انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مذہبی خدمات اشاعتِ اسلام مذہبی خدمات میں اشاعتِ اسلام سب سے اہم ہے اور اس میں ابتدائے اسلام ہی سے صحابیات کی مساعی جمیلہ کا کافی حصہ شامل ہے؛ چنانچہ حضرت اُم شریک رضی اللہ عنہا ایک صحابیہ تھیں جوآغازِ اسلام میں مخفی طور پرقریش کی عورتوں کواسلام کی دعوت دیا کرتی تھیں، قریش کواُن کی مخفی کوششوں کا حال معلوم ہوا توان کومکہ سے نکال دیا۔ (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا) ایک غزوہ میں صحابہ کرام پیاس سے بیتاب ہوکر پانی کی تلاش میں نکلے توحسنِ اتفاق سے ایک عورت مل گئی جس کے ساتھ پانی کا ایک مشکیزہ تھا، صحابہ رضی اللہ عنہم اُس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور آپ کی اجازت سے پانی کواستعمال کیا اگرچہ آپ نے اسی وقت اس کوپانی کی قیمت دلوادی؛ تاہم صحابہ رضی اللہ عنہم پراس کے احسان کا یہ اثر تھا کہ جب اس عورت کے گاؤں کے آس پاس حملہ کرتے توخاص اس کے گھرانے کوچھوڑدیتے تھے، اس پرصحابہ کرام کی اس منت پذیری کا یہ اثر ہوا کہ اس نے اپنے تمام خاندان کوقبولِ اسلام پرآمادہ کیا اور وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ (بخاری، كِتَاب التَّيَمُّمِ،بَاب الصَّعِيدُ الطَّيِّبُ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ يَكْفِيهِ مِنْ الْمَاءِ) حضرت اُم حکیم بنت الحارث کی شادی عکرمہ بن ابی جہل سے ہوئی تھی وہ خود توفتح مکہ کے دن اسلام لائیں؛ لیکن ان کے شوہر بھاگ کریمن چلے گئے، حضرت اُم حکیم رضی اللہ عنہانے یمن کا سفر کیا اور اُن کودعوتِ اسلام دی وہ مسلمان ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے توآپ دیکھ کرخوشی سے اُچھل پڑے۔ (موطائے امام مالک، کتاب النکاح، باب نکاح المترک اذااسلمت زوجۃ قبلہ) حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے حالتِ کفر میں حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنا چاہا؛ لیکن انہو ںنے کہا تم کافر ہو اور میں مسلمان، نکاح کیونکر ہوسکتا ہے؟ اگراسلام قبول کرلوتووہی میرا مہر ہوگا اس کے سوا تم سے کچھ نہ مانگونگی؟ چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے اور اسلام ہی ان کا مہرقرار پایا۔ (اسدالغابہ، تذکرۂ حضرت زید بن سہل بن اسوہ رضی اللہ عنہا) نومسلموں کا تکفل ابتدائے اسلام میں جولوگ اسلام لاتے تھے ان کومجبوراً اپنے گھر بار، اہل وعیال اور مال وجائداد سے کنارہ کش ہونا پڑتا تھا اس بناپراس وقت اشاعتِ اسلام کے ساتھ اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ ان نومسلموں کی کفالت کی جائے اور صحابیات اس میں نمایاں حصہ لیتی تھیں؛ چنانچہ حضرت اُم شریک رضی اللہ عنہا کا گھر ان نومسلموں کے لیے گویا مہمان خانہ بن گیا تھا؛ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کوان کے یہاں صرف اس بناپرعدت بسر کرنے کی اجازت نہیں دی (مسلم، كِتَاب الطَّلَاقِ،بَاب الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثًا لَانَفَقَةَ لَهَا) کہ ان کے گھر مہمانوں کی کثرت سے پردہ کا انتظام نہیں ہوسکتا تھا، حضرت درہ بنت لہب رضی اللہ عنہا بھی نہایت فیاض تھیں اور مسلمانوں کوکھانا کھلایا کرتی تھیں۔ (اصابہ، تذکرۂ ورہ) خدمتِ مجاہدین جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بہ شوق غزوات میں شریک ہوتے تھے اسی طرح صحابیات رضی اللہ عنھن بھی خدا کی راہ میں ان سے پیچھے نہیں رہنا چاہتی تھیں ان کے لیے سب سے زیادہ موزوں کام زخمیوں کی مرہم پٹی اور مجاہدین کے آرام وآسائش کا سامان بہم پہنچانا تھا اور وہ اس خدمت کونہایت خلوص اور دل سوزی سے انجام دیتی تھیں، غزوۂ خیبر میں متعدد صحابیات شریکِ جہاد ہوئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کا حال معلوم ہوا توناراضی کے لہجے میں پوچھا تم کس کے ساتھ اور کس کی اجازت سے آئی ہو؟ بولیں یارسول اللہ! ہم اُون کاتتے ہیں اور اس سے خدا کی راہ میں اعانت کرتے ہیں ہمارے ساتھ زخمیوں کے دوا علاج کا سامان ہے لوگوں کوتیر اُٹھا اُٹھا کردیتے ہیں اور ستو گھول گھول کرپلاتے ہیں۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْجِهَادِ،بَاب فِي الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ يُحْذَيَانِ مِنْ الْغَنِيمَةِ) حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا ایک صحابیہ تھیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں وہ مجاہدین کے اسباب کی نگرانی کرتی تھیں، کھانا پکاتی تھیں، مریضوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں (مسلم،كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب النِّسَاءِ الْغَازِيَاتِ يُرْضَخُ لَهُنَّ وَلَا يُسْهَمُ وَالنَّهْيِ عَنْ قَتْلِ صِبْيَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ) غزوۂ اُحد میں خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا شریک تھیں وہ اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا اپنی پیٹھ پرمشک لادکر لاتی تھیں اور لوگوں کوپانی پلاتی تھیں۔ (مسلم، باب غزوۃ النساء مع الرجل) حضرت ربیع بنت مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم سب غزوات میں شریک ہوئے تھے، پانی پلاتے تھے، مجاہدین کی خدمت کرتے تھے اور مدینہ تک زخمیوں اور لاشوں کواُٹھا اُٹھا کرلاتے تھے۔ (بخاری،كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب رَدِّ النِّسَاءِ الْجَرْحَى وَالْقَتْلَى إِلَى الْمَدِينَةِ) حضرت رفیدہ رضی اللہ عنہا نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خیمہ کھڑا کررکھا تھا جولوگ زخمی ہوکر آتے تھے وہ اسی خیمہ میں ان کا علاج کرتی تھیں؛ چنانچہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ غزوۂ خندق میں زخمی ہوئے توان کا علاج اسی خیمہ میں کیا گیا۔ (اصابہ، تذکرۃ رفیدہ رضی اللہ عنہا) صحابیات رضی اللہ عنھن کی یہ خدمات خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانہ میں نہایت قابل قدر خیال کی جاتی تھیں اور خود خلفاء بھی ان کا لحاظ رکھتے تھے؛ چنانچہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ نعہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادر تقسیم فرمائی، ایک عمدہ چادر رہ گئی توکسی نے کہا کہ اپنی بی بی اُم کلثوم کودیدیجئے، بولے اُم سلیط رضی اللہ عنہا اس کی زیادہ مستحق ہیں؛ کیونکہ وہ غزوہ اُحد میں مشک بھربھر کرپانی لاتیں تھیں اور ہم کو پلاتی تھیں۔ (بخاری، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَاب حَمْلِ النِّسَاءِ الْقِرَبَ إِلَى النَّاسِ فِي الْغَزْوِ) خدماتِ مساجد صحابیات مساجد کی صفائی میں نہایت اہتمام کرتی تھیں ایک بار کسی نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تھوک دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تواس قدر برہم ہوئے کہ چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا، ایک صحابیہ اُٹھیں اور اس کومٹادیا اور اس جگہ خوشبو لگائی آپ نہایت خوش ہوئے اور فرمایا کہ خوب کام کیا۔ (نسائی،كِتَاب الْمَسَاجِدِ، بابُتَخْلِيقُ الْمَسَاجِدِ) ایک صحابیہ تھیں جوہمیشہ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جھاڑو دیا کرتی تھیں یہ ایک ایسا نیک کام تھا ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نہایت قدرفرمائی؛ چنانچہ جب ان کا انتقال ہوا توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان کوراتوں رات دفن کردیا اور آپ کواس کی اطلاع نہ دی، آپ کومعلوم ہوا توفرمایا کہ مجھے کیوں نہیں خبر کی؟ بولے حضور استراحت فرمارہے تھے، ہم نے تکلیف دینا گوارا نہیں کیا۔ (سنن ابن ماجہ، كِتَاب مَاجَاءَ فِي الْجَنَائِزِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ) بدعات کا استیصال بدعت مذہب کے لیے بمنزلہ گھن کے ہے، اس لیے بااثر صحابیات ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتی تھیں کہ نخلِ اسلام میں گھن نہ لگنے پائے، مثلاً مسلمانوں میں غلافِ کعبہ کی جوعزت وحرمت قائم ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب نیا غلاف چڑھایا جاتا ہے توپرانا غلاف چراچھپاکر خادموں کوکچھ دے دلاکر لے لیتے تھے، اس کوتبرک سمجھ کرلے آتے تھے اور مکانوں میں رکھتے تھے، دوستوں کوبطورِ سوغات کے تقسیم کرتے تھے، قرآن ان میں رکھتے تھے، مسجدوں میں لٹکاتے تھے اور مریض کواس سے ہوا دیتے تھے؛ لیکن قرنِ اوّل میں یہ حالت نہ تھی، متولی کعبہ صرف یہ کرتا تھا کہ غلاف کوزمین میں دفن کردیتا تھا کہ وہ ناپاک انسانوں کے کام کا نہ رہے، شیبہ بن عثمان رضی اللہ عنہ نے جواس زمانہ میں کعبہ کے کلید بردار تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس واقعہ کوبیان کیا توانہوں نے سمجھ لیا کہ یہ تعظیم غیرشرعی ہے، خدا اور رسول نے اس کا حکم نہیں دیا اور ممکن ہے کہ آئندہ اس سے سواعتقاد اور بدعات کا سرچشمہ پھوٹے اس لیے شیبہ سے کہا کہ یہ تواچھی بات نہیں تم براکرتے ہو، جب غلافِ کعبہ سے اترگیا اور کسی نے اس کوناپاکی کی حالت میں استعمال بھی کرلیاتوکوئی مضائقہ نہیں، تم کوچاہیے کہ اس کوبیچ ڈالا کرو اور اس کی قیمت غریبوں اور مسافروں کودے دیا کرو۔ (عین الاصابہ، بحوالہ سنن بیہقی) احتساب جوچیز مذہب واخلاق کوصحیح اصول پرقائم رکھتی ہے شریعت کی اصطلاح میں اس کا نام احتساب ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تین درجے مقرر فرمادئیے ہیں: مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ۔ (مسلم،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب بَيَانِ كَوْنِ النَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ مِنْ الْإِيمَانِ وَأَنَّ الْإِيمَانَ يَزِيدُ،حدیث نمبر:۷۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:تم سے جوشخص کسی برائی کودیکھے اس کواپنے ہاتھ سے مٹادے اگراس میں اس کی طاقت نہیں ہے توزبان سے اس کا انکار کرے اور اگریہ بھی نہیں کرسکتا تودل سے اس کوبراسمجھے اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔ اور بااثرصحابیات رضی اللہ عنھن نے پہلے دونوں طریقوں سے اس مذہبی خدمت کوانجام دیا ہے ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک گھر میں مہمان اتریں، میزبان کی دولڑکیوں کوجوجوان ہوچلی تھیں دیکھا کہ بے چادر اوڑھے نماز پڑھ رہی ہیں؛ تاکید کی کہ آئندہ کوئی لڑکی بے چادر اوڑھے ہوئے نماز نہ پڑھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے۔ (مسند:۶/۹۶) ایک دفعہ ان کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور معمولی طور پرجھٹ پٹ وضو کرکے چلے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ٹوکا کہ عبدالرحمن وضواچھی طرح کیا کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومیں نے کہتے ہوئے سنا ہے کہ وضو میں جوعضو نہ بھیگے اس پرجہنم کی پھٹکار ہو۔ (مسند:۶/۳۸۵) ایک بار انہوں نے ایک عورت کودیکھا کہ اس کی چادر میں صلیب کے نقش ونگار بنے ہوئے ہیں دیکھنے کے ساتھ ڈانٹا کہ یہ چادر اتاردو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کپڑوں کودیکھتے تھے توپھاڑ ڈالتے تھے۔ (مسند:۶/۱۴۰) ایک بار ان کی بھتیجی حفصہ بنت عبدالرحمن نہایت باریک ڈوپٹہ اوڑھ کرسامنے آئیں دیکھنے کے ساتھ ہی غصہ سے ڈوپٹہ کوچاک کردیا؛ پھرفرمایا: تم نہیں جانتیں کہ سورۂ نور میں خدا نے کیا احکام نازل فرمائے ہیں اس کے بعد گاڑھے کا ڈوپٹہ منگواکر اوڑھایا۔ (موطا امام مالک، کتاب اللباس)