انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** طاہر بن حسین گورنرِخراسان کی وفات طاہر بن حسین نے خراسان پہنچ کراپنی حکومت واقتدار کے قائم کرنے میں بآسانی کامیابی حاصل کرکے وہاں کے تمام فتنوں کوفرو کردیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ خراسان کی گورنری وحکومت کے لیے بہت موزوں شخص تھا، جیسا کہ اوپر مذکور ہوچکا ہے، طاہر کومامون الرشید کی طرف سے اطمینان حاصل نہ تھا، ممکن ہے کہ اس نے مامون سے دور ہوکر اور ایک وسیع ملک پرقابض ومتصرف ہوکر اپنی حفاظت کے لیے ایسے سامان کئے کہ مامون کی گرفت میں نہ آسکے، وہ فضل بن سہل کا انجام دیکھ چکا تھا، اس کوبرامکہ کا انجام معلوم تھا، وہ ابومسلم خراسانی کا حال سن چکا تھا، وہ اپنی نسبت مامون کی اس رائے کوبھی جانتا تھا جواُس کوحسین ندیم کے ذریعہ معلوم ہوئی تھی؛ غرض سنہ۲۰۷ھ کے ماہ جمادی الثانی میں طاہر نے جامع مسجد مرَو میں جمعہ کے روز خطبہ دیا اور اس خطبہ میں خلیفہ مامون الرشید کا نام نہیں لیا، نہ اُس کے لیے دُعا کی، صرف اصلاحِ اُمت کی دُعا کرکے منبر سے اُترآیا، کلثوم بن ثابت خراسان کا پرچہ نویس موجود تھا، اس نے فوراً اس واقعہ کی اطلاع لکھ کرمامون کے پاس بغداد روانہ کی، مامون نے جب اس عرض داشت کوپڑھا تواحمد بن ابی خالد وزیرِاعظم کوطلب کرکے اطلاع دی اور حکم دیا کہ فوراً فوج لے کرخراسان کی طرف روانہ ہو اور چونکہ تم ہی طاہر کے ضامن بنے تھے؛ لہٰذا اب تم ہی جاکر خراسان کواس کے فتنے سے بچاؤ اور طاہر کوگرفتار کرکے لاؤ، احمد بن ابی خالد نے سفرِخراسان کے لیے تیاری شروع کردی، اگلے دن بغداد میں مامون الرشید کے پاس دوسرا پرچہ پہنچا کہ طاہر نے ہفتہ کے روز انتقال کیا، طاہر کا انتقال دفعۃً ہوا جمعہ کے دن ہی اُس کوبخار چڑھا اور شنبہ کے روز جب دیر تک خواب گاہ سے برآمد نہ ہوا تولوگ اندر گئے اور دیکھا کہ طاہر چادر اوڑھے ہوئے مردہ پڑا ہے، غالباً اسی غلام نے جومامون الرشید نے رُخصت کرتے وقت طاہر کوعطا کیا تھا طاہر کی نیت بدلی ہوئی دیکھ کراس کوزہر دے دیا۔ مامون الرشید نے طاہر کے مرنے کی خبر سن کرکہا کہ: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ قدّمه وَأَخَّرْنَا۔ یعنی خدا کا شکر ہے کہ اس نے طاہر کومجھ سے پہلے ہی وفات دی، اس کے بعد مامون نے طاہر کے بیٹے طلحہ بن طاہر کوخراسان کی سندِ حکومت عطا فرمائی اور احمد بن ابی خالد کوخراسان اس لیے روانہ کیا کہ وہ جاکر طلحہ بن طاہر کواچھی طرح خراسان پرقابض ومتصرف کرے اور کسی بغاوت وسرکشی کے امکان کوباقی نہ رہنے دے، مامون کی یہ خصلت خاص طور پرقابل تذکرہ ہے کہ وہ ہرایک باغی یاسکش کواس کی بداعمالی کی سزا دیتا اور قتل کرادینے میں دریغ نہ کرتا تھا؛ مگراس مجرم کے خاندان اور متعلقین کوکوئی نقصان نہیں پہنچاتا؛ بلکہ اور زیادہ احسان کرکے اپنا لیتا تھا، احمد بن ابی خالد نے خراسان جاکر اور ماوراء النہر کے علاقہ میں پہنچ کروہاں کے سرکش لوگوں کوقرار واقعی سزائیں دیں اور جب یہ خبر سنی کہ طاہر کے بھائی حسین بن حسین بن مصعب نے کرمان میں علم بغاوت بلند کیا ہے توکرمان پہنچ کراس کوگرفتار کیا اور مامون کی خدمت میں لاکر اس کوپیش کیا، مامون نے حسین بن حسین کی خطا معاف کردی، احمد بن ابی خالد جب خراسان سے دارالخلافہ بغداد کی طرف واپس آنے لگا توطلحہ بن طاہر نے تیس لاکھ درم نقد اور ایک لاکھ کا اسباب بطورِ نذر احمد بن ابی خالد کی خدمت میں پیش کیا اور اس کے کاتب کوپانچ لاکھ درم دیئے۔ اسی سال مامون نے عیسیٰ بن یزید جلودی کومعزول کرکے داؤد بن منجور کومہم زط پرمامو فرمایا اور مضافاتِ بصرہ ودجلہ اور یمامہ وبحرین اس کی حکومت میں دیئے اسی سال محمد بن حفظ کوطبرستان وغیرہ کی حکومت سپرد کی؛ اسی سال بنوشیبان نے علم بغاوت بلند کیا، مامون الرشید نے سید بن انس کوان کی سرکوبی پرمامور کیا، مقام وسکرہ میں بنوشیبان سے لڑائی ہوئی اور وہ اچھی طرح سے پامال وخستہ حال کردیئے گئے۔ اسی سال مامون الرشید نے محمد بن جعفر عامری کونصر بن شیث کے پاس جس کوعبداللہ بن طاہرمتواتر لڑائیوں کے بعد دباتا اور ہٹاتا جاتا تھا، بطورِ سفیرروانہ کیا اور اطاعت قبول کرلینے کی ترغیب دی، نصر بن شیث نے کہا کہ میں مامون الرشید سے صلح کرلینے پرآمادہ ہوں؛ لیکن شرط یہ ہے کہ میں مامون کے دربار میں حاضر نہ ہوں گا، مامون کے پاس واپس آکر محمد بن جعفر نے یہ شرط نصر کی طرف سے سنائی تواس نے قسم کھائی کہ میں جب تک نصر کواپنے دربار میں حاضری کے لیے مجبور نہ کرلوں گا چین سے نہ بیٹھوں گا، نصر نے اپنے ہمراہیوں سے جو سب کے سب عرب تھے کہا کہ مامون الرشید جوقومِ زط کے مینڈکوں کوابھی تک مغلوب نہ کرسکا، بھلا ہم عربوں پرکہاں غلبہ پاسکتا ہے؛ چنانچہ وہ پہلے سے زیادہ مستعدی کے ساتھ لڑائی اور زور آزمائی پرمستعد ہوگیا۔