ اگروہ ایک محل سے دوسرے میں منتقل ہوتو، تویہ کہے کہ یہ (حسن کا) ایک سورج ہے جواپنے فلک کے ایک برج میں منتقل ہوا ہے، جب اس سے گفتگو کی جائے گی تواس گفتگو کے حسن پہ قربان؛ اگروہ سینے سے لگائے گی تواس کے لذت ملاپ اور معانقہ کی کیا انتہاء ہے؛ اگروہ سریلی آواز سے نغمہ سرائی کرے گی توآنکھوں اور کانوں کولبھادے گی؛ اگروہ محبت پیار سے میل جول کرے گی اور اپنے سے مستفید کرے گی توایسی پیار بھری موانستہ اور استادہ کوخوش آمدید؛ اگروہ بوس وکنار کرے تواس کے بوسہ سے زیادہ دل پسند کوئی شے نہیں؛ اگراس سے صحبت کی جاے گی تواس سے زیادہ لذت اور نشاط کہیں نہیں ہوگی۔ یہ توجنت اور اس کی حوروں کا حال رہا؛ اگرتویوم مزید کوپوچھے اور پروردگارِ عالم کی زیارت اور چہرہ کوتواس کی کوئی صفت اور شان جاہ جمال کی بن نہیں آتی یہ توصرف مشاہدہ سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ اس کا بیان دیدارِ خداوندی کے بیان میں ملاحظہ فرمائیں: جنت کہاں ہے؟ (۱)اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىo عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَىo عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى۔ (النجم:۱۳۔۱۵) ترجمہ:آنحضرتﷺ نے (وحی لانے والے) فرشتہ کو ایک اور دفعہ بھی (اصل صورت میں) دیکھا سدرۃ المنتہیٰ کے پاس، اس کے پاس جنت الماویٰ ہے۔ فائدہ: سدرۃ بیری کے درخت کوکہتے ہیں اور منتہی کے معنی انتہاء کی جگہ چنانچہ حدیثو میں آیا ہے کہ یہ ایک بیری کا درخت ہے ساتویں آسمان میں، عالم بالا سے جواحکام اور رزق وغیرہ آتے ہیں وہ پہلے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں پھروہاں سے فرشتے زمین پرلاتے ہیں؛ اسی طرح سے جواعمال اوپر جاتے ہیں وہ بھی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں پھروہاں سے اوپر اٹھالیے جاتے ہیں، دنیا میں ا س کی مثال ڈاک خانہ جیسی سمجھ لیں کہ خطوط کی آمد ورفت وہاں سے ہوتی ہے؛ اسی مقام کی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا: عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى اسی کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے ماوی کے معنی ہیں رہنے کی جگہ چونکہ جنت نیک بندوں کے رہنے کی جگہ ہے اس لیے اسے جنت الماویٰ فرمایا ہے۔ (بیان القرآن:۱۱/۷۲، بتغیر) (۲)اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَاتُوعَدُونَ۔ (الذاریات:۲۲) ترجمہ:اورتمہارا رزق اور جوتم سے (جنت کا) وعدہ کیا گیا آسمان میں (اوپر) ہے۔ مشہور تابعی مفسر حضرت مجاہدؒ وَمَاتُوعَدُونَ سے جنت مراد لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہم نے اس آیت کی تفسیر کے متعلق اہلِ علم سے یہی پڑھا ہے۔ (حاوی الارواح:۹۶) حدیث:حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ شان والے نبی حضرت ابوالقاسمﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: وَإِنَّ الْجَنَّۃَ فِی السَّمَاءِ۔ (حاوی الارواح:۹۶۔ صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۱۶۵۔ مستدرک حاکم:۴/۵۶۸) ترجمہ:جنت آسمان میں ہے۔ فائدہ:عربی میں سماء اوپر کوبھی کہتے ہیں؛ چونکہ قیامت کے بعد آسمان وزمین باقی نہیں رہیں گی، جنت والے بلند درجات میں ہوں اور دوزخ والے انتہاءکی پستی میں ہوں گے، اس لیے مختلف روایات کوجمع کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جنت اوپر ہوگی اور دوزخ نیچے ہوگی؛ مگرجنت والے دوزخیوں کوجب چاہیں گے دیکھ سکیں گے۔ (امدادا اللہ انور) حدیث:حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہﷺ سے فرماتے ہوئے سنا: فان الجنۃ درجۃ بین کل درجتین منہا مثل مابین السماء والارض واعلیٰ درجۃ منہا الفردوس وعلیھا یکون العرش۔ (صفۃ الجنۃ لابن کثیر:۳۸، بحوالہ:طبرانی) ترجمہ:جنت کے سودرجے ہیں ان میں سے ہردودرجوں کے درمیان آسمان وزمین کے درمیانی فاصلہ جتنا فاصلہ ہےاور ان سب درجات میں سے اعلیٰ درجہ فردوس ہے عرش اس پرہوگا۔ فائدہ:جنت کے درجات اوپر کوہوں گے اس لیے جنت الفردوس والا درجہ سب سے اوپر اور عرش کے نیچے ہوگا؛ لہٰذا جب انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کرے توآنحضرتﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جنت الفردوس کا سوال کرے۔ فائدہ: ایک حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ حافظِ قرآن کواللہ تعالیٰ قیامت کے دن ارشاد فرمائیں گے: اقْرَأْ وَارْقِ فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر:۱۴۶۴۔ ترمذی، حدیث نمبر:۲۹۱۵۔ ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۷۸۰، فی الادب) ترجمہ:قرآن پاک کی تلاوت کرتے جاؤ اور اوپر چڑھتے جاؤ تمہاری وہی منزل ہوگی جہاں آخری آیت تلاوت کروگے۔ فائدہ:حفاظ قرآن کے لیے عظیم خوشخبری ہے کہ حفظ قرآن کی برکت سے ان کوحکم ہوگا کہ جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے تلاوت قرآن کرتے چلے جاؤ جہاں تک تم اپنے حفظ سے پڑھ سکووہی تمہارا آخری مقام ہوگا، اس لیے قارئین کرام سے گذارش ہے کہ جوحضرات حافظ نہیں ہیں وہ قرآن پاک کوحفظ کرکے جنت کے آخری مقامات حاصل کریں اور جوحفظ کرچکے ہیں وہ اس کوخوب یاد رکھیں تاکہ وہ اس مضبوط حفظ کے ذریعہ سے جنت کا اعلیٰ مقام حاصل کرسکیں، ہم نے حفظ وحفاظ قرآن کی عظمت اور شان کے متعلق ایک جامع اور شاندار کتاب تیار کی ہے؛ اگرقارئین حضرات اس کا مطالعہ کریں تواُمید ہے کہ ان کوحفظ قرآن کی فضیلت حاصل ہوگی؛ بلکہ اپنے گھر میں اور اعزہ کو بھی حفظ کی دولت نصیب ہوگی، انشاء اللہ۔ (امداد اللہ) جنت پیدا ہوچکی ہے: ارشادِ خداوندی ہے: وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ۔ (آل عمران:۱۳۳) ترجمہ:اور مغفرت کی طرف دوڑو جوتمہارے پرورگاد رکی طرف سے نصیب ہو اور (دوڑو) جنت کی طرف یعنی ایسے نیک کام کرو جس سے پروردگارتمہاری مغفرت کردیں اور تم کوجنت عنایت ہو اور وہ جنت ایسی ہے، جس کی وسعت ایسی (تو) ہے (ہی) جیسے سب آسمان اور (اور زیادہ کی نفی نہیں؛ چنانچہ واقع میں زائد ہونا بھی ثابت ہے اور) وہ تیار کی جاچکی ہے، خدا سے ڈرنے والوں کے لیے۔ فائدہ: اس آیت کے اخیر عبارت میں واضح طور پرموجود ہے کہ جنت تیار کی جاچکی ہے اور سورہ نجم آیت ۱۳ تا ۱۵ کی رو سے تمام علمائے اہلِ سنت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جنت بنائی جاچکی ہے۔ (حاوی الارواح:۳۵،۳۶،۴۰) اس مضمون کی مکمل تفصیلات دیگرمضامین کی احادیث میں موجود ہیں مکمل کتاب ملاحظہ کرنے سے اس کی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں جنت اور دوزخ اب بھی موجود ہیں، جنت نیکوں کے لیے تیار کی گئی ہے اور دوزخ کافروں کے لیے جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے اور رسول اللہﷺ کی احادیث متواتر طور پر وارد ہوئی ہیں؛ یہی عقیدہ اہلِ سنت والجماعت کا ہے جولوگ یہ کہتے ہیں کہ جنت اور دوزخ قیامت کے دن پیدا ہوں گی ان کواحادیث صحیحہ سے واقفیت نہیں۔ (نہایہ ابن کثیر) حضورﷺ نے معراج میں جنت کودیکھا ہے: حدیث:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بَيْنَمَا أَنَاأَسِيرُ فِي الْجَنَّةِ إِذَاأَنَابِنَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ اللؤلؤ الْمُجَوَّفِ فَقُلْتُ مَاهَذَا؟ قَالَ: الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ رَبُّكَ۔ (صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۸۹۔ترمذی:۳۳۶۰) ترجمہ:میں جنت میں چل رہا تھا کہ اچانک ایک نہرپرپہنچا جس کے دونوں کنارے خولدار موتی کے قبے تھے میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ (حضرت جبریل نے) فرمایا یہ وہ کوثر (نہر) ہے، جوآپ کوآپ کے پروردگار نے عطاء فرمائی ہے۔ فائدہ:اس مسئلہ میں کم وبیش سینکڑوں دلائل احادیث شریف میں وارد ہیں ہم نے بطورِ خلاصہ صرف ایک آیت اور ایک حدیث کے ذکرپراکتفاء کیا ہے، اہلِ طلب نہایہ ابن کثیر جلددوم، البعث والنشور، امام بیہقی اور حاوی الارواح ابن قیم کی طرف رجوع فرمائیں؛ نیزوجود جنت پرمتفرق دلائل کتاب ہذا میں بہت جگہ ذکر کئے گئے ہیں ان کوبھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اب تومجھے صرف جنت چاہئے: عجیب حکایت محمدبن سماک فرماتے ہیں کہ بنی امیہ میں موسیٰ بن محمدبن سلیمان ہاشمی سب سے زیادہ عیاش اور بے فکر تھا، رات دن کھانے پینے پہننےاور خوبصورت لونڈیوں کے ساتھ مشغول ہونے اور آرام طلبی اور تن پروری کے سوا کوئی کام دین ودنیا کا نہیں کرتا تھا اور حسن صورت بھی اللہ تعالیٰ نے اسے اس درجہ عطا فرمایا تھا کہ دیکھنے والا بے اختیار سبحان اللہ بول اُٹھتا تھا، چہرہ ایسا روشن تھا جیسے چودھویں رات کا چاند؛ غرض اللہ تعالیٰ نے اس کوہرطرح کی نعمتِ دنیاوی مرحمت فرمائی، سال بھر میں تین لاکھ تین ہزار دینار (تقریباً ۱۸۱۸۰۰۰۰۰۰، ایک ارب اکیاسی کروڑ اسی لاکھ روپے) کی آمدنی تھی ان سب کواپنے عیش وعشرت یں اڑادیتا تھا، اس نے ایک بہت بلند بالاخانہ اپنے رہنے کے لیے بنارکھا تھا اور اس کے دونوں طرف دریچے تھے، ایک طرف کے