انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حسن لغیرہ یہ وہ حدیث ہے جس کی قبولیت میں تردد ہو، جیسے کوئی راوی مستوراور مجہول الحال ہو؛ لیکن دوسری سندوں سے اس کوتقویت حاصل ہوگئی، یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہوتی ہے؛ لیکن دوسری سندوں کی تائید سے قابلِ عمل اور لائقِ استدلال ہوجاتی ہے، امام نوویؒ (۶۷۶ھ) نے شرح مہذب میں اور سیدنا ملاعلی قاری (۱۰۱۴ھ) نے اس سے استدلال کرنے کی تائید فرمائی ہے، جیسے حدیث "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلَیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ" کی بعض روایتوں میں "وَمُسلِمَۃ" کا اضافہ ہے، اس حدیث کے بیان کرنے والے امام ابن ماجہؒ (۲۷۵ھ)، امام بیہقیؒ (۴۵۸ھ) اور امام طبرانیؒ (۲۶۰) وغیرہ ہیں اور حضراتِ صحابہ میں اس کے روایت کرنے والے حضرت ابوایوب انصاریؓ (۵۱ھ) ابی بن کعبؓ (۱۹ھ)، حذیفہؓ (۳۵ھ)، سلمان فارسیؓ (۴۵ھ)، ابوہریرہؓ (۵۷ھ) حضرت عائشہ صدیقہؓ (۵۷ھ)، حضرت انسؓ (۹۳ھ) وغیرہم ہیں اور پھر حضرت انسؓ سے روایت کرنے والے بیس تابعیؒ ہیں؛ لیکن نہایت تعجب کی بات ہے کہ محدثین اس پر متفق ہیں کہ اس کی تمام سندیں ضعیف ہیں، بایں ہمہ دیکھئے کہ اس حدیث کے تعددِ طرق کودیکھ کر حافظ سیوطیؒ (۹۱۱ھ) نے اس کواحادیثِ متواترہ میں شمار کیا ہے؛ یوں سمجھئے کہ یہ تواتر کی ایک اور قسم سامنے آگئی؛ گوباعتبارِ علم ہم اسے متواتر نہیں کہہ سکتے؛ لیکن یہ بھی نہیں کہ عمل کے لیے یہ محض ضعیف ہی ہے۔