انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یزید کی ولیعہدی مغیرہ بن شعبہ، امیر معاویہؓ کے بڑے ہمدرد ہوا خواہ تھے انہوں نے ان کے سامنے یزید کی ولیعہدی کی تجویز پیش کی، امیر معاویہؓ نے اس قیصری اورکسروی بدعت کو بہت پسند کیا ، لیکن اس کوعملی جامہ پہنانے میں چنددرچند مذہبی اور پولیٹکل دقتیں حائل تھیں، اسلام کا نظام شوریٰ پر ہے، خلفاء اکابر مہاجرین وانصار کے مشورہ سے منتخب ہوتے تھے ،اس لئے مسلمان موروثی بادشاہت سے بالکل نا آشنا تھے،گو اس زمانہ میں اکابر صحابہ کی بڑی جماعت اٹھ چکی تھی، تاہم بعض جانشینانِ بساطِ نبوت موجود تھے، اس لئے قطع نظر توارث کی بدعت کے صلاحیت اوراہلیت کے اعتبار سے بھی ان صحابہ کے ہوتے ہوئے خلافت کے لئے یزید کا نام کسی طرح نہیں لیا جاسکتا تھا اورگو عہد رسالت کے بُعد اور نظام خلافت کی برہمی کی وجہ سے مسلمانوں کا مذہبی جذبہ کسی حد تک سرد پڑچکا تھا تاہم ابھی خلافتِ راشدہ کے نظام کو دیکھنے والے موجود تھے اور عجمی شاہ پرستی ان میں پیدا نہ ہوئی تھی اور اتنے کھلے ہوئے خطا و ثواب میں حق و باطل کی تمیز باقی تھی کہ یزید کا نام خلافت کے لئے پیش کیا جاتا اور مسلمان اس کو آسانی سے قبول کرلیتے ،اس لئے امیر معاویہؓ کو پہلے اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں تامل ہوا؛ لیکن پھر کچھ یزید کی محبت اورکچھ اپنے نزدیک مسلمانوں کو خانہ جنگی سے بچانے اوران کی مرکزیت کو مستحکم کرنے کے خیال سے تمام پہلوؤں اوردشواریوں کو نظر انداز کرکے یزید کی ولیعہدی کا فیصلہ کرلیا، اس وقت مذہبی اور پولٹیکل حیثیت سے مسلمانوں کے تین مرکز تھے، جن کی رضا مندی پر انتخاب خلیفہ کا دار ومدار تھا، مذہبی حیثیت سے حجاز اور پولٹیکل حیثیت سے کوفہ اور بصرہ ،امیر معاویہؓ نے ولیعہدی کے فیصلہ کے بعد ان تینوں مقاموں میں یزید کی ولیعہدی کی بیعت کی ذمہ داری علی الترتیب مروان بن حکم ،مغیرہ بن شعبہ اورزیاد بن ابی سفیان کے سپرد کی،مغیرہ اورزیاد نے حسن تدبیر سے کوفہ اوربصرہ کو درست کرلیا اور یہاں کے عمائد کے وفود نے امیر معاویہؓ کے پاس جاکر یزید کی ولیعہدی تسلیم کرلی، قلب اسلام حجاز تھا،اگرچہ اس وقت یہاں بھی عہد رسالت کی بہار ختم اورمذہبی روح مضمحل ہوچکی تھی، اکابر صحابہ اٹھ چکے تھے جو باقیات الصالحات رہ گئے تھے وہ بھی گمنام گوشوں میں پڑے تھے؛ لیکن ان بزرگوں کی اولادیں جنہیں خود بھی شرفِ صحبت حاصل تھا موجود تھے اوران میں حق گوئی اور صداقت کا جو ہر پورے طور پر موجود تھا، ان میں عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت حسینؓ اور عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نمایاں شخصیت رکھتے تھے،خصوصا ًاول الذکر تینوں بزرگ اپنے اسلاف کرام کا نمونہ تھے،اس لئے جب مروان نے ان کے سامنے یزید کی ولیعہدی کا مسئلہ پیش کیا اور کہا کہ امیر المومنین معاویہؓ چاہتے تھے کہ ابو بکرؓ و عمرؓ کی طرح اپنے لڑکے یزید کو خلافت کے لئے نامزد