انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت زائدہ بن قدامہؒ نام ونسب زائدہ نام ابو المصلت کنیت اورباپ کا نام قدامہ تھا (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۳)اس کے بعد کا سلسلہ نامعلوم ہے،بنو ثقیف سے نسبت ولاءرکھنے کی بنا پر ثقفی اوراپنے مولد وطن کوفہ کی طرف منسوب ہوکر کوفی کہلاتے ہیں۔ علم وفضل علمی حیثیت سے بلند پایہ اتباع تابعین کی جماعت میں کئی حیثیتوں سے بہت ممتاز تھے،علامہ خزرجی احد الاعلام،اورحافظ ذہبی امام وحجت کے الفاظ سے ان کا ذکر کرتے ہیں۔ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۱۲۱،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۴) حدیث میں ان کے تبحر اورکمال کا یہ عالم تھا کہ امام احمد فرماتے ہیں،اگر تم زائدہ سے مروی کوئی حدیث سُن لو تو پھر اس کی کوئی پرواہ اورغم نہ کرو کہ تمہیں کسی دوسرے راوی سے سماع حاصل نہیں، یعنی زائدہ کی روایت ہی مستند ترین اورکافی ہے۔ حدیث زائدہ نے اپنے وقت کے بہت سے نادرۂ روزگار ائمہ وشیوخ سے حدیث کی تحصیل اوراس میں مہارت حاصل کی تھی، انہیں جن فضلائے زمن سے فیض صحبت اوراکتساب علم کی سعادت نصیب ہوئی، ان میں ابو اسحاق سبیعی،عبدالملک بن عمیر، سلیمان التیمی،اسماعیل بن ابی خالد، اسماعیل السدی،حمید الطویل،زیاد بن علاقہ،سماک بن حرب،شعیب بن غرقد، ہشام بن عروہ،اعمش اورہشام بن حسان جیسے نامور علماء شامل ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۳/۳۰۶) تلامذہ ان کے خوشہ چینوں کی تعداد بھی کثیر ہے جن میں سے مشہور الجعفی،عبدالرحمن بن مہدی،سفیان بن عیینہ،ابواسحاق المفزاری،طلق بن غنام،معاویہ بن عمر،ابو نعیم ،احمد بن یونس۔ (تہذیب التہذیب:۳/۳۰۶) روایت میں احتیاط حدیث میں بایں ہمہ تبحر و کمال کے زائدہ بن قدامہ روایت کرنے میں غایت درجہ محتاط تھے وہ رواۃ حدیث کی ثقاہت وعدالت اور دوسرے احوالِ زندگی کی تحقیق وتفتیش میں بڑی ژرف نگاہی کا ثبوت دیتے اور چھان بین کے بعد جب راوی کی زندگی مثل آئینہ بے داغ اورشفاف نظر آتی ،جب ہی اس کی روایت کو شرفِ قبول بخشتے تھے، اس خصوصیت کی بنا پر ان کی تمام مرویات اعلیٰ درجہ کی ہیں،امام ابو داؤد طیالسی روایتِ حدیث میں ان کی اس فرطِ احتیاط کی نسبت خامہ ریز ہیں کہ: کان لا یحدث صاحب بدعۃ (العبرنی خبر من غبر:۱/۲۳۶) وہ کسی اہل بدعت سے روایت نہیں کرتے تھے،علاوہ ازیں ان کے تلمیذ رشید سفیان بن عیینہ کا قول ہے کہ: حدثنا زائد ۃ بن قدامۃ وکان لا یحدث قدریاولا صاحب بدعۃ (تہذیب التہذیب:۳/۳۰۶) زائدہ بن قدامہ نے ہم سے حدیث روایت کی ہے اور وہ کسی قدری یا بدعتی سےر وایت نہیں کرتے تھے۔ تثبت واتقان کسی حدیث کی صحت اور علو کے لیے راوی کا متقن اورثبت ہونا بھی ضروری ہے،زائدہ اس صفت سے بھی بدرجۂ اتم متصف تھے، علامہ ذہبی اتقان میں انہیں امام شعبہ کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ کان من نظراء شعبۃ فی الاتقان (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۴) وہ اتقان میں امام شعبہ کی نظیر تھے۔ امام احمد کا قول ہے: المثبتون فی الحدیث اربعۃ سفیان وشعبۃ وزھیروزائدۃ (تہذیب التہذیب:۳/۲۰۶) حدیث میں چار اشخاص بہت بلند مرتبہ تھے سفیان ،شعبہ،زہیر اورزائدہ بن قدامہ صداقت وعدالت اورائمہ کا اعتراف تمام ائمہ و علماء اور ماہرین فن نے بالاتفاق زائدہ کی ثقاہت ،عدالت اورصداقت کا اعتراف کیا ہے؛چنانچہ ابوزرعہ کا بیان ہے کہ صدوق من اھل العلم (ایضاً) ابو حاتم کہتے ہیں: کان ثقۃ صاحب سنۃ وھواحب الی من ابی عوانۃ (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۳۶،وخلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۱۳۱) وہ ثقہ مامون اورصاحبِ سنت تھے۔ ابو اسامہ جنہیں زائدہ سے خصوصی تلمذ کا شرف حاصل تھا، اپنے شیخ کی صداقت اورصالحیت کے متعلق بصراحت بیان کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سچے اور نیک انسان تھے، کان من اصدق الناس وابرھم (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۴) علاوہ ازیں ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘کان من الحفاظ المتقنین’امام دارقطنی،نسائی اورابو داؤد الطیالسی نے بھی ان کو ثقہ اورصدوق تسلیم کیا ہے۔ وفات باختلاف روایت ۱۶۰ھ یا ۱۶۱ھ میں انتقال فرمایا،محمد بن عبداللہ الحضرمی کا بیان ہے کہ ان کی وفات سرزمین روم میں کسی جہاد کے دوران ہوئی۔ (تہذیب التہذیب:۳/۳۰۷) اس کی تائید علامہ بن سعد کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے: توفی زائدۃ بارض الروم عامہ غزالحسن بن قحطبۃ الصائفۃ سنۃ ستین اواحدی وستین ومائۃ (طبقات ابن سعد:۶/۳۶۳) زائدہ کی وفات ارضِ روم میں اس سال ہوئی جب صائف نے جنگ کی تھی وہ ۱۶۰ ھ یا ۱۶۱ھ تھا۔ علامہ خزرجی نے مطین کا یہ قول نقل کیا ہے: مات زائدۃ غازیاً بارض الروم سنۃ انثتین وستین ومائۃ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۱۳۱) زائدہ کی وفات ارض روم میں ۱۶۲ ھ میں جنگ کرتے ہوئے ہوئی۔