دریچے توشارع عام کی طرف کھلتے تھے، جس سے شام کوبیٹھ کرآنے جانے والوں کی سیرکرتا تھا اور دوسری طرف کے دریچے چمنستان میں تھے اس طرف بیٹھ کر چمنستان سے دل بہلاتا تھا اور اس بالاخانہ کے اندر ایک ہاتھی دانت کا قبہ چاندی کی میخوں سے جڑا ہوا اور سونے سے ملمع کیا ہوا تھا اور اس میں ایک نہایت قیمتی تخت تھا اس پروہ جلوہ افروز ہوتا اور بدن پرنہایت بیش بہا کپڑا اور سرپرموتیوں کا جڑاؤ عمامہ ہوتا اور ادھر اُدھر بھائی برادر اور یارانِ جلسہ کا جمگھٹا اور پیچھے غلام وخادم کھڑے رہتے اور قبہ سے باہرگانے والی عورتیں رہتیں، قبہ میں اور ان عورتوں میں ایک پردہ حائل تھا، جب چاہتا انہیں دیکھتا اور جب راگ کودل چاہتا توپردہ ہلادیتا وہ گانا شروع کردیتیں اور جب بند کرنا چاہتا توپردہ کی طرف اشارہ کردیتا وہ چپ ہوجاتیں تھیں؛ غرض اسی شغل میں اس کی رات گزرتی، رات کویاران جلسہ اپنے اپنے گھر چلے جاتے تھے اور وہ جس کے ساتھ چاہتا تھا خلوت کرتا تھا اور صبح کوشطرنج اور نرد کھیلنے والوں کا اکھاڑہ جمتا کوئی اس کے سامنے بیماری یاموت یاکسی ایسی شے کا جس سے غم پیدا ہو ذکرنہ کرنے پایا، حکایات اور عجیب وغریب باتیں جن سے ہنسی دل لگی ہو اس کے سامنے ہوتیں اورہرروز نئی نئی پوشاکیں اور قسم قسم کی خوشبوئیں استعمال کرتا اسی حال میں اسے ستائیس برس گذرگئے۔ ایک رات کا قصہ ہے کہ وہ اپنے معمول کے موافق لہوولعب میں مشغول تھا اور کچھ حصہ رات کا گذرا تھا کہ ایک نہایت دردناک آواز اپنے مطربوں کی آواز جیسی سنی اور اس کے سننے سے اس کے دل پرایک چوٹ سی پڑی اور اپنے اس لہو ولعب کوچھوڑ کر اس کی طرف مشغول ہوگیا اور مطربوں کوحکم دیا کہ گانا بند کرو اور قبہ کی کھڑکی سے وہ آواز سننے کے لیے منہ نکالا، کبھی تووہ آواز کان میں آجاتی اور کبھی نہ آتی، اپنے غلاموں کوآواز دی کہ اس آواز دینے والے کویہاں لے آؤ اور خود شراب کے نشے میں چورتھا، غلام اس کی تلاش کے لیے نکلے، رفتہ رفتہ اس تک پہنچے دیکھا کہ ایک جوان ہے نہایت لاغر ہے اس کی گردن بالکل سوکھ گئی ہے اور رنگ زرد اور لب خشک، پریشان بال،پیٹ اور پیٹھ دونوں ایک اور دوپھٹی پرانی چادریں اوڑھے ہوئے ننگے پاؤں مسجد میں کھڑا اپنے پاک پروردگار کے سامنے مناجات کررہا ہے؛ انہوں نے اسے مسجد سے نکالا اور لے گئے اور کچھ بات چیت اس سے نہ کی اسے لے جاکر سامنے کھڑا کردیا اس نے دیکھا پھر پوچھا یہ کون ہے؟ سب نے عرض کیا حضور یہ وہی آواز والا ہے، جس کی آواز آپ نے سنی، پوچھا یہ کہاں تھا؟ کہا کہ مسجد میں کھڑا ہوا نماز میں قرآن پڑھتا تھا، اس سے پوچھا تم کیا پڑھ رہے تھے؟ کہا میں کلام اللہ پڑھ رہا تھا، کہاکہ ذراہم کوبھی سناؤ!: اس نے آعُوْذُ اور بِسْمِ اللہ پڑھ کر: إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍo عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَo تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِo يُسْقَوْنَ مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍo خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَo وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِيمٍo عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ (المطففین:۲۲۔۲۸) ترجمہ: بے شک نیک بندے آرام میں ہوں گے تختوں پر بیٹھے (سیر) دیکھ رہے ہوں گے، توپہچانے گا ان کے چہروں پرتازگی نعمت کی، ان کوپلائی جائے گی خالص شراب سربمہر، اس کی مہر (بجائے موم کے) مشک کی ہوگی اور اس شراب میں رغبت کرنے والوں کو چاہئے کہ رغبت کریں اور اس میں تسنیم ملی ہوئی ہوگی، وہ ایک چشمہ ہے جس سے مقرب بندے پئیں گے۔ یہ آیت پڑھ کر اور ترجمہ سناکر اس سے کہا: ارے دھوکہ میں پڑے ہوئے وہاں کی نعمتوں کا کیا بیان ہے وہ کہاں اور تیرا یہ قبہ اور مجلس کہاں؛ چہ نسبتِ خاک راباعالم پاک، وہاں تخت ہیں ان پربچھونے اونچے اونچے ہوں گے اور ان کے بستراستبرق کے ہوں گے اور سبزقالینوں اور قیمتی بچھونوں پرتکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے اور وہاں دونہریں بہتی ہیں، اس میں ہرمیوہ کی دوقسم ہیں، نہ وہاں کے میوے کبھی ختم ہوں گے نہ ان سے کوئی جنتی کوروکنے والا ہوگا، بہشت بریں کے پسندیدہ عیش میں رہیں گے اور وہاں کوئی بے ہودہ کلام نہ سنیں گے اور اس میں اونچے اونچے تخت ہیں اور آبخورے رکھے ہوئے ہیں اور تکیے ایک قطار میں رکھے ہوئے ہیں اور مخملی نہالچے بکھرے پڑے ہوں گے، ہمیشہ سایہ اور چشموں میں رہیں گے اور جنت کے پھل دائمی ہیں، یہ سب تومتقیوں کے لیے ہے۔ اب کافروں کی سنئے! ان کے لیے آگ ہے اور آگ بھی ایسی کہ جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور عذاب کبھی ہلکا نہ کیا جائے گا؛ اسی میں نااُمید پڑے رہیں گے اور جب انہیں منہ کے بل گھسیٹیں گےتوان سے کہا جائے گا یہ عذاب چکھو غرض کہ ان پرطرح طرح کا عذاب ہوگا۔ جب اس ہاشمی نے یہ سنا توبے اختیاراٹھا اور اس جوان سے لپٹ کر چلاچلاکر رونے لگا اور اپنے سب لوگوں سے کہا کہ میرے پاس سے چلے جاؤ اور خود اس جوان کولے کرگھر کے صحن میں آکر ایک بورئے پر بیٹھ گیا اور اپنی جوانی کے رائیگاں جانے پرافسوس اور حسرت اور نفس کوملامت کرتا رہا اور وہ جوان نصیحت کرتا رہا، صبح تک دونوں اسی میں مشغول رہے، ہاشمی نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ کبھی حق تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرونگا اور اپنی توبہ کواس نے سب کے سامنے ظاہر کردیا اور مسجد میں بیٹھ رہا؛ ہروقت عبادتِ الہٰی میں رہنے لگا اور تمام سونا چاندی کے کپڑے بیچ کرصدقہ کرڈالے اور تمام نوکرچاکر الگ کردیئے اور غصب کی تمام جائیدادیں ان کے مالکوں کوواپس کردیں اور کل جائیداد، لونڈی غلام بیچ ڈالے اور جس کوآزاد کرنا چاہا آزادکردیا اور موٹے کپڑے پہن لیے اور جوکی روٹی کھانے لگا؛ پھرتویہ حالت ہوگئی کہ ساری ساری رات بیداری میں گذرتا دن کوروزہ رکھتا اور بڑے بڑے صلحاء اس کی زیارت کوآتے اور اس سے کہتے بھائی اپنے نفس کواتنی سختی میں نہ رکھ کچھ آرام بھی دے، اللہ تعالیٰ کریم ورحیم تھوڑے سے کام کی بھی قدردانی فرماتا ہے، وہ جواب دیتا بھائیو! میں نے بڑے بڑے گناہ کئے ہیں رات دن اللہ کی نافرمانی میں رہا ہوں اور یہ کہہ کرخوب روتا۔ آخر کار پاپیادہ ننگے پاؤں اور بدن پرایک بہت موٹا کپڑا پہنے ہوئے حج کے لیے گیا اور سوائے ایک پیالہ اور توشہ دان کے کوئی چیز ساتھ نہ لی اسی حالت میں چلتے چلتے مکہ کوپہنچا اور حج کیا اور وہیں اقامت کی اور مرگیا، مکہ میں رہنے کے زمانہ میں یہ حالت تھی کہ رات کوحجراسود کے پاس جاکرروتا اور گڑگڑاتا اور اپنے نفس پرگذشتہ افعال یاد کرکے نوحہ وزاری کرتا اور کہتا کہ:اے میرے پروردگار! اے میرے مولا! میری سینکڑوں خلوتیں غفلت میں گذرگئیں اور کتنے ہی برس گناہوں میں ضائع ہوئے، اے میرے مولا! میری نیکیاں توسب جاتی رہیں اور حسرت وندامت باقی رہ گئی، اب جس دن آپ سے ملوں گا اور میرے نامہ اعمال کھولے جائیں گے اور دفتر کے دفتر گناہوں اور رسوائیوں کے ظاہر ہوں گے اس روز کیا ہوگا اور کس طرح منہ دکھاؤنگا، اے میرے مولا! اب میں تیرے سوا کس سے التجاکروں؟ اور کس طرف دوڑوں؟ کس پربھروسہ کروں؟ میرے مولا! میں اس لائق توہوں نہیں کہ جنت کا سوال کروں میں توآپ کے دریائے رحمت ناپیدا کنار اور آپ کے ابرفضل وعطا سے یہ سوال کرتا ہوں کہ میری خطاؤں کوبخش دیجئے، آپ ہی مغفرت والے ہیں۔ (روض الریاحین من حکایات الصالحین، امام یافعی یمنی) مال کے بدلہ میں جنت کے محل کی خریداری: جعفر بن سلیمانؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرا اور مالک بن دینار رحمہ اللہ کا بصرہ میں گذرہوا پھرتے پھرتے ایک عالی شان محل پرپہنچے اندر گئے تودیکھا کہ اس پرمستری اور مزدور لگے ہوئے ہیں اور ایک طرف ایک نہایت خوبصورت نوجوان ہم نے کبھی ایسا حسین شخص نہ دیکھا تھا اس محل کی تعمیر کا انتظام کررہا ہے اور معماروں اور مزدوروں سے کہہ رہا ہے کہ فلاں فلاں کام اس طرح کرو، یہ دیکھ کرمجھ سے مالک بن دینارؒنے کہا: دیکھتے ہو یہ جوان کیسا حسین ہے اور اس مکان کے بنانے پر کس قدر حریص ہے، مجھے تواس کی حالت پررحم آتا ہے اور جی یہ چاہتا ہے کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کروں کہ اس کومخلص وبرگزیدہ بنادے، کیا عجب ہے کہ یہ نوجوان جنت کے جوانوں میں سے ہوجائے، ہم اس گفتگو سے فارغ ہوکر اس جوان کے پاس گئے اور سلام کیا، اس نے سلام کا جواب دیا؛ مگرمالک رحمہ اللہ کواس نے نہ پہچانا، کچھ دیر بعد جب اس نے پہچانا توتعظیم کے لیے کھڑا ہوگیا اور بہت آؤبھگت کی اور عرض کیا حضرت کیسے تکلیف فرمائی، مالکؒ نے فرمایا: میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ اس محل میں تمہارا کس قدر مال صرف کرنے کا ارادہ ہے، کہا ایک لاکھ درہم، مالکؒ نے کہا: کہ یہ سب مال تم مجھے نہیں دے سکتے کہ میں اسے موقع پرخرچ کردوں اور تمہارے لیے اس سے عمدہ محل کا ذمہ دار ہوجاؤں اور صرف محل ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اس کا سامان، لونڈی، غلام، خادم، سرخ یاقوت کے قبے، خیمے سب ہوں