کرجائیں،تو عبدالرحمنؓ نے بر ملا ٹوکا کہ یہ ابو بکرؓ و عمرؓ کی سنت نہیں ؛بلکہ کسریٰ وقیصر کی سنت ہے،ان دونوں میں سے کسی نے بھی اپنے لڑکے کو ولیعہد نہیں بنایا ؛بلکہ اپنے خاندان تک کو اس سے دور رکھا (تاریخ الخلفاء سیوطی:۱۹۵) ان کے بعداور تینوں بزرگوں نے بھی اس سے اختلاف کیا ،مروان نے یہ رنگ دیکھا تو امیر معاویہؓ کو اس کی اطلاع دی؛چنانچہ یہ خود آئے اورمکہ مدینہ والوں سے بیعت کا مطالبہ کیا اس بارہ میں کہ معاویہؓ نے بیعت کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا تھا مؤرخین کے بیانات مختلف ہیں،طبری کی روایت ہے کہ ان کے آنے کے بعد ابن عمرؓ،ابن زبیرؓ، ابن عباسؓ، ابن ابی بکرؓ، اورحسینؓ کے علاوہ سبھوں نے بیعت کرلی، بیعت عام کے بعد پھر انہوں نے فرداً فرداً سب سے نہایت نرم دلی وملاطفت کے ساتھ کہا کہ تم پانچوں کے سوا سب نے بیعت کرلی ہے اور تمہاری قیادت میں یہ چھوٹی جماعت مخالفت کررہی ہے ان کے اس اعتراض پر ان لوگوں نے جواب دیا کہ اگر عامہ مسلمین بیعت کرلیں گے تو ہمیں بھی کوئی عذر نہ ہوگا، اس جواب پر امیر معاویہؓ نے پھر ان لوگوں سے کوئی اصرار نہیں کیا، البتہ عبدالرحمن بن ابی بکرؓ سے سخت گفتگو ہوگئی۔ (طبری:۷۱۷۷) ابن اثیر کا بیان ہے کہ جب امیر معاویہؓ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا تو انہوں نے امیر معاویہؓ سے گفتگو کرنے کے لئے ابن زبیر کو اپنا نمائندہ بنایا، معاویہؓ نے ان سے کہا کہ میرا جو طرز عمل تم لوگوں کے ساتھ ہے اور جس قدر تمہارے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں اور تمہاری جتنی باتیں برداشت کرتا ہوں وہ سب تم کو معلوم ہیں، یزید تمہارا بھائی اور ابن عم ہے میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ اس کو صرف خلیفہ کا لقب دے دو، باقی عمال کا عزل ونصب ،خراج کی تحصیل وصول اوراس کا صرف تم لوگوں کے اختیار میں ہوگا اور وہ اس میں مطلق مزاحمت نہ کرے گا، اس پر ابن زبیر نے کہا کہ آنحضرت ﷺ سے لے کر عمرؓ تک جو جو طریقے انتخاب خلیفہ کے تھے ان میں جو بھی آپ اختیار کریں اس کے قبول کرنے کے لئے ہم تیار ہیں،باقی ان کے علاوہ اورکوئی جدید طریقہ نہیں قبول کرسکتے، امیر معاویہؓ نے یہ جواب سنا تو ان سب کو دھمکاکر بیعت لے لی اوران کو عام مسلمانوں کے سامنے لاکر کہا کہ یہ لوگ مسلمانوں کے سربر آوردہ اشخاص ہیں ،انہوں نے بیعت کرلی ہے ،اس لئے اب تم لوگوں کو بھی توقف نہ کرنا چاہیے امیر معاویہؓ کے اس کہنے پر یہ لوگ خاموش رہے،اس لئے عوام نے بھی بیعت کرلی (ابن اثیر ،جلد۳،صفحہ۴۲۳،اس موقع پر ہم نے ابن زبیرؓ اور معاویہؓ کی گفتگو کا خلاصہ لکھا ہے انشا اللہ تعالی تفصیلی گفتگو ابن زبیرؓ کے حالات میں لکھی جائے گی، ابن اثیر نے یہ واقعہ ۵۶ھ میں لکھا ہے،جو صحیح نہیں،اس لئے کہ مغیرہ بن شعبہ کا انتقال بالاتفاق۵۰ھ میں ہوچکا تھا ) غرض کسی نہ کسی طرح ۵۶ھ میں امیر معاویہؓ نے یزید کی بیعت لے کر نظامِ خلافت کا خاتمہ کردیا۔