انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** افشین کی ہلاکت مندرجہ بالا واقعہ سے افشین کے متعلق خلیفہ معتصم کا شبہ اور بھی زیادہ یقین سے بدل گیا اور افشین کوبھی اس بات کا احساس ہوگیا کہ خلیفہ مجھ سے بدگمان ہوگیاہے؛ چنانچہ افشین نے دارالخلافہ سے نکلنے اور بھاگ جانے کی تدبیریں سوچنی شروع کیں، اوّل اس نے ارادہ کیا کہ می خود اپنے صوبہ آذربائیجان وآرمینیا کی طرف جاکر وہاں سے بلادخزر کی طرف ہوتا ہوا اپنے وطن اشروسنہ (ماوراء النہر) چلاجاؤں؛ لیکن اس ارادے میں اس لیے کامیابی نہ ہوئی کہ خلیفہ معتصم نے منکجور کی جگہ خود اپنی طرف سے افشین کا قائم مقام تجویز کرکے بھیج دیا تھا اور افشین جانتا تھا کہ آذربائیجان میں وہ محفوظ نہیں رہ سکتا۔ آخر اس نے ارادہ کیا کہ میں خلیفہ اور تمام اراکین وسردارانِ سلطنت کی ضیافت کروں، تمام دن ان لوگوں کوکھانے پینے میں مصروف ومشغول رہنے کے سبب سے سوجائیں گے اور میں موقع پاکر شام ہوتے ہی نکل جاؤژ گا اور پھرکسی کے ہاتھ نہ آؤں گا، ابھی وہ کوئی مستقل رائے قائم نہ کرنے پایا تھا کہ اتفاقاً اس کواپنے راز دار خادم پرکسی وجہ سے غصہ آیا اور اس کوسخت سست کہا، اس خادم نے فوراً ایتاخ کے پاس آکر افشین کے تمام ارادوں کی اطلاع کردی، ایتاخ اسی وقت اس خادم کولے کرخلیفہ معتصم کے پاس آیا اور کہا کہ افشین فرار ہونے کی تیاری کررہا ہے، معتصم نے اسی وقت افشین کوطلب کیا اور درباری لباس اُترواکر قید خانہ میں بھجوادیا اور کسی قسم کی کوئی بے تابی ظاہر نہیں کی، اس کے بعد خلیفہ معتصم نے فوراً عبداللہ بن طاہر گورنر خراسان کولکھا کہ تم فوراً افشین کے بیٹے حسن بن افشین کوج وماوراءالنہر کے علاقے کا والی اور اشروسنہ میں مقیم ہے، گرفتار کرکے بھیج دو، حسن بن افشین اکثرنوح بن اسدوالی بخارا کی شکایت کیا کرتا تھا۔ عبداللہ بن طاہر نے حسن بن افشین کولکھا کہ ہم نے بخارا کی حکومت بھی تم کوپسرد کی، تم بخارامیں جاکر اور ہمارا یہ حکم دکھاکرنوح بن اسد سے بخارا کی حکومت کا چارج لے لو، حسن بن افشین اس تحریر کودیکھ کربہت خوش ہوا اور فوراً بخارا کی طرف چل دیا، عبداللہ بن طاہر نے نوح بن اسدوالی بخارا کوپہلے ہی لکھ دیا تھا کہ ہم نے اس بہانے سے حسن بن افشین کوتمہارے پاس بھیجا ہے، تم اس کوبخارا میں داخل ہوتے ہی گرفتار کرلینا اور گرفتار کرکے ہمارے پاس بھیج دینا؛ چنانچہ اس ترکیب سے حسن بن افشین گرفتار ہوکر مرَو میں عبداللہ بن طاہر کے پاس آیا، عبداللہ بن طاہر نے اس کومعتصم کی خدمت میں روانہ کردیا، جب حسن بن افشین گرفتا رہوکر آگیا توخلیفہ معتصم نے اپنے وزیراعظم محمد بن عبدالملک، قاضی احمد بن ابی داؤ، اسحاق بن ابراہیم اور دوسرے اراکین سلطنت کی ایک جماعت مرتب کرکے حکم دیا کہ تم سب مل کے افشین کے معاملہ کی تحقیقیات کرو اور وہ جس سزا کا مستحق ہو؛ وہی سزا اس کودو؛ اگرچہ معتصم اپنے حکم سے اسے فوراً قتل کراسکتا تھا؛ لیکن اس میں اندیشہ تھا کہ کہیں درپردہ بعض سردار اس کے شریکِ سازش نہ ہوں؛ لہٰذا اس نے یہ نہایت ہی عاقلانہ روش اختیار کی، اس طرح افشین کے قتل پرفوج میں کسی قسم کا جوش معتصم کے خلاف پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ معتصم، افشین کی بدنیتی سے خوب واقف ہوچکا تھا اور جنگ بابک کے دوران میں ہی اس کواس بات کی اطلاع ہوچکی تھی کہ افشین اپنے بیٹے کے پاس جس کووہ پہلے سے اپنے وطن اشروسنہ کا عامل مقرر کراچکا تھا، شاہی مال واسباب چراکر اور چھپا کربھجوارہا ہے؛ لیکن اس وقت افشین ایک ایسے دشمن کے مقابلہ پرمعرکہ آراء تھا جوبیس سال سے مغلوب نہ ہوسکا تھا؛ لہٰذا معتصم بالکل خاموش رہا، جنگ بابک کی کامیابی کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا؛ لہٰذا جنگ بابک کے بعد افشین کوانعام واکرام سے محروم رکھنا اور اس کی بددیانتی کا مواخذہ کرنا خود معتصم کے لیے زہر ہلاہل کا حکم رکھتا تھا اور اس کی بدنامی وقدردانی کی شہرت کوکوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی؛ نیز یہ کہ افشین کی نسبت اصلاح کی بھی توقع تھی؛ مگرجبافشین کے خطوط اور طرزِ عمل نے اس کی غداری کوثابت کردیا تومعتصم کے لیے یہی مناسب تھا جواس نے کیا۔ وزیراعظم اور دوسرے سرداروں کی مجلس نے افشین کے مقدمہ کوبڑی احتیاط اور باقاعدگی کے ساتھ سننا اور تحقیق کرنا شروع کیا، قید خانے سے روزانہ افشین اس کچہری میں لایا جاتا اور اس کی موجودگی میں گواہوں کے بیانات وثبوت کے کاغذات پیش کیے جاتے تھے، مازیار جواب تک قید میں تھا، افشین کے سامنے لایا گیا، افشین کے خطوط افشین کودکھائے اور سنائے گئے، افشین نے سب کا اقرار کیا اور مازیار نے بھی صاف صاف حقیقت بیان کردی؛ پھرافشین کے متعلق وہ باتیں پیش ہوئیں جن سے اس کا منافق وکافر ہونا ثابت ہوا، مثلاً اس کا قرآن، مساجد اور ائمہ مساجد کی بے حرمتی کرنا، زردشتی صحیفوں کی روزانہ تلاوت کرنا اور ان کوہمہ اوقات اپنے ساتھ رکھنا، اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا اور بہ ظاہر مسلمانوں میں شامل رہ کرنمازیں بھی ادا کرنا، شعائرِاسلامی پرعامل رہنا؛ غرض نہایت پختہ، قطعی اور یقینی طور پریہ بات ثابت ہوگئی کہ افشین دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا؛ بلک ہوہ مسلمانوں کودھوکہ دینے اور حکومتِ اسلامیہ کا تختہ الُٹ کرمجوسی سلطنت قائم کرنے کی تدابیر میں مصروف ومنہمک تھا، اس مقدمہ کی سماعت نہایت اطمینان کے ساتھ ختم ہوئی اور آخری فیصلہ یہ ہوا کہ مازیارکو چارسو درے لگائے جائیں اور افشین کوسزائے موت دی جائے؛ چنانچہ مازیار چارسودرے برداشت نہ کرسکا اور اسی سزا سے مرگیا، افشین کوسولی دے دی گئی اور اس کی لاش عبرت دلانے کے لیے منظرِعام پرلٹکائی گئی، یہ واقعہ ماہ شعبان سنہ۲۲۶ھ کووقوع پذیر ہوا، افشین کی جگہ اسحاق بن یحییٰ بن معاذ کوسپہ سالاری کی خدمت سپرد کی گئی۔