انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اشاعت قرآن مجید حضرت حذیفہ بن الیمانؓ جب بصرہ،کوفہ،رے، شام وغیرہ ہوتے ہوئے مدینہ منورہ میں واپس تشریف لائے،تو انہوں نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ عراق والے قرآن مجید کو ایک اور قرأت پر پڑھتے اور شام والے کسی دوسری قرأت کو پسند کرتے ہیں،بصرہ والوں کی قرأت کوفہ والوں سے اور کوفہ والوں کی قرأت فارس والوں سے الگ ہے،مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب کو ایک ہی قرأت پر جمع کیا جائے،حضرت عثمان غنیؓ نے صحابہ کرام کو جمع کرکے مجلس مشورت منعقد کی،سب نے حذیفہ بن الیمانؓ کی رائے کو پسند فرمایا،اُس کے بعد حضرت عثمان غنیؓ نے حضرت حفصہؓ کے پاس سے قرآن مجید کا وہ نسخہ منگوایا جو خلافت صدیقی میں حضرت زید بن ثابتؓ اور دوسرے صحابہ کے زیر اہتمام جمع اور مرتب ہوا تھا اور اول حضرت ابوبکرصدیقؓ کے پاس پھر اُن کے بعد فاروق اعظمؓ کے زیر تلاوت رہا اور فاروق اعظمؓ کی شہادت کے بعد حضرت حفصہؓ کے پاس تھا،اس قرآن مجید کی نقل اور کتابت پر عثمان غنی نے کئی معقول وموزوں حضرات کو معمور کیا، جب بہت سی نقلیں تیار ہوگئیں، تو ایک نسخہ بڑے بڑے شہروں میں بھیج کر ساتھ ہی حکم بھیجا کہ سب اسی کے موافق قرآن مجید نقل کرائیں اور پہلی جو نقل جس کے پاس ہو وہ جلادی جائے کوفہ میں جب قرآن مجید پہنچا تو صحابۂ کرام بہت خوش ہوئے، لیکن عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنی ہی قرأت پر اصرار کیا۔