گے اور محل کی مٹی زعفران اور مشک کی ہوگی اور تیرے اس محل سے پائیدار اور بہت وسیع ہوگا، ابدالاباد تک قائم رہے گا اور اس کوکسی معمار کا ہاتھ نہ لگا ہوگا، صرف اللہ تعالیٰ کے کن (ہو) فرمانے سے بنا ہوگا، اس جوان نے کہا: آپ مجھے آج رات کی مہلت دیجئے اور کل صبح پھرتشریف لائیے، مالکؒ نے فرمایا: بہت بہتر، جعفر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مالک بن دینار کوتمام رات اس جوان کا خیال رہا جب صبح ہونے کے قریب ہوئی تواللہ تعالیٰ سے اس کے لیے خوب دعا فرمائی اور صبح ہی ہم دونوں پھراس کے پاس پہنچے دیکھا کہ جوان محل کے دروازہ پربیٹھا ہے، جب اس نے مالک رحمہ اللہ کودیکھا بہت خوش ہوا اور کہا کل کا وعدہ بھی یاد ہے، مالکؒ نے فرمایا: ہاں! یاد ہے، کیا تم ایسا کروگے؟ کہاں ہاں ضرور، یہ کہہ کر اس نے مال کے توڑے منگائے اور ان کے سامنے رکھ دیئے اور دوات قلم اور کاغذ منگایا مالکؒ نے اس کاغذ پراس مضمون کا اقرار نامہ لکھ دیا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ تحریر اس غرض سے ہے کہ مالک بن دینار فلاں بن فلاں کے لیے اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا ایسا محل بمعاوضہ اس کے اس محل کے دلانے کا ضامن ہوگیا ہے اور اگراس محل میں اس سے زیادتی ہوتووہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور بمعاوضہ اس مال کے میں نے اس کے لیے ایک اور محل جنت میں اس کے محل سے زیادہ وسیع خرید کرلیا ہے اور وہ محل اللہ تعالیٰ کے سائے اور قرب میں ہوگا، فقط۔ یہ لکھ کر اس جوان کے حوالہ کیا اور وہ سب مال لےآئے اور دن بھر میں سب کا سب تقسیم کردیا، شام کومالک کے پاس رات کے گزراے کے سوا کچھ نہ تھا اس واقع کوچالیس دن گذرے تھے کہ ایک روز مالکؒ صبح کی نماز سے فارغ ہوکر تشریف لے جارہے تھے کہ یکایک محراب پرجونظر پڑی دیکھا تواس کی پشت پربغیر سیاہی کے یہ لکھا ہوا ہے کہ : یہ اللہ عزیز حکیم کی طرف سے مالک بن دینارؒ کے لیے برأت اور فارغ خطی ہے جس محل کی تم نے ہمارے اوپر ضمانت کی تھی وہ ہم نے اس جوان کودے دیا، سترحصے اور زیادہ دیا مالک یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور اسے لے کراس جوان کے گھر گئے دیکھا تواس کا دروازہ سیاہ ہے اور گھر سے رونے کی آواز آرہی ہے، ہم نے جوان کا حال پوچھا تومعلوم ہوا کہ وہ کل مرگیا ہے؛ پھرہم نے غسل دینے والے کوبلاکر پوچھا کہ کیا تم نے اس جوان کوغسل دیا ہے؟ اس نے کہا ہاں! میں نے ہی دیا ہے، مالکؒ نے پوچھا اچھا بیان کرو اس کی موت کس طرح ہوئی؟ کہا اس نے مرنے سے پہلے مجھ سے یہ کہا کہ جب میں مرجاؤں تومجھ کوتم غسل وکفن دینا اور ایک پرچہ دیا اور یہ کہا کہ اس پرچہ کوکفن میں رکھ دینا، میں نے اس پرچہ کوکفن میں رکھ دیا اور اسے دفن کردیا، مالکؒ نے وہ پرچہ جومحراب سے ملا تھا نکال کردکھایا وہ دیکھ کرفوراً بول اٹھا کہ خدا کی قسم! وہ یہی پرچہ تھا، جو میں نے کفن کے اندر رکھ دیا تھا، اس کے بعد ایک جوان کھڑا ہوا اور مالکؒ سے کہا: میں آپ کودولاکھ درہم دیتا ہوں آپ میرے لیے بھی ایسے محل کے کفیل ہوجائیے فرمایا: ہوگیا جوہونا تھا، وہ بات گئی اللہ تعالیٰ جوچاہتا ہے وہ کرتا ہے، اس کے بعد مالک بن دینارؒ جب کبھی اس جوان کویاد کرتے تھے روتے تھے اور اس کے لیے دعا فرماتے تھے۔ (روض الریاحین) زندگی میں جنت کے گھر کی اطلاع: ایک شخص کہتے ہیں کہ ایک بزرگ نے مجھ سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک شخص مجھ سے کہہ رہا ہے کہ ہم تیرا گھربناچکے ہیں اگرتواسے دیکھے گاتوتیری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور ایک ہفتے کے اندر اندر اسے صاف کرنے اور دھونی دینے کا میں نے حکم دے دیا ہے اور اس مکان کانام دارالسرور ہے توخوش ہوجا، راوی کہتا ہے کہ جب ساتواں روز آیا اور وہ جمعہ کا روز تھا وہ شخص سویرے سویرے اٹھ کروضو کے لیے نہرپرگیا نہر میں اترنا چاہتا تھا کہ پاؤں پھسلا اور نہر میں ڈوب گیا، نماز کے بعد ہم نے اسے نکال کردفنایا، تین دن کے بعد میں نے اسے خواب میں دیکھا کہ سبزریشم کا لباس پہنے ہوئے تھا، میں نے اس سے حال دریافت کیا؟ توکہنے لگا کہ حق تعالیٰ نے مجھے دارالسرور میں اتارا جومیرے لیے تیار فرمایا تھا، میں نے پوچھا وہ کیسا مکان ہے؟ اس کی کچھ تعریف توکرو، کہا: افسوس اس کی کوئی تعریف کرہی نہیں سکتا، کاش! میرے اہل وعیال کوبھی معلوم ہوتا کہ ان کے لیے بھی میرے قریب مکان بنائے گئے ہیں، جس میں ہرخواہش کی چیز موجود ہے، میرے بھائیوں کے لیے بھی ہے اورتوبھی انہیں لوگوں میں ہے، ریحانہؒ کے اشعار ہیں ؎ الھٰی لاتعذبنی فانی اوامل ان افوز بخیر دار وانت مجاور الابرار فہا فیاطوبی لھم فی ذی الجوار ترجمہ:الہٰی تومجھے عذاب نہ کر؛ کیونکہ میں جنت میں پہنچنے کی امیدوار ہوں، توجس جنت میں نیکوں کا ہمسایہ ہے جن کوایسا ہمسایہ ملے وہ بڑے ہی خوش نصیب ہیں۔ (روض الریاحین) جنت کی اطلاع ہوتوشوق سے جان نکل جائے: نقل ہے کہ حضرت یحییٰ ابن زکریا علیہ السلام نے ایک شب شکم سیرہوکر جوکی روٹی کھائی اور اپنے وردوظائف کیئے بغیرسوگئے حق تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ اے یحییٰ! کیا تم نے میرے دربار سے اچھا کوئی اور دربار پالیا ہے اور میری ہمسائیگی سے کوئی اچھا اور ہمسایہ پالیا ہے؟ قسم ہے میری عزت وجلال کی! اگرتمھیں جنت الفردوس کی ذرا بھی اطلاع ہوجائے توتمہارا جسم پگھل جائے اور روح جنت الفردوس کے اشتیاق میں نکل جائے اور اگرجہنم کی کچھ خبر ہوجائے توتمہاری آنکھوں سے آنسو کے ہمراہ پیپ نکلے اور بجائے ٹاٹ کے لوہا پہننے لگو، بعض لوگوں کے شعر ہیں ؎ اقتنع بالقلیل یحییٰ غنیا ان من یطلب الکثیر فقیر ان خبز الشعیر بالماء والملح لمن یطلب النجاۃ کثیر ترجمہ:تھوڑے پرقناعت کر،امیرانہ زندگی بسر ہوگی؛ کیونکہ کثیر کا طالب ہروقت محتاج اور فقیر رہتا ہے، نمک کے پانی کے ساتھ جوکی روٹی طالب نجات کے لیے بہت ہے۔ (روض الریاحین) ایک ملک ایسا بھی ہے جوویران نہ ہو اور نہ اس کا مالک مرے: گزشتہ زمانہ میں ایک بادشاہ نے ایک شہر بسایا اور نہایت خوبصورت بنوایا اور اس کی زیبائش اور زینت میں بہت سامال خرچ کیا؛ پھراس نے کھانا پکواکر لوگوں کی دعوت کی اور کچھ آدمی دروازے پربٹھلائے کہ جونکلے اس سے یہ پوچھا جائے کہ اس مکان میں کوئی عیب تونہیں ہے؛ چنانچہ سب نے یہی جواب دیا کہ کوئی عیب نہیں ہے؛ اخیر میں کچھ لوگ کمبل پوش آئے ان سے بھی سوال کیا گیا کہ تم نے اس میں کوئی عیب دیکھا؟ کہا دوعیب ہیں، پاسبانوں نے انہیں روک لیا اور بادشاہ کواطلاع کی، بادشاہ نے کہا کہ میں ایک عیب پربھی راضی نہیں ہوں انہیں حاضر کرو، پاسبانوں نے ان کمبل پوشوں کوبادشاہ کے سامنے حاضر کیا، بادشاہ نے دریافت کیا کہ وہ دوعیب کیا ہیں؟ کہنے لگے کہ یہ مکان اجڑجائے گا اور اس کا مالک مرجائے گا ،بادشاہ نے سوال کیا کہ کیا ایسا بھی کوئی مکان ہے کہ کبھی ویران نہ ہو نہ اس کا مالک مرے؟ انہوں نے کہا: ہاں ہے اور جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر اور شوق دلایا اور دوزخ اور اس کے عذاب سے ڈرایا اور حق تعالیٰ کی عبادت کی رغبت دلائی، اس نے ان کی دعوت قبول کی اور اپنا ملک چھوڑ کربھاگ گیا اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کی، رحمۃ اللہ علیہ۔ (ریاض الریاحین) ایک حور اور اس کی حسین کنیزیں: شیخ عبدالواحد بن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے جہاد کی تیاری کی میں نے اپنے ساتھ والے رفیقوں سے کہا کہ جہاد کے فضائل میں ہرایک شخص دودوآیتیں پڑھنے کے لیے تیار ہوجائے توایک شخص نے یہ آیت پڑھی: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ۔ (التوبۃ:۱۱۱) ترجمہ:یعنی بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور مال اس قیمت پرخریدی کہ ان کے لیے جنت ہے۔ یہ آیت سن کرایک لڑکا جوچودہ پندرہ برس کی عمر کا تھا اور اس کا باپ بہت سامال چھوڑ کرمرگیا تھا، کھڑا ہوا اور کہا: اے عبدالواحد! کیا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی جان ومال جنت کے بدلے خریدلی؟ شیخ نے فرمایا: ہاں! بے شک اس نے خریدی، اس نے کہا تومیں گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اپنا مال اور جان جنت کے بدلے میں بیچ دی، میں نے کہا دیکھ خوب سوچ سمجھ لے تلوار کی دھار بڑی تیز ہوتی ہے اور توبچہ ہے مجھے خوف ہے کہ شاید تجھ سے صبر نہ ہوسکے اور عاجز ہوجائے اس نے جواب میں کہا: یاشیخ! میں اللہ سے معاملہ کروں اور پھرعاجز ہوجاؤں اس کے کیا معنی؟ میں خدا تعالیٰ کوگواہ کرکے کہتا ہوں کہ میں نے اپنا سب مال اور جان فروخت کردی، شیخ نے کہا: میں اتنی بات کہہ کربہت ہی پشیمان اور نادم ہوا اور اپنے جی میں کہا کہ دیکھو! اس بچہ کی کیسی عقل ہے اور ہم کوباوجود بڑے ہونے کے عقل نہیں، مختصر یہ کہ اس لڑکے نے اپنے گھوڑے اور ہتھیار اور کچھ ضروری خرچ کے سوا کل مال صدقہ کردیا، جب چلنے کا دن ہوا تووہ سب سے پہلے ہمارے پاس آیا اور کہا یاشیخ! السلام علیکم، شیخ کہتے ہیں میں نے سلام کا جواب دے کرکہا خوش رہو! تمہاری بیع نفع مند ہوئی؛ پھرہم جہاد کے لیے چلے، اس لڑکے کی یہ حالت تھی کہ راستہ میں دن کوروزہ رکھتا اور رات بھرنماز میں کھڑا رہتا اور ہماری اور ہمارے جانوروں کی خدمت کرتا جب ہم سوتے تھے توہمارے جانوروں کی حفاظت کرتا تھا، جب ہم روم کے شہر کے قریب پہنچے توہم نے دیکھا کہ وہ جوان چلاچلاکر کہہ رہا ہے کہ اے عینا مرضیہ! توکہاں ہے؟ میرے رفیقوں نے کہا: شاید یہ مجنون ہوگیا میں نے اسے بلاکر پوچھا کہ بھائی کیسےپکار رہے ہو اور عینا مرضیہ کون ہے؟ تواس نے ساری کیفیت بیان کی کہ میں کچھ غنودگی کی سی حالت میں تھا کہ میرے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ عینا مرضیہ کے پاس چلو! میں اس کے ساتھ ساتھ ہولیا وہ مجھے باغ میں لے گیا کیا دیکھتا ہوں کہ نہر جاری ہے، پانی نہایت صاف وشفاف ہے، نہر کے کنارے نہایت حسین حسین لڑکیاں ہیں ،گراں بہا زیور ولباس سے آراستہ وپیراستہ ہیں، جب انہوں نے مجھے دیکھا توخوش ہوئیں اور آپس میں کہنے لگیں کہ عینامرضیہ کا خاوند ہے، میں نے انہیں سلام کرکے پوچھا: تم میں عینا مرضیہ کون سی ہے؛ انہوں نے کہا ہم تواس کی لونڈیاں باندیاں ہیں وہ توآگے ہے میں آگے گیا توایک نہایت عمدہ باغ میں لذیذ وذائقہ دار دودھ کی نہر بہتی دیکھی اور اس کے کنارے پرپہلی عورتوں سے زیادہ حسین عورتیں دیکھیں، انہیں دیکھ کرتو میں مفتون ہوگیا وہ مجھے دیکھ کربہت خوش ہوئیں اور کہا یہ عینامرضیہ کا خاوند ہے، میں نے پوچھا وہ کہاں ہے؟ کہا وہ آگے ہے ہم تو اس کی خدمت کرنے والی ہیں تم آگے جاؤ، میں آگے گیا دیکھا توایک نہر خالص مزے دار شراب کی جاری ہے اور اس کے کنارے ایسی حسین وجمیل عورتیں بیٹھی ہیں کہ انہوں نے پہلی سب عورتوں کو بھلادیا، میں نے سلام کرکے ان سے پوچھا کہ عینامرضیہ کیا تم میں ہے؟ توانہوں نے کہا کہ نہیں، ہم سب تواس کی کنیزیں ہیں وہ آگے ہے تم آگے جاؤ میں آگے گیا توایک چوتھی نہرخالص شہد کی بہتی دیکھی اور اس کے کنارے کی عورتوں نے پچھلی سب عورتوں کوبھلادیا، میں نے ان سے بھی سلام کرکے پوچھا کہ عینامرضیہ کیا تم میں ہے؟ انہوں نے کہا: اے ولی اللہ! ہم تواس کی لونڈیاں باندیاں ہیں، تم آگے جاؤ میں آگے چلاتوکیا دیکھتا ہوں کہ ایک سفید موتی کا خیمہ ہے اور اس کے دروازے پرایک حسین لڑکی کھڑی ہے اور وہ ایسے عمدہ عمدہ زیور ولباس سے آراستہ ہے کہ میں نے آج تک کبھی نہیں دیکھا، جب اس نے مجھے دیکھا توخوش ہوئی اور خیمہ میں پکار کرکہا: اے عینا مرضیا! تمہارا خاوند آگیا، میں خیمہ کے اندر گیا تودیکھا ایک جڑاؤ سونے کا تخت بچھا ہوا ہے اس پرعینا مرضیہ جلوہ افروز ہے، میں اسے دیکھتے ہی فریفتہ ہوگیا اس نے دیکھتے ہی کہا: مرحبا مرحبا! اے ولی اللہ! اب تمہارے یہاں آنے کا وقت قریب آگیا ہے، میں دوڑا اور چاہا کہ گلے سے لگالوں، اس نے کہا: ٹھہرو ابھی وقت نہیں آیا اور ابھی تمہاری روح میں دنیاوی حیات باقی ہے، آج رات انشاء اللہ تم یہیں روزہ افطار کروگے، میں یہ خواب دیکھ کرجاگ اٹھا اور اب میری یہ حالت ہے کہ صبر نہیں ہوتا، شیخ عبدالواحد فرماتے ہیں کہ ابھی یہ باتیں ختم نہ ہوئی تھیں کہ دشمن کا ایک گروہ آیا اور اس لڑکے نے سبقت کرکے ان پرحملہ کیا اور نوکافرو ں کومارکر شہید ہوا تومیں اس کے پاس آیا اور دیکھا کہ وہ خون میں لت پت ہے اور کھلکھلا کر خوب ہنس رہا ہے، تھوڑی دیرنہ گذری تھی کہ اس کا طائرروح قفسِ عنصری سے پرواز کرگیا۔ (ریاض الریاحین) جنت کی نعمتوں کی تکمیل کے اسباب: جنتیوں میں سے سب سے زیادہ نعمتوں میں وہ حضرات ہوں گے جوخود کواس دنیا میں حرام سے بچائیں گے، جس نے دنیا میں شراب پی وہ جنت میں شراب طہور سے محروم رہے گا، جس نے دنیا میں ریشم پہنا وہ جنت میں ریشم پہننے سے محروم رہے گا، جس نے دنیا میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھایا پیا وہ جنت میں نہیں کھاپی سکے گا، جیسا کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: هِيَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَلَكُمْ فِي الْآخِرَةِ۔ (بخاری، كِتَاب اللِّبَاسِ،بَاب لُبْسِ الْحَرِيرِ وَافْتِرَاشِهِ لِلرِّجَالِ وَقَدْرِ مَايَجُوزُ مِنْهُ،حدیث نمبر:۵۳۸۳، شاملہ، موقع لإسلام) ترجمہ:یہ دنیا میں کافروں اور مشرکوں کے لیے ہے اور تمہارے لیے آخرت میں حلال ہیں۔ ہاں اگرکوئی مسلمان دنیا میں ان محرمات کا مرتکب ہوا پھراس نے توبہ کرلی تواس کوجنت میں وہ نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ پس! جس شخص نے اپنی آرام وآسائش کی اور لذت کی ہرچیز کواستعمال کیا وہ جنت میں (کسی نہ کسی درجہ سے) ان سے محروم رہے گا؛ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے؛ اسی وجہ سے حضراتِ صحابہ کرام اور ان کے متبعین حضرات اس سے بہت خوفزدہ رہتے تھے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ان کوحضرت عمرؓ نے دیکھا جب وہ اپنے گھر والوں کے لیے گوشت خرید کرلے جارہے تھے، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ حضرت جابرؓ نے فرمایا: گوشت ہے اس کو میں نے گھروالوں کے لیے ایک درہم میں خریدا ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا: تم میں سے جوبھی کسی چیز کودل چاہے خرید لیتا ہے کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے نہیں سنا وہ فرمارہے ہیں: أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا۔ (الأحقاف:۲۰) ترجمہ:تم اپنی لذت کی چیزیں اپنی دنیاوی زندگی میں حاصل کرچکے اور ان کوخوب برت چکے (اب یہاں جنت میں کامل لذتیں نہیں ملیں گی)۔ (کتاب الزہد امام احمد:۱۵۳۔ درمنثور:۶/۴۲) حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ بصرہ سے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے ساتھ ایک وفد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا یہ وفد والے حضرات کہتے ہیں کہ ہم روزانہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاتے اور ان کی پانی میں بھیگی ہوئی روٹی دیکھتے، کبھی ہم اس کوگھی لگی ہوئی دیکھ لیتے، کبھی تیل لگی ہوئی دیکھ لیتے، کبھی دودھ میں بھیگی ہوئی دیکھ لیتے، کبھی ہم گوشت کے سوکھے ٹکڑے دیکھ لیتے جن کوکوٹ کرپانی میں ابالا ہوتا تھا اور بہت کم ہم نے تازہ گوشت دیکھا تھا، ایک دن آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں تمھیں دیکھ رہا ہوں کہ تم میرے کھانے کوپسند نہیں کررہے، اللہ کی قسم! اگرمیں چاہوں توتم سے زیادہ رنگین کھانے کھاسکتا ہوں اور نفیس کھانے تیار کراسکتا ہوں؛ لیکن میں نے اللہ تعالیٰ سے سنا ہے اس نے اس قوم پرنکتہ چینی کی ہے؛ جنھوں نے یہ کام کیا ہے اور فرمایا: أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا۔ (الأحقاف:۲۰) ترجمہ:تم اپنی لذت کی چیزیں اپنی دنیاوی زندگی میں حاصل کرچکے اور ان کوخوب برت چکے۔ (کتاب الزہد امام احمد:۱۵۳۔ درمنثور:۶/۴۲) فائدہ:اس آیت کا تعلق کفار کے ساتھ ہے وہ چونکہ اپنی زندگی میں خود مختارہوکر اپنی زندگی کومن مانی خواہشات کی تکمیل اور لذت میں گزاردیتے ہیں حتی کہ اتنا آزاد ہوجاتے ہیں کہ خود اپنے خالق کے وجود اور اس کے احکام کے بھی منکر ہوجاتے ہیں اور حلال وحرام میں کوئی تمیز نہیں کرتے، اس لیے وہ آخرت کی ہرنعمت سے محروم رکھے جائیں گے؛ بلکہ کفر وشرک کی سزا میں ہمیشہ دوزخ میں جلیں گے اور جومسلمان حضرات ہیں وہ بھی اسلام وایمان کی حالت میں اپنے آپ کواسلامی اعمال واخلاق اور لذت نفس میں جتنا آزاد کرکے دنیاوی زندگی میں لطف اندوز ہوں گے ان کے لیے جنت میں ان کی اتنی اتنی نعمتوں میں کمی ہوتی چلی جائے گی؛ اسی وجہ سے صحابہ کرامؓ عیش کوش زندگی گزارتے تھے؛ کیونکہ ان کی نظر میں دنیا کی زندگی میں حصولِ لذت کوئی چیز نہیں تھی ان کی نگاہیں آخرت پر، جنت کی نعمتوں پر، اللہ کی رضا اور دیدار پرٹکی ہوئی تھیں اس وجہ سے وہ اسلام کی تعلیم، ترویج اور غلبہ وتعمیل میں تمام مسلمانوں سے بڑھے ہوئے تھے۔ (امداد اللہ) دومخصوص جنتوں کی شان: ارشادِ خداوندی وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ (ھود:۷) ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا عرش پانی میں تھا، کی تفسیر میں حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ایک جنت بنائی؛ پھراس سے نیچے ایک اور جنت بنائی؛ پھراس کوایک ہی لؤلؤ سے جوڑ دیا پھر (حضرت ابن عباسؓ نے) یہ آیت پڑھی وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ (الرحمن:۶۲) ترجمہ:اور اُن دوجنتوں کے نیچے دوجنتیں اور ہیں، اور یہ جنت وہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: فَلَاتَعْلَمُ نَفْسٌ مَاأُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَاكَانُوا يَعْمَلُونَ (السجدۃ:۱۷) ترجمہ:کوئی شخص نہیں جانتا جوان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپائی گئی ہے یہ بدلہ ہے ان نیک اعمال کا جووہ کرتے تھے۔ یہی وہ جنت ہے جس کا مخلوقات کو علم نہیں کہ اس میں کیا ہے، ان جنت والوں کے پاس روزانہ تحفہ اور تحیہ پہنچاکرے گا۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۰۳۔ تفسیر ابن جریر:۱۲/۴،۵۔ مستدرک:۲/۴۷۵)