انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حیات طیبہ۶۱۰ء تا ۶۱۳ء خفیہ دعوت بعثت کے بعد تین سال تک خفیہ دعوت کا سلسلہ جاری رہا ، پہلی وحی کے نزول کے بعداگر چہ کہ دعوت و تبلیغ کاعلانیہ حکم نہیں آیا تھا پھر بھی آپ ﷺ لوگوں کو چپکے چپکے سمجھاتے رہے کہ اللہ ایک ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے، بُت پرستی سے منع کرتے، مختصر یہ کہ یہ تعلیم ایمان ِ مفصل پر مبنی تھی؛یعنی ایمان لانا اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ،اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر،یومِ آخرت پر اور اس بات پربھی کہ خیر و شر ہر چیز کی تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ابتدأ میں ایمان لانے والوں کو مومن یا مسلم کے بجائے مُصدّق کہتے تھے یعنی وہ جو رسول ﷺکی دعوت کی تصدیق کرتے تھے ، دعوت کیا تھی: ۱- توحید یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ۲- محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، ان کی رسالت کی گواہی دینا ، ۳- جو لوگ محمد ﷺ کی دعوت پر ایمان لائیں وہ دوسروں کو شرک کی تاریکی سے نکالیں ، آنحضرت ﷺنے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو سخت مشکلیں پیش نظر تھیں، اگر آپﷺ کا فرض اسی قدر ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح صرف تبلیغ دعوت پر اکتفا فرمائیں یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنی قوم کو لے کرمصر سے نکل جائیں تو مشکل نہ تھی؛ لیکن خاتم النبین ﷺ کا کام خود سلامت رہ کر عرب اور نہ صرف عرب بلکہ تمام عالم کو فروغِ اسلام سے منور کردینا تھا اس لئے نہایت تدبیر اور تدریج سے کام لینا پڑا، سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ پُر خطر راز پہلے کس کے سامنے پیش کیا جائے، اس کے لئے صرف وہ لوگ انتخاب کئے جا سکتے تھے جو فیض یاب صحبت رہ چکے تھے، جن کو آپﷺ کے اخلاق و عادات اور حرکات و سکنات کا تجربہ ہو چکا تھا، جو پچھلے تجربوں کی بنأ پر آپﷺ کے صدق دعویٰ کا قطعی فیصلہ کر سکتے تھے۔ حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ کی حرم محترم تھیں، آپﷺ کے عم زاد بھائی حضرت علیؓ تھے جو آپﷺ کی آغوش تربیت میں پلے تھے، زیدتھے جو آپﷺ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے تھے، آپﷺ کے جگری دوست ابو بکرؓتھے جو برسوں سے فیض یاب خدمت تھے ، سب سے پہلے آپﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو یہ پیغام سنایا ، وہ سنتے ہی ایمان لے آئیں، پھراور بزرگوں کی باری آئی اور سب ہمہ تن اعتقاد تھے ( سیرۃ النبی جلد اول ) اس تین سالہ دور میں نماز بھی مسلمان کسی گھاٹی میں چھپ کر ادا کرتے ، حضور ﷺکعبہ میں چاشت کی نماز پڑھتے جس کو قریش نہیں روکتے تھے، جب حضور ﷺ کوئی اور نماز پڑھتے تو حضرت علیؓ اور حضرت زید ؓ پہرہ دیتے تھے ( سیرت احمد مجتبیٰ) ان ہی ایام میں ایک دن حضور اکرم ﷺ اور حضرت علیؓ ایک درّہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اتفاقاً ابو طالب وہاں آئے اور نماز ختم ہونے کے بعد حضور ﷺ سے پوچھے کہ یہ کیا دین ہے اور یہ کیسی عبادت ہے ؟ اس وقت تک حضرت علیؓ نے اپنے والدین پر اپنے اسلام قبول کرنے کا ذکر نہیں کیا تھا، حضورﷺ نے جواب دیا کہ یہی اللہ کا دین ہے اور اسی کی طرف بلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بنایا ہے، حضور ﷺ نے چچا ابو طالب کو اس دین کو قبول کرنے کی دعوت دی ؛لیکن انھوں نے کہا کہ وہ اپنا آبائی دین نہیں چھوڑ سکتے ، ابو طالب نے یہ بھی کہا کہ جب تک وہ زندہ ہیں انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتااور اپنے فرزند حضرت علی ؓ کو حضو ر ﷺ کاساتھ دینے کی تلقین کی۔ (شاہ مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ) خفیہ تین سالہ تبلیغ کے دوران جن لوگوں نے اپنے اسلا م کو ظاہر کیا وہ حضرت ابو بکر ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت بلال ؓ بن رباح ، حضرت خبابؓ بن ارت، حضرت یاسر ؓ بن عامر ، حضرت عمار ؓ بن یاسر، حضرت صہیب ؓ بن سنان اور حضرت سمیّہ ؓ بنت سلم شامل ہیں، مکہ سے باہراسلام قبول کرنے کا شرف حضرت ابو ذرؓ غفاری کو حاصل ہوا۔ (طبقات ابن سعد اور دیگر کتب) ان کے علاوہ اسلام لانے میں سبقت کرنے والوں میں حضرت عثمانؓ بن عفان ، حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص، حضرت زبیرؓ بن عوام ، حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح ، حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف ، حضرت ابو سلمہؓ بن عبدالاسد ، حضرت عثمانؓ ابن مظعون، حضرت عبیدہؓ بن حارث بن عبدالمطلب،حضرت سعیدؓ بن زید، حضرت خالدؓ بن سعید بن العاص، حضرت ارقمؓ بن الارقم ، حضرت نَعیم بن عبداللہ، حضرت بلالؓ حبشی، حضرت طلحہؓ بن عبیداﷲ ، حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود ، حضرت جعفر ؓ بن ابو طالب، حضر ت عبداللہ ؓ بن جحش ، حضرت سائب ؓ ، حضرت عبداللہ ؓ بن مظعون ، حضرت قدامہ ؓ بن مظعون اور حضرت سائب ؓ بن عثمان ، حضرت مسعود ؓ بن ربیعہ ، حضرت خنیس ؓ بن خذامہ سہمی اور حضرت عیاش ؓ بن ربیعہ شامل ہیں۔ دعوت و تبلیغ کا سلسلہ خفیہ طور پر جاری رہا ، تقریبا ً ڈھائی سال کا عرصہ گزرا تھا کہ ایک دن کچھ مسلمان جن میں حضرت عمار بن یاسر، حضرت عبداللہؓ بن مسعود، حضرت سعد ؓبن ابی وقاص ، حضرت خباب ؓ بن ارت اور حضرت سعید ؓبن زید شامل تھے مکہ سے کچھ دور ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ کچھ کافر وہاں پہنچے اور ان سب کو نماز پڑھتے دیکھ کر مذاق اُڑانے لگے ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص انیس(۱۹)سالہ نوجوان تھے جنھوں نے کافروں کے مذاق سے تنگ آ کر سامنے پڑے اونٹ کے ڈھانچے کی ایک ہڈی اٹھائی اور بنی تیم کے عبداللہ بن خطل کے سر پر اپنی پوری طاقت سے دے مارا جو کہ سب سے آگے تھا، اس کے ساتھ ہی اس کافر کا خاتمہ ہو گیا،یہ اسلام کی حمایت میں پہلی ضرب تھی۔(شاہ مصباح الدین شکیل، سیرت احمد مجتبیٰ) حضرت سعد ؓبن ابی وقاص بعد کو فاتح ایران